Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رمضان المبارک ،صبر وشکر، زہد وتقویٰ اورغم خواری کا مہینہ

-  - - - - - - - -  - - -             - - - - - - - -  - -                       - - - - - - - - - - - - -                
تم پر ایک عظیم ماہ وارد ہونے والا ہے جو بڑا ہی مبارک ہے، اس ماہِ مبارک میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے افضل ہے
* * * *  * * * * * *                           * * *  * * * * * * * *                          * * * * * *  * * *
 اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی نے خود قرآن کریم میں جب اس ماہِ مبارک کا تعارف کرایا تو یوں فرمایا: ’’ یہ رمضان کا مہینہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن اتاراگیا ہے ۔‘‘ حدیث شریف میں بتایا گیا ہے کہ یہ مہینہ قرآن کریم کے لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر بتمامہ نزول کا مہینہ ہے ۔دیگر انبیاء کے صحیفو ں کے نزول کا یہی مہینہ ہے ۔تورات، زبور و انجیل کے نزول کا بھی یہی مہینہ ہے ، تولفظ ( مہینہ) کا مفہوم اس ماہ کے لیل ونہار کی تمام گھڑیاں ہیں جو بحالت صوم ہوں یا بحالت قیام ہوں یا ان کے علاوہ ہوں ۔ ان تمام گھڑیوں کاتقدس ہر گز یہ نہیں کہ روزہ دار صرف کھانے پینے کو تو بند کریں مگر اپنے فرائضِ منصبی میں چوری کریں، پھر فرائضِ ربانی میں سست وکاہل رہیں اور روزہ سوکر یا پھر لہو ولعب میں مشغول رہ کر گزاریں ۔ اس قیمتی وقت کو ٹی وی ڈراموں ‘تاش بازی کے نذر کردیں ۔دن کا اکثر حصہ لہو ولعب سے گزرے اور اس کا آخری حصہ افطار کی تیاریوں میں ،پھر رات شروع ہو تو اس کا اول حصہ افطار میں اور اس کے بعد جلد از جلد قیام سے فراغت حاصل کرکے پوری رات غفلت اور مشروع وغیر مشروع لہو ولعب میں شب باشی کریں ۔ایسے صوم وقیام کا انسان کی اصلاح وتربیت پر کیا اثر ہوسکتاہے ؟ ہماری رائے میں اس روش کا اصل سبب ماہ مبارک کے اس زمنی تقدس سے عدم واقفیت ہے یا اس کا عدم استحضار ہے جس کا ذکر قرآن میں حق تعالیٰ شانہ نے کیا اور سنت میں جناب نبی کریم نے جس کا بیان فرمایا ہے ۔
ہاں جو لوگ اس حقیقت پر مطلع ہیں اور وہ ماہِ مبارک کے ذاتی تقدس سے واقف ہیں اُن کے دن کا روزہ محض کھانے پینے سے رکنا نہیں ہوتا بلکہ ہر قسم کے منکرات قولی وفعلی سے پاک وصاف ہوتاہے ۔عارفین کا اس ماہِ مبارک کے شب وروز کے اعمال کی فہرست ویسی نہیں ہوتی جیسے کہ شہر رمضان کے تقدس سے غافل صائمین اور قائمین کی کیفیت ہوتی ہے اور جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے بلکہ عارفین حقائق رمضان ان کے معمولات کچھ یوں ہوتے ہیں کہ وہ دن میں فرض روزہ کی حالت میں اپنے فرائض منصبی میں کوتاہ نہیں ہوتے ۔روزہ اُن میں روحانی وجسمانی صحت وقوت کا باعث ثابت ہوتاہے ۔وہ فرائضِ ربانی میں کاہل وسست نہیں ہوتے بلکہ اس ماہ میں جہاں فرض 70 فرض کے برابر اور نفل فرض کے برابر ہوجاتے ہیں،وہ اس فرضیت کے شب وروز کو غنیمت سمجھتے ہیں ۔خبردار اور واقفِ حقیقت مؤمنین نہ کاہل ہوتے ہیں اور نہ ہی سست۔ وہ رمضان میں روحانی اور جسمانی طورپر غیر رمضان سے زیاد ہ چاک وچوبند اورنشیط ہوتے ہیں ۔وہ روزہ کو اپنے دنیوی وظائف میں رکاوٹ یاحائل نہیں سمجھتے ۔وہ دینداری کا دنیوی امور میں غلط استعمال نہیں کرتے کہ نہ ان کا روزہ بدنام ہو نہ ان کی دینداری پر حرف آنے پائے۔ ان کے ہاں سحر کا اہتمام بھی ہوتاہے کہ وہ سنت اور باعث برکت ہے، پھر فجر کی نماز کا باجماعت ادائیگی کا بھی اہتمام ہوتاہے، پھر اپنے اوراد وظائف کا بھی ،اذکار وتلاوت کا بھی اور لوگوں کے حقوق اور واجباتِ منصبی کی ادائیگی کا بھی اہتمام ہوتاہے۔ وہ ’’صوموا تصحوا ‘‘"روزہ رکھو صحت حاصل کروگے" کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے افطار میں بھی اعتدال پر عمل کرتے ہیں پھر قیام اللیل تو ان کا معمول ہے۔ قیام اللیل کے بارے میں یادر کھیں کہ اسے اللہ تعالیٰ نے نفلی نماز قراردیا ہے جس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اسے نفل سمجھ کر اس کا اہتمام ہی نہ کریں بلکہ یہ ایسی سنت ہے کہ جس کی حق تعالیٰ شانہ کی طرف بھی نسبت ہے اور صاحبِ سنت علیہ السلام کی طرف بھی۔ یہاں تک کہ بعض محدثین نے لکھا کہ اگر کسی شہر کے لوگ اس سنت کے تارک ہوں تو امام اکبر یعنی مسلمانوں کے حکمران پر ان سے مقاتلہ تک کرنا روا ہوگا بلکہ اس ماہِ مبارک کے تقدس کی حقیقت کو جاننے والے عارفین کے معمولات میں تو تروایح کے بعد بھی قیام اور ختم قرآن رہاہے ۔
اس ماہ مبارک کی وہ خصوصیات جو اس کے لیل ونہار اور بلا قید اس کی جملہ ساعات اور گھڑیوں سے وابستہ ہیں انہیں نبی کریم کے ارشاد گرامی سے جانئے ۔آپ فرماتے ہیں کہ (یہ صبر کا مہینہ ہے ) صبر کیا ہے اور اس ماہ مبارک کو کیوں شہرِ صبر کہا گیا ہے اور صبر کا اسلام میں کیا مقام ہے ؟ اس کی معرفت نہایت ضروری ہے ۔ شریعت میں مشقت کا برداشت کرنا ،حق پر استقامت ‘ نفس کو اس کی خواہشات سے روکنا ...یہ تمام صبر کے زمرے میں آتے ہیں ۔ حدیث میں صبر کو نصف دین بھی کہاگیا ہے کہ بندے کا اپنے رب کی خاطر صبر کرنا اور اوراس کا شاکر بندہ ہونا اس کا کمالِ دین ہے ۔رمضان کو شہرِ صبر قراردینے سے بندوں کی تربیت مقصود ہے کہ وہ روزہ میں پیش آنے والی مشقت کو ذوق وشوق سے برداشت کریں ۔واویلا اور ما ردھاڑ نہ ہو کہ گرمی کی شدت یا بھوک وپیاس کی حاجت ہو تو ناشکری کرے۔ اگر کھانے پینے میں کمی رہ گئی جیسے کہ سحری چھوٹ گئی ‘افطاری میں کم ملا تو وہ اس روزہ کو ہی سوگ بنالے۔یہ عارفینِ حق کا شیوہ نہیں بلکہ واقف کار بندے روزہ کے مہینہ میں صبر کرنے کی تربیت پاتے ہیں ۔مشقت کو برداشت،اپنے نفس کواس کی خواہشات سے روک کر اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی حدود کی پاسداری کرنے اور اس پر استقامت میں تو ہمیں پیشگی اپنے نفوس کو تیار کرنا ہوگا کہ اس ماہ مبارک میں ہمیں حقیقتِ صبر کو حاصل کرنا ہے جس کا مظہر روزہ کا وقت بھی ہے۔
اس کی افطاری کا وقت بھی ہے کہ اس میں اپنے نفس کو ضبط میں رکھیں دیگر روزہ داروں کا خیال رکھیں۔ اس ماہِ مبارک میں اپنے ملازمین پر بھی ہمیں احادیث میں تخفیف کا حکم ملا ہے ۔ہمیں اپنے ہر طرح کے ملازمین کو رمضان کے مبارک مہینے میں تخفیف اور سہولت دینی چاہئے ۔اگر ہم اپنے ملازمین کے ساتھ شفقت کرتے ہیں تو ہم سب کا مالک اور حاکمِ مطلق یقینا ہمیں اس کے خصوصی ماہِ رمضان کی برکت سے خصوصی شفقت اور تخفیف کا معاملہ فرمائیں گے اور اگر کوئی صاحب حیثیت اور صاحب ِ عمل اپنے ملازمین کے کام میں خفت کی وجہ سے ملازمین کی عدد میں اضافہ کرتاہے تو اس کی اس نیت کی وجہ سے یقینا باری تعالیٰ اس کے کام میں برکتوں کا ظہور فرمائیگا۔مدارت اور احسان عموماً اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اعمال میں سے ہو چہ جائیکہ اس کے روزہ داروں کے ساتھ کی جائے۔ ’’ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین‘‘ یعنی یقینا اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کے اجر کو ضایع نہیں فرماتے ۔ نہایت ہٹ دھرمی اور بے مروتی ہوگی کہ کوئی مالک خود تو روزہ خور ہو ۔رمضان کے مبارک ماہ سے اسے کوئی مناسبت نہ ہو۔نہ اس کے صیام سے اسے کچھ لینا اور نہ قیام کی پرواہ۔پھر وہ روزہ دار ملازمین کے ساتھ بھی ڈھٹائی اور بے مروتی کا رویہ اپنائے اور ماہ مبارک کے اعمال کی ادائیگی پر ان کے ساتھ برا سلوک کرے ۔
یہ امور اللہ تعالیٰ کے ناراضگی اور اس کے غضب کو دعوت دیتے ہیں ۔ ہمیں اس ماہِ مبارک میں صبر وشکر زہد وتقویٰ، ضبط نفس ،غم خواری اور مدارت کی عملی پریکٹس کرناہے...یہی وہ امور ہیں ۔ان صفاتِ حسنہ کو اپنے اندر پیداکرنے کا عزم اور ماہِ مبارک سے اس کی یہی برکات وفیوض اور عالی اخلاق سے متصف ہونے کی عزیمت ‘ارادہ اورہمت واستعداد ۔یہی اس ماہِ مبارک کا والہانہ استقبال ہے ۔ مہمان کی رضا اور خوشی او رمہمان کی آمد کی مقصدیت اور ا س کے حصول کی جدوجہد کی خاطر کمربستہ ہونا ۔یہی دراصل میزبان کی وہ تیاری ہے جو ہماری ا ن سطور کی ترتیب کی غرض وغایت ہے ۔ جناب نبی کریم صحابہ کرام کو ماہِ شعبان ہی میں استقبال رمضان کیلئے وعظ فرماتے تھے ۔ اسی کے اختصار پر ہم اپنے اس مضمون کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔آپکے اس خصوصی استقبال رمضان کے خطاب کو حضرت سلمان ؓنے یوں بیان فرمایا ہے : ماہِ شعبان میں جناب رسول اللہ ہم سے مخاطب ہوئے اور فرمانے لگے کہ تم پر ایک عظیم ماہ وارد ہونے والا ہے جو بڑا ہی مبارک ہے ۔ اس ماہِ مبارک میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے افضل ہے جس کا روزہ رکھنا فرض ہے اور اس کے قیام اللیل کو اللہ تعالیٰ نے نفل فرمایا ۔اس میں ایک فریضہ70 فرائض کے برابر ہے اور ایک نفل فریضہ کے برابر ہے ۔یہ ماہِ صبر ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ۔ یہ ماہِ غم خواری ہے ،اس میں مؤمن کا رزق بڑھ جاتاہے ۔اس کے روزہ دار کی افطاری افطار کرانے والے کے گناہوں کی بخشش اور جہنم سے چھٹکارے کا باعث ہے ۔اسے روزہ دار جیسا اجر بھی ملے گا جبکہ روزہ دار کے اجر میں سے کوئی کٹوتی نہ ہوگی ۔پھر اس ماہِ مبارک کو رسول اللہ نے 3 حصوں میں اس طرح تقسیم فرمایا کہ اس کا اول رحمت‘ اس کا وسط مغفرت اور آخر جہنم سے نجات ہے ۔

شیئر: