Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رسول اکرمﷺ اور سلف صالحین کا رمضان المبارک

سلف صالحین کا معمول تھا کہ تہجد میں 7راتوں میں ایک قرآن ختم کرتے جبکہ بعض 10راتوں میں قرآن پاک ختم کرنے کا اہتمام کرتے
 
(روشنی ڈیسک)
رمضان المبارک کا مہینہ بندوں کیلئے قدرت کا انمول تحفہ ہے۔اس میں روزے دراوں کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں، اس کا پہلا عشرہ رحمت دوسرا مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے خلاصی کا ہے۔ اسے اللہ بزرگ و برتر کا مہینہ قراردیا گیا ہے۔ اس کی ایک ایک ساعت بیش بہا نعمتوں سے مالامال ہے، اس کے ہر شب وروز میں لاکھوں کی تعداد میں جہنمیوں کو آزاد کیا جاتا ہے ۔ حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم کا ارشاد ہے : رمضان المبارک کی ہر شب و روز میں اللہ تعالیٰ جہنم سے قیدیوں کو رہا کرتا ہے اور ہر شب وروز میں روزے داروں کی ایک دعاضرور قبول کی جاتی ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزارمہینوں سے افضل اور بہتر ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یقینا ہم نے اسے (قرآن کریم کو )شب قدر میں نازل کیا ہے، کیا تمہیں معلوم ہے کہ شب قدر کیا چیزہے، ایک شب قدر ہزار مہینوں سے افضل اور بہتر ہے جس میں اللہ رب العزت کے حکم سے فرشتے اور روح الامین( حضرت جبریل علیہ السلام) اترتے ہیں ، یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور طلوع فجر تک رہتی ہے ۔(القدر)
ایک روایت میں آتا ہے کہ اگر لوگوں کو اس بات کا علم ہو جائے کہ رمضان المبارک میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے کیسی کیسی نعمتیں اور برکتیں پنہاں رکھی ہیں تو وہ تمنا کرینگے کہ سارا سال رمضان ہی ہو۔ جب یہ مبارک مہینہ قریب آتا تو آپ اس کے استقبال کی تیاریاں شروع فرمادیتے اور اس میں عبادت و بندگی کیلئے کمرکس لیتے ۔ازواج مطہر اتؓ اور صحابہ کرامؓ کو بھی اسکی تلقین فرماتے۔ یو ں تو نبی کریم ہمہ وقت عبادت و بندگی اور یاد الٰہی میں مصروف رہتے لیکن رمضان المبارک میں اس میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ۔ اس ماہ مبارک کی عظمت وشان کیلئے یہ کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کیلئے جتنی بھی کتابیں، صحیفے اور احکام نازل فرمائے وہ سب کے سب اسی ماہ میں نازل کئے گئے چنانچہ مکمل قرآن کریم لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اسی ماہ میں نازل اور پھر وہاں سے آپ پر بتدریج حسبِ ضرورت 23سال میں نازل ہوا۔اس کے علاوہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تمام صحیفے اسی ماہ کی یکم یا 3کو نازل ہوئے۔
حضرت داؤد کو زبور18یا 12رمضان کو ملی، حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تو ریت 6رمضان کو اتاری گئی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انجیل 12یا 13رمضان کو ملی ۔اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس ماہ مبارک کو کلام الٰہی سے خصوصی مناسبت ہے۔ اسی وجہ سے اس ماہ میں کثرت سے تلاوت کلام پاک کی تاکید کی گئی ہے۔
سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام رمضان المبارک میں روزانہ تشریف لاتے اور نبی کریم کو قرآن سنا تے ۔بعض روایت میں آیا ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام خود آنحضرت سے قرآن کریم سنتے تھے ۔اگلے پچھلے تمام گناہوں کی مغفرت کا مژدہ ملنے کے بعد بھی آپ اتنی لمبی نمازیں پڑھتے کہ آپ کے پاؤں مبارک میں ورم ہوجاتے ۔متعدد روایات میں آیا ہے کہ رمضان المبارک میں نبی کریم کے اوراد و اذکار ، تلاوت کلام پاک اور دیگر عبادتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ۔آپ سب سے زیادہ سخی اور فیاض تھے لیکن اس مہینے میں سخاوت و فیاضی میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوجاتا ۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ نہایت شفیق، ہمدرد، رحم دل اور مہربان انسان تھے ۔جنگوں میں گرفتار کئے گئے قیدیوں اور اسیروں کے ساتھ ہمدردی اور حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم فرماتے اور آپ کی ہمیشہ کوشش رہتی تھی کہ قیدیوں اور اسیروں کوطویل مدت کیلئے پابند سلاسل نہ رکھاجائے بلکہ انہیں آزاد کردیا جائے اور جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو آپ تمام قیدیوں کو آزاد کرتے ، کوئی سائل درِ رسالت پر پہنچتا تو وہ محروم نہیں ہوتا جو کچھ بھی دولت کدے پر موجود ہوتا آپ عنایت فرمادیتے تاہم رمضان المبارک میں آپ کا معمول سب سے زیادہ تلاوت کلام پاک کا تھا ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نے حضور اقدس سے نقل کیا ہے: جو شخص ایک آیت کلام اللہ شریف کی سنے گا اس کیلئے دوچند نیکی لکھی جاتی ہے اور تلاوت کرنے والوں کیلئے قیامت کے دن ایسا نور ہوگا جو سورج سے زیادہ روشن اور تابندہ ہوگا ۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس نے ارشاد فرمایا: روزہ اور قرآن شریف دونوں بندے کیلئے قیامت کے روزشفاعت کرینگے ۔روزہ بارگاہِ خداوندی میں عرض کریگااے اللہ میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور نفسانی خواہشات پر عمل کرنے سے روکے رکھا میری شفاعت قبول کیجئے اورقرآن کریم کہے گا اے اللہ میں نے رات کواسے سونے سے روکے رکھا ، میری شفاعت قبول کیجئے ، پس دونوں کی شفاعت قبول کی جائیگی ۔ حضرت سعید بن سلیم ؓ روایت کرتے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن اللہ رب العزت کے نزدیک کلام پاک سے بڑھ کر کوئی سفارش کرنے والا نہ ہوگا نہ کوئی نبی اور نہ فرشتہ وغیرہ ۔ حضرت ابوذر ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس کا ارشاد ہے : کوئی بندہ قرآن کریم کی تلاوت سے زیادہ کسی اور چیز کے ذریعے بارگاہ رب العزت میں تقرب حاصل نہیں کرسکتا ۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ، صحابہ کرام اور سلف صالحین ہمہ وقت تلاوت کلام پاک میں مصروف رہتے۔ اس میں تدبر و تفکر کرتے، اس کی تعلیمات و ہدایات پر عمل کرتے اور اس کے احکام کے خلاف ایک لمحہ بھی نہیں گزارتے، خاص طور پر رمضان المبارک کا مہینہ ان کے لئے نعمت غیرمترقبہ شمار ہوتا تھا۔ وہ اس کے قیمتی لمحات کی بھرپور قدر کر تے اور قرآن پاک کے علوم و معانی کے بحرِ ناپید ا کنارمیں غواصی کرتے رہتے ۔
آئیے ہم سلف صالحین کی پاکیزہ زندگی کا جائزہ لیں کہ وہ رمضان المبارک کے روح پرور ایمان افروز لمحات کو کس طرح گزارتے تھے ۔ حضرت اسود بن یزید ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آجاتا تو ہر چیز سے کنارہ کش ہوجاتے اور کلی طور پر تلاوت کلام پاک میں مصروف ہوجاتے ، ہمہ وقت اس میں مصروف رہتے اوردودنوں میں قرآن پاک ختم کرنے کا اہتمام کرتے ۔ حضرت سعید بن جبیر ؓ کا بھی یہی معمول تھا کہ رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی تمام دنیوی مصروفیتوں کو ترک کردیتے اور تلاوت کلام پاک میں ہمہ تن مشغول ہوجاتے ، امام دار الہجرہ حضرت مالک بن انس ؓ رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی ہر چیز سے دست بردار ہوجا تے یہاں تک کہ احادیث مبارکہ کی تدوین وتالیف ،بحث و تحقیق اور اہل علم کے ساتھ نشست و برخواست سے علیحدگی اختیار کرلیتے اور تلاوت کلام پاک میں مصروف ہوجاتے ۔ حضرت قتادہ ؓ عام دنوں میں 7دنوں میں قرآن کریم ختم فرماتے تھے لیکن جب رمضان کا مہینہ آجاتا تو ہر 3دنوں میں ایک قرآن پاک ختم کرنے کا اہتمام کر تے اور جب اخیر عشرہ آجاتا تو روزانہ ایک قرآن کریم ختم کرتے ۔ امام المحدثین حضرت محمد بن اسماعیل بخاریؒ رمضان المبارک میں تراویح کے بعد تلاوت کلام پاک میں مشغول ہوجاتے اور ہر 3دن میں ایک قرآن کریم ختم کر تے۔ تمام سلف صالحین خاص طور پر رمضان المبارک میں تہجد کا بہت زیادہ اہتمام کرتے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے متعلق روایت ہے کہ جب رات کی تاریکی چھا جاتی اور ہر طرف سکون پھیل جاتاتو آپؓ نہایت اہتمام سے وضو کرکے نماز میں مشغول ہوجاتے اور تہجد پڑھتے رہتے اور شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ کی طرح ان کے سینے سے رونے کی آواز آتی ۔
حضرت طاؤوس ؒ جب بستر پر جاتے تو جہنم کے خوف سے ان کی نیند اڑجاتی ،گھبراتے ہوئے کھڑے ہوجاتے اور وضوکرکے نماز پڑھنے لگتے اس حالت میں پوری رات گزاردیتے ۔ حضرت امام حسن ؓ سے کسی نے دریافت کیا کہ تہجد گزار کے چہرے اس قدرروشن اور پررونق کیوں ہوتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ جب ساری دنیا نیند کی آغوش میں ہوتی ہے تو یہ اللہ رب العزت کے برگزیدہ بندے اپنے نرم نرم بستروں کو چھوڑ کر بارگاہ رب العزت کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور نمازوں میں اس سے مناجات کررہے ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ انہیں نور کی ایسی خلعت عطا کرتا ہے جس سے ان کے چہرے پرُرونق ہوجاتے ہیں۔ حضرت عبدالعزیز بن رواد ؒ کے متعلق سیرت کی کتابوں میں موجود ہے کہ جب رات ہوجاتی او ر وہ اپنے بستر پر جاتے تو بستر کی طرف مخاطب ہوکر فرماتے کہ اے بستر !تو بہت زیادہ نرم اور گداز ہے لیکن جنت کا بستر تجھ سے زیادہ نرم اور گداز ہے اسکے بعد بستر چھوڑ دیتے ، وضوکرکے نماز پڑھنے لگتے۔ حضرت فضیل بن عیاضؒ کا مشہور واقعہ ہے کہ رات آتے ہی نماز،تلاوت کلام پاک اور اور اد و اذکار میں ہمہ تن متوجہ ہوجاتے، بعض سلف صالحین کا معمول تھا کہ رمضان المبارک میں تہجد میں 7راتوں میں ایک قرآن ختم کرتے جبکہ بعض 10راتوں میں تہجد کی نمازوں میں ایک قرآن پاک ختم کرنے کا اہتمام کرتے۔ رمضان المبارک کا مہینہ ہمدردی و غمخواری کا مہینہ ہے ۔
نبی کریم کا ارشاد ہے : کوئی بھی بندۂ مومن کھجور کا ایک دانہ بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر تا ہے تو وہ اسے بڑھا تارہتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے قیامت کے روز احد پہاڑ کی طرح کردیگا جسے دیکھ کر بندہ حیرت میں پڑجائیگا۔ دوسری روایت میں آتا ہے : ہرشخص قیامت کے روز اپنے صدقے کے سائے میں ہوگا، جو شخص اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کیلئے جتنا زیادہ اپنے حلال و پاکیزہ مال سے صدقہ ، خیرات کریگا غریبوں ،محتاجوں ،یتیموں اور بیواؤں کی ضرورتیں پوری کریگا وہ اسی کے بقدر عرش کے سائے کے نیچے ہوگا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ صدقہ مصیبت و پریشانی کے70دروازوں کو بند کرتا ہے اس لئے جتنا ممکن ہوسکے صدقہ خیرات کیا کرو۔ رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی نبی کریم کی سخاوت و فیاضی دیگر مہینوں کے مقابلے میں بڑھ جاتی اور ضرورتمندوں کی ضرورتیں پوری کرنے میں خصوصی توجہ مرکوز فرماتے ۔
حضرت یونس بن یزید ؒ حضرت شہاب الدین زہریؒ کے متعلق رقمطراز ہیں کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آجاتا تو تلاوت کلام پاک ،غریبوں اور مسکینوںکوکھانا کھلانے ، کپڑا پہنانے اور ان کی ضرورتیں پوری کرنے کا خاص اہتمام کر تے ۔ حضرت حماد بن ابوسلیمانؒ رمضان المبارک میں ہر رات50غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلا تے، انہیں کپڑے عنایت کرتے اور ہر ایک کو 100درہم دیتے تاکہ وہ امیروں کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے دسترخوان پر جب تک فقراء و مساکین حا ضرنہیں ہوتے اس وقت تک وہ کھانا تناول نہیں فرماتے۔ نبی کریم رمضان المبارک کے اخیر عشرے میں اعتکاف کا اہتمام کرتے ، حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جب رمضان کا اخیر عشرہ آجاتا تو آپ اپنا بستر لپیٹ دیتے ، اعتکاف فرماتے اور عبادت الٰہی میں پوری طرح متوجہ ہوجاتے۔

شیئر: