Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اوپی ایف بیرون ملک طلباء کا مسئلہ جامعہ کراچی کیساتھ اٹھائے،ڈاکٹر سیمی نغمانہ

صحافت کا معیار نیچے آگیا، جو دکھ رہا ہے وہ بک رہا ہے ، خریدار طے کررہا ہے کہ کیا دکھانا چاہئے، مشرف دور میں پیمرا نے کافی بہتر کام کیا،سیاسی حکومت آنے کے بعد بہت برا حال ہوگیا

انٹرویو:۔ مصطفی حبیب صدیقی ۔۔کراچی

آج ہمارے ساتھ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر ہیں۔آپ نے1981ء میں کراچی یونیورسٹی سے ہی شعبہ صحافت میں ماسٹرز کیا جس کے بعد کچھ عرصے پاکستان کے معروف روزنامہ کے خواتین صفحہ سے منسلک رہیں اس کے ساتھ کراچی یونیورسٹی میں ہی 3سال پڑھاتی بھی رہیں ۔شادی کے بعد کوئٹہ منتقل ہوگئیں جہاں1987ء میں بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ ماس کمیونی کیشن کی بنیاد رکھی اور23سال تعلیم دی جہاں آپ لیکچرر سے لے کر ڈین تک ذمہ داریاں اداکرتی رہیں جبکہ پروفیسر صاحبہ نے بلوچستان پر ہی پی ایچ ڈی بھی کی ہے۔محترمہ ڈاکٹر سیمی نعمانہ طاہر سے ملاقات کا احوال نذرِ قارئین: اردونیوز: ڈاکٹر صاحبہ سب سے پہلا سوال تو بیرون ملک مقیم طلباء کے حوالے سے ہی کرتے ہیں۔سعودی عرب سمیت دیگر ممالک میں پاکستانی طلباء کو کراچی یونیورسٹی سمیت دیگر پاکستانی تعلیمی ادارے کیا سہولت دیتے ہیں جبکہ کراچی کے طلباء کیلئے زیادہ مسائل ہیں؟ ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر: کراچی یونیورسٹی کی پالیسی کے تحت جس نے انٹراور میٹرک یہاں سے کیا ہو اہو اسے داخلہ مل جاتا ہے۔ جبکہ اوورسز پاکستانیز کیلئے بھی سیٹیں ہیں ۔ اردونیوز:جی ہیں مگر بہت کم سیٹیں ہیں ،کیا کراچی یونیورسٹی ان نشستوں میں اضافہ نہیں کر سکتی ؟ ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر:ـ میرا خیال ہے کہ اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن اس مسئلے کو اٹھائے جبکہ سیلف فنانس میں تو خلیج وغیرہ کے طلبہ کو داخلے دیئے جاتے ہیں تاہم اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن اس مسئلے کو اگر کراچی یونیورسٹی کے ساتھ اٹھائے تو مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔ انہیںکراچی یونیورسٹی کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنا چاہئے اور’’ کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر بیرون ملک طلبہ کے لئے نشستیں لینی چاہئیں۔ویسے میں ایک بات کہوں کہ آپ کراچی یونیورسٹی پر کتنا بوجھ ڈالیں گے ۔ میرے بچے بھی بلوچستان کے ڈومیسائل پر تھے تو انہیں بھی یہاں داخلہ نہیں ملا جس پر میں نے سوال اٹھایا تو جواب دیاگیا کہ کراچی خود ہی پورا پاکستان ہے ،یہاں پورے ملک کے طلباء آباد ہیں ۔ہم پورے پاکستان کو ہی داخلے دے رہے ہیں ۔یہاں بلوچستان،پنجاب اور خیبرپختونخوا کے طلباء بھی پڑھ رہے ہیں یعنی صرف کراچی کے طلباء کو ہی نہیں بلکہ ہم تو پورے پاکستان کے طلباء کو داخلہ دے رہے ہیں۔آپ کے علم میں ہوگا کہ جوبلوچ، بلوچستان میں نہیں رہتے، وہ کراچی میں رہتے ہیں جبکہ کراچی ایک طویل عرصے تک بلوچی صحافت کاوطن رہا ہے۔کراچی سے ہی اخبارات اور رسائل نکلتے رہے ہیں جبکہ کراچی سے ہی1956ء تک ریڈیو نشریات ہوتی رہی ہیں۔ اردونیوز:ڈاکٹر صاحبہ آج کی صحافت اور آپ کے زمانے کی صحافت میں کیا فرق ہے؟ ڈاکٹرسیمی نغمانہ طاہر:دیکھیں ،صحافت کا معیار تو بہت نیچے آگیا ہے۔اب تو بہت سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔پہلے ایک ہی سوال ہوتا تھا کہ پابندیاں بہت ہیں، قوانین بہت سخت ہیں ۔کچھ کہنے کی اجازت نہیں ۔پی ٹی وی کا بھی سخت ڈسپلن تھا۔میں یہی غور کررہی تھی کہ ایک پی ٹی وی ہوتا تھا کہ اس کی بھی شام کی چند گھنٹوں کی نشریات ہوتی تھیں۔ اس میں بھی ہفتے میں 2یا3ڈرامے دکھانے ہوتے تھے ،ایک یا دو موسیقی کے پروگرام کرنے ہوتے تھے۔ایک گھنٹے کا بچوں کا پروگرام تھا۔اس وقت ملازمت محفوظ تھی۔ تمام ہی اشتہار پی ٹی وی کے تھے۔ ان کے پاس کام کم تھا لہٰذا معیار کا کام ہوتا تھا جبکہ آج بغیر سوچے سمجھے اتنے سارے ٹی وی لائسنس جاری کردیئے گئے ہیں۔اب مارکیٹ میں اتنا سرمایہ نہیں آرہا کہ اتنے سارے چینلز کو قائم اور مستحکم رکھا جا سکے۔میں8سال پیمرا کی رکن بھی رہی ۔ہرمرتبہ ہمارا مسئلہ یہ ہوتا تھا کہ کتنے چینلز کو لائسنس دیاجائے،کس چیز کو بنیاد بنائیں۔ہم مارکیٹ کا اندازہ لگاتے تھے کہ وہ کتنے چینلز کو سنبھال سکتی تھی۔ مشرف دور میں پیمرا نے کافی بہتر کام کیا جبکہ سیاسی حکومت آنے کے بعد بہت برا حال ہوگیا کیونکہ سیاست کا اثر ورسوخ بہت بڑھ گیا۔ہم نے طے کیا تھا کہ مذہبی بنیاد پر چینلز کو لائسنس نہیں دینگے جس کی وجہ یہی تھی کہ فرقہ واریت نہ بڑھے مگر اب ایسا نہیں۔اب ریٹنگ کی وجہ سے کچھ بھی نشر ہورہا ہے۔جب آپ وہ چیز بنائیں گے جو زیادہ سے زیادہ لوگ دیکھ سکیں تو زیادہ لوگ اتنے تعلیم یافتہ نہیں ہوتے کہ وہ ہر بات سمجھ سکیں۔اب الیکٹرانک چینل اخبارات کا ہی الیکٹرانک ایڈیشن بن چکے ہیں۔اس وقت تو ’’جو دِکھ رہا ہے، وہ بک رہا ہے‘‘ ، خریدار طے کررہا ہے کہ کیا دکھانا چاہئے۔ اردونیوز:معاشرے کو شعور دینا میڈیا کا کام ہے اور میڈیا تو یہ کام کررہا ہے؟ ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر:میڈیا کہاں یہ کام کررہا ہے۔میڈیا شعور نہیں دے رہا۔میڈیا ’’یلو جرنلزم‘‘ کو فروغ دے رہا ہے۔ میڈیا وہ کررہا ہے جو19ویں صدی میں ریڈولف پریسلے یا جوزف ولسن نے امریکی آبادی کے ساتھ کیا تھا۔زیادہ سے زیادہ خبریں بیچنے کیلئے جنگیں شروع کرادی گئی تھیں۔ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے ۔جب ہم سوال اٹھاتے ہیں کہ ادارتی کنٹرول ایڈیٹر کے ہاتھ سے مارکیٹنگ پرسن کے ہاتھ میں کیسے چلے گیا؟80یا 90 چینلز کا پیٹ بھرنے کیلئے ہر آدمی اینکر ہے ۔نیوز اینکر میں اتنی بھی اہلیت نہیں رہی کہ اگر اسے ایک بریکنگ مل گئی ہے تو وہ ایک الفاظ کو کئی مرتبہ بولتا جائے گا ،وہ ان الفاظ کو تبدیل کرنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتا۔ اردونیوز:آپ بلوچستان یونیورسٹی میں رہیں، کیسا ماحول دیکھا ہے؟ جو سنتے آئے ہیں کیا وہی تعصب اور خوف پایا جاتا ہے ؟ ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر:دیکھیں بلوچستان یونیورسٹی دیگر کے مقابلے میں نسبتاً نئی تھی جو 70ء کی دہائی میں شروع ہوئی تھی اور اسے قائم کرنے والے بھی زیادہ تر وہ لوگ تھے جو اس صوبے سے باہر سے آئے اور یہاں شعبے قائم کئے ۔جو سینیئر فیکلٹیز تھیں وہ وہاں کی اصطلاح میں غیرمقامی یا سیٹلرز نے قائم کی تھیں پھر ایک وقت ایسا آیا کہ عسکریت پسندی بڑھ گئی ۔پنجابی اور ہزارہ کمیونٹی بہت زیادہ نشانہ بنائی گئی۔مجھے بھی دھمکیاںملیں جس کے بعد میں نے کراچی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اردونیوز:آپ نے بلوچ طلبہ کو پڑھایا،آپ کیا محسوس کرتی تھیں، ان کے کیا نظریات تھے؟ ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر:میں نے بلوچستان پر پی ایچ ڈی کیا ہے ۔اس لئے میں نے اس صوبے پر بہت کام کیا ۔جب میں ڈین تھی تو ایک مرتبہ اندازہ ہواتھا کہ تعصب پایا جاتا ہے۔ایک پشتون ٹیچر کیخلاف طلبہ ہڑتال پر تھے ۔میں ڈین کی حیثیت سے معاملہ سلجھانے گئی اور خیال تھا کہ سب بچے میرا احترام کرتے ہیں چنانچہ وہ میری بات مان لیں گے جبکہ یہ ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ تھا جہاں خواتین زیادہ تھیں۔ اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ تعصب کا زہر بہت اندر تک چلاگیا ہے۔اسے آپ نیشنلسٹ نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ انتہاپسندی قرار پائے گی کیونکہ پاکستان میں نیشنلزم کا بہت اچھارول رہا ہے جبکہ میں نیشنلزم کو برا نہیں سمجھتی تاہم اس نیشنلز م کو نفرت تک لے جانا برا ہوتا ہے تاہم اب نسبتاً حالات بہتر ہو ئے ہیں۔میرا شعبہ بہت بہتر ہوتا جارہا ہے جبکہ میرے بنائے گئے ڈپارٹمنٹ کے لوگ مجھے فون کرکے سب کچھ بتاتے رہتے ہیں اور مشورے لیتے ہیں۔کل بھی ایک میل آئی تھی وہ کہتے ہیںکہ آپ نے جو پودا لگایا تھا، وہ پھل دے رہا ہے۔یہ بڑی بات ہے کہ وہ لوگ مجھے کراچی میں رہنے کے باوجود یاد کرتے ہیں۔میں نے بلوچستان میں25سال گزارے ۔بہت محبت پائی۔بہت اچھا وقت گزارا۔وہاں میرے تعلقات بنے۔مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ میرا بلوچستان سے رشتہ بہت گہرا ہوگیا ہے۔ اردونیوز:کہاجاتا ہے کہ بلوچستان کے مقامی لوگوں کو روزگار سمیت دیگر مواقع نہیں ملتے، آپ کیا کہیں گی اس بارے میں؟ ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر:یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کو نظرانداز تو کیا جاتا ہے۔پاکستان کی وفاقی حکومت نے اسے اپنی ترجیحات میں نہیں رکھا جبکہ میں یہاں میڈیا کو بھی موردالزام ٹھہرائوںگی کہ میڈیا نے بلوچستان کو ترجیحات میں نہیں رکھا۔یہ نہیں بتایا کہ وہاں کی روایات،ثقافت اور رہن سہن کیا ہے۔وہاں کا میوزک کیسا ہے یعنی مثبت تصویر اجاگر نہیں کی گئی جبکہ بلوچستان کا اپنا میڈیا اتنا مضبوط نہیں تھا اب بیورو آفسز تو بن گئے ہیں مگر افسوس ہے کہ میڈیا بلوچستان اور خیبرپختونخوا کوکوریج سانحات کے حوالے سے ہی دیتا ہے۔جب وہاں کوئی بڑاحادثہ ہوجائے تب ہی میڈیا کی نظر وہاں جاتی ہے یعنی بلوچستان اور کے پی کے کو ہم سانحات کے حوالے سے ہی جانتے ہیں، وہاں کے دیگر مسائل پر گفتگو نہیں کی جاتی۔میںنے دیکھا کہ بڑے اخبارات کے ادارتی صفحات بھی کراچی سے جاتے تھے جبکہ مقامی مسائل پر نظر نہیں تھی ۔ اردونیوز:کیا وجہ ہے کہ میڈیا ان دونوں صوبوں کے مثبت پہلوئوں کو نہیں دکھاتا؟ ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر:ویسے یہ سوال خود آپ کو میڈیا سے کرنا چاہئے جبکہ ہمارا ایک کلچر رہا ہے کہ ہمارا کیمرا یا رپورٹر وی آئی پیز کے پیچھے چلتا ہے جبکہ وی آئی پیز بلوچستان میں نہیں ہوتے اس کے علاوہ خود میڈیا کو اتنا زیادہ سیاست زدہ کردیاگیا ہے کہ اب انٹرٹینمنٹ کی جگہ سیاست نے لے لی ہے جبکہ ریٹنگ نے مسائل پیدا کئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بلوچستان میں خریدار کم ہیں اس لئے وہ ہماری ترجیحات میں نہیں ۔ہم دکھتی رگ اور مسائل کو نہیں چھیڑنا چاہتے۔ اردونیوز:کیا کنٹرولڈ میڈیا فائدہ مند ہوتا ہے؟ ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر:ہم اپنے طلبہ کو سمجھاتے ہیں کہ ذمہ دارانہ صحافت کیاہے ،ہم انہیں جو کچھ بتاکر آگے بھیجتے ہیں، وہ میڈیا نہیں چاہتا جس کی وجہ سے وہ کہتا ہے کہ پہلے وہ بھول جائو جو پڑھ کر آئے ہو۔ اردونیوز:آخر میں ایسے طلبہ جو صحافت میں آنا چاہتے ہیں ان کیلئے کوئی پیغام آپ دینا چاہیں گی؟ ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر:پڑھا کیجئے،پڑھے بغیر لکھنا نہیں آسکتا،جس زبان میں لکھنا چاہتے ہیں اس زبان میں ادب ، صحافت ، یاشاعری پڑھیں لیکن لفظوں سے دوستی کریں ،لفظوں سے دوستی کرینگے تو لفظ برتنے آئیں گے۔سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ مطالعہ کم ہوتا جارہا ہے ۔بچے ہر کام شارٹ کٹ سے کرنا چاہتے ہیں۔

٭٭٭٭٭٭

شیئر: