Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سسرال کا احترام کرو، اپنی عزت کراؤ، اسی پر عمل کرتی ہوں، اسماء شہاب

بڑے بھائی ڈا کٹر منصور میمن ہم بہنوں کا خیال رکھ کر امی سے کیا ہواوعدہ نبھا رہے ہیں ،ہوا کے دوش پر گفتگو
- - - - -  - - - - - -
تسنیم امجد ۔ ریاض
- - -  - - - - - - -
شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے اپنے اکثر اشعار میں عالمگیر حقائق بیان کئے ہیں۔ انہی کا فرمایا ہوا ایک مصرع ایسا بھی ہے جو بذاتِ خود ’’عالمی صداقت‘‘ کاعکاس ہے۔ وہ مصرع ہے:
*’’وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ‘‘
* کون ہے جو علامہ اقبال کے اس مصرعے کو باطل قرار دینے کی جرأ ت کرنے کا خیال ذہن میں لانے کا خواب دیکھے؟اس مصرعے کا ہر ہر حرف سچائی، صداقت اور حقیقت کا پرتو دکھائی اور سنائی دیتا ہے۔ ذرا سی دیر کے لئے اپنی تخئیل کی صلاحیت پر جبر کرتے ہوئے سوچئے کہ اس دنیا میں’’زن‘‘ کا وجود نہ ہو تاتو کیا ہوتا؟کرۂ ارض پر چلنے پھرنے والوں کو نہ تو زندگی سے پیار ہوتا اور نہ کوئی کسی کے لئے بے قرار ہوتا، نہ کسی سے تو تکار ہوتی ،نہ کسی کے لئے سنگھار ہوتا، نہ کسی کو کسی کا انتظار ہوتا نہ ہر گزرتا لمحہ شمار ہوتا،نہ کسی سے الفتوںکا اظہار ہوتا نہ اپنے دل پر کسی دوسری ہستی کا اختیار ہوتا۔نہ کسی کے لئے بلبل چہکتا، نہ کسی کے لئے مور ناچتا، نہ غزل ہوتی نہ غزال، نہ شاعری ہوتی نہ توصیفِ جمال۔حقیقت ہے کہ وجودِ زن کے باعث اس دنیا میں قرار ہے ، چہکار ہے، مہکارہے، اظہار ہے ،پیار ہے ،انکار ہے اور اقرار ہے۔ ہر مرد کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ تعلیم و تربیت کا سلسلہ مکمل کرتے ہی پیکرِ جمال کو اپنا ہم قدم کر لے تاکہ اس کی بے رنگ کائنات میں رنگ اُتر آئیں،بہار یںبراجمان ہو جائیں، خوشیاں زیست کا سامان ہوجائیں، سحاب ہمارا سائبان ہوجائیں، خوشبوئیں ہماری پہچان ہوجائیں ، ہم زن و شو ایک دوسرے کا مان ہوجائیں ۔ یہ خواب تو ہر کوئی دیکھتا ہے مگر اس کی حقیقت میں تجسیم کسی کسی کا مقدر ہوتی ہے۔ جس کی زندگی میں بند آنکھوں سے دیکھاجانے والا خواب کھلی آنکھوںبھی دکھائی دینے لگے، وہ خوش قسمت قرار پاتا ہے۔ دنیا اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
آج اردونیوز’’ہوا کے دوش پر‘‘ ایک ایسی ہی شخصیت سے ملاقات کر رہا ہے جنہیں دنیا رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔محترمہ اسماء وہ ہستی ہیں جنہوں نے ڈاکٹر شہاب الدین میمن کی کائنات کو رنگوں سے آشنا کیا ۔ صاحبانِ خرد کا کہنا ہے کہ ہر فرد اپنی زندگی کو بہترسے بہتر بنانے کی کوشش میںخوب سے خوب تر کی جانب گامزن رہتاہے اور اپنی زندگی کے کینوس کو حسین تربنانے کے لئے اپنی سوچ، صلاحیت اور بساط کے مطابق رنگ بھرتا رہتا ہے ۔زمان و مکاں کی تبدیلی اسے نشاط بخشتی ہے کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے۔شاعر نے بھی اسے یوں بیان کیا ہے:
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
 ’’ہوا کے دوش پر‘‘اردو نیوز کے استفسارات کا جواب دینے والی ہستی بے اختیار ماضی میں لوٹ جاتی ہے اور اپنے حالات و واقعات کا موازنہ دوسروں سے کرتی ہے ۔کبھی کبھی حالات کی مما ثلت اسے حیران کر دیتی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اردو نیوز کے قاری ایک خاندان بن چکے ہیں ۔اکثر سننے میں آ تا ہے کہ یہ سلسلہ باہمی اختلافات کو پاٹنے کا سبب بھی بنا ہے۔خصوصی طور پر زن و شو ہر کے معاملات کی الجھنیں سلجھانے میں معاون ثابت ہوا ہے ۔ یہ حقیقت ہمیں اپنے مقاصد کی تکمیل کا مژدہ سناتی ہے اور دلی مسر ت سے ہمکنا ر کر تی ہے۔ شاید ایسی ہی کیفیت کے لئے کسی شاعر نے کہا ہے کہ: *ہم بھی دریا ہیں ہمیں اپنا ہنر معلوم ہے *جس طرف بھی چل پڑیں گے راستہ ہو جائے گا اردو نیوز اس ہفتے اپنی البم میں سے ایک اور تصو یر کے رنگ، جمال و خصا ئل سے آ گہی پیش کر رہا ہے تاکہ ایک نئی شخصیت کے تجربات سے آپ مستفید ہو سکیں: محترمہ اسما ء شہاب اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کر رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ اردو نیوزنے ’’ ہوا کے دوش پر‘‘ نہ صرف مملکت میںبلکہ بین ا لا قوا می سطح پر اردو کمیو نٹی کو قریب ترکر دیا ہے۔ یوں لگتا ہے یہ ہر ایک کے دل کی آواز ہے۔
اس جریدے کے اجرا سے قبل ہمیں بو ریت ہوتی تھی کیو نکہ ہمارے بابا نے بچپن سے ہی ہمیںاخبار پڑ ھنے کی عادت ڈالی تھی۔ اکثر کسی بھی بہن بھائی کو پاس بٹھا کراخبار سے خبریں سنتے تھے، اس طرح سب کی باری آتی تھی۔اردو نیوز کے باعث مجھے اپنے بچوں کو اردو سکھانے میں بہت آسانی ہوئی۔ ہم دونوں بھی بابا والا اندا ز اپنا تے ہیں ۔ میرے بابا میرے رول ما ڈل ہیں۔ہم سب بہن بھا ئی ان کے اصو لو ں سے رہنمائی حاصل کر کے ہی اپنے بچوں کی تر بیت کر رہے ہیں ۔ بابا مخدوم غلام محمد میمن ایک نامی گرا می شخصیت ہیں انہوں نے چیف سیکریٹری کی حیثیت سے اپنا لو ہا منوایا۔ نظم و ضبط کی پابندی اور اور حکم دینے کی عادت ان کے وجود میں رچی بسی ہے۔ وہ خاندان بھر کو اسی ڈگر پر لے کر چل رہے ہیں ۔انہوں نے خاندان کوتمام افراد کو موتیوں کی طرح ایک لڑی میں پِرو رکھا ہے ۔انہوں نے حال ہی میں اپنی کتاب ’’ڈپٹی صاحب ‘‘مکمل کی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ میری ایک اور بیٹی ہے ۔
یہاں ڈپٹی صاحب کی کتاب کے حوالے سے کچھ حقائق اشعار کی شکل میںقارئین کی دلچسپی کے لئے پیش ہیں: *نذ ر قر طاس جو یاد یں ہو ئیں ڈپٹی صاحب
 زندگی جیسے کسی گود میں سمٹی صا حب
 لفظ احساس سے ملتے ہیں گلے یوں جیسے
عشق پیچا ہو کسی پیڑ سے لپٹی صاحب
 آ ج اقبال جو مل جا ئیں ،انہیں دکھلا ؤں
*کتنی نم ہے مرے اس دیس کی مٹی صاحب ہم ہمیشہ ما ں کے پیار کی با تیں کرتے ہیں لیکن باپ کا پیا ر ما ں کے پیا ر کی تکمیل کر تا ہے ۔آج میری امی اس دنیا میں نہیں لیکن انہوں نے جا تے جاتے ہما رے لئے محبتوں کے انتظا مات کر دئیے ۔ہم 8 بہن بھائی ہیں ۔امی نے ہم بہنوں کا خیال رکھنے کی ذمہ داری بڑے بھائی ڈا کٹر منصور میمن کو سونپ دی تھی ۔ وہ اپنی ذمہ داری اور امی سے کیا ہواوعدہ خوب نبھا رہے ہیں ۔مزہ تو یہ ہے کہ بھا بی ڈاکٹر ارم منصور بھی ان کے سا تھ ہیں ور نہ اکثر بھا بیاں رکا وٹ بنتی ہیں ۔ وہ کسی بھی خاص مو قعے کو نہیں بھو لتے، عید ،بقرعید، بچو ں کی کا میا بیاں، سب ا نہیں یاد رہتی ہیں۔ ان کے لئے آج اس میڈ یا کے ذریعے میں ڈھیروں دعا ئیں بھیجنا چاہتی ہوں۔
اللہ کریم ان کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروںپر سلا مت رکھے اور کا میا بیوں سے نوا زے، آمین ۔ اسما ء شہاب والدین کے بارے میں با تیں کرتے ہوئے خاصی جذ با تی ہوگئی تھیں۔ ان کی حالت دیکھ کر ان کے شوہرڈاکٹر شہاب الدین میمن نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ والدین کا وجود ہی ایسی رحمت ہے کہ ان کی کمی ساری زندگی محسوس ہو تی ہے ۔ ڈاکٹر شہاب نے کہا کہ اسماء میری ماموں زادہیں۔اتنے قریبی رشتے کی وجہ سے ہمارے والدین میں قربت بھی بہت تھی۔ مخدوم صاحب میری والدہ یعنی اپنی بہن سے بے حد محبت کرتے تھے ۔ ہماری باتوں کے دوران اسماء بھی ہنستے ہوئے بولیں کہ اب میں سنبھل چکی ہوں ۔ میری ابتدائی تعلیم کا نو نٹ میں ہی ہوئی ۔اباجان ہماری تعلیم پر خاصی تو جہ دیتے تھے ۔ میںنے بی ایس سی، ہوم اکنامکس اور پھر اسلامک کلچر میں ماسٹرز کیا ۔ عائشہ پھو پھو نے مجھے مانگ لیا ۔ مجھے یوں لگا جیسے ایک میکے سے دوسرے میکے میں آ گئی ہوں۔پھو پھی اور اباجان میں ہم نے بچپن سے ہی بہت پیار دیکھا تھا۔ رشتہ طے کر نے کی باتیں تو بعد میں ہوئیں۔بہر حال مملکت میں آنے کے بعد احساس ہوا کہ والدین کے کئے ہوئے فیصلے ہمیشہ کا میاب رہتے ہیں۔
شہاب نہ صرف اچھے شوہر ہیں بلکہ بہت اچھے دوست بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دو اولادوں سے نوازا ۔بڑی بیٹی ماہم شہاب میڈیکل کی طالبہ ہے جبکہ بیٹا اُسامہ شہاب اے لیول کا طالب علم ہے ۔بیٹی ما شاء اللہ، بہت ذہین اور طبعاًسنجیدہ ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ اپنے دادا حبیب اللہ میمن اور بابا کی سی عا دات کی مالک ہے ۔دادا تو آج اس دنیا میں نہیں لیکن ان کے ساتھ گز را وقت ہر ہر لمحے ان کی یاد دلا تا ہے۔وہ بہت ہی نیک انسان تھے ۔وہ سول سروس میں ہی تھے اس لئے نظم وضبط کے پابند تھے ۔لوگوں کی بہبو د کا بہت خیا ل رکھتے تھے ۔ میرے شوہر بھی سنجید ہ طبیعت کے مالک ہیں۔ ما ہم اپنی تعلیم میں ہمیشہ پہلی 10 پو زیشنز میںشامل رہتی ہے حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ میڈیکل میں مقا بلہ سخت ہو تا ہے۔
اللہ کریم اسے اس کے مقا صد میں کا میاب فرمائے ،آمین۔ ڈاکٹر شہا ب نے کہا کہ بیٹیاں تو اپنے بابا کے قریب ہی ہوتی ہیں، بز رگوں سے سنا ہے کہ بیٹی کی محبت تحت ا لشعور میں احساس جدا ئی لئے ہو تی ہے ۔با پ ،بیٹی کے لئے شفقت کا مضبو ط حصار ہوتا ہے ۔بابل کا گھر اس کے لئے پرایا رہتا ہے۔ بیٹی کے لئے باپ کی شخصیت کسی آئیڈ یل سے کم نہیں ہو تی ۔ ما ہرین نفسیا ت کا کہنا ہے کہ کا میاب عورتوں کی کامیابی کا راز ان کے باپ کی شخصیت ہی ہوتی ہے ۔ اسماء نے کہا کہ ہماری گفتگو بہت دلچسپ نہج پر پہنچ چکی ہے ۔ یہاں میں بھی کچھ کہنا چا ہو ں گی ۔ماں کے لئے بھی بیٹی اس کی کل کائنات ہوتی ہے ۔بیٹا ماں کے قریب ہو تا ہے ۔ رشتو ں کے لئے محبت نفسیا تی تھیو ری ہے جس نے رشتوں کو اپنی گر فت میں دبو چ رکھا ہے۔اولاد کی محبت اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔
میرا بیٹا اسامہ شہاب مجھ پر ہے ۔شوخ اور چنچل مزاج کا۔ ہمارے گھر میں رونق اسی کے دم سے ہے ورنہ جیسے ماہم پڑھنے گئی ہے تو گھر میں ایک دم سونا پن چھا جاتا۔ وہی ہنسی مذاق اور اپنی خوبصورت شو خیوں سے ہمیں محظوظ کرتا رہتا ہے۔ ویسے میری بھی یہی عادت ہے۔ میں خود پری اسکول کی ہیڈ ہوں اور اپنے شوق کی تکمیل پروگراموں کو آرگنائز کرکے کرتی ہوں۔ میری وائس پرنسپل تہمینہ یاسمین اور پرنسپل ظفر اعوان میرے بہت معاون ہیں۔ ان کی رہنمائی کے باعث کوئی بھی پروگرام منعقد کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ حال ہی میں ہم نے فروٹ ڈے منایا اس کا مقصد بچوں کو کھیل ہی کھیل، زندگی میں پھلوں کی اہمیت کا سبق دینا تھا۔ اس کوشش کو بہت سراہا گیا۔ میڈیا کے ذریعے میں اپنے پرنسپل اور وائس پرنسپل کی رہنمائی کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ ان کے ساتھ کام کرکے مجھے احساس ہوا کہ ٹیم لیڈر اگر قابل و مہربان ہو تو کام بہت سہل ہوجاتا ہے۔ اسماء نے بتایا کہ مجھے گیٹ ٹو گیدر کا بھی شوق ہے ۔
مہمان بلا شبہ اللہ کریم کی رحمت ہوتے ہیں ۔ اس امر پر یقین رکھتے ہوئے دوسرے شہروں سے آنے والوں کو بھی میںاپنے ہاں ٹھہرانے کی کوشش کرتی ہوں۔ اپنی جاب کو مہمان نوازی میں حائل نہیں ہونے دیتی۔ یہ عادت مجھے وراثت میں ملی ہے۔ بات چیت کے دورا ن ان کا بیٹا اسامہ بھی آگیا ۔ اس نے کہا کہ ہماری ساری فیملی ڈاکٹروں کی ہے۔ میرا دل چاہتا ہے میں کمپیوٹر انجینیئر بنوں۔ آخر گھر والوں کو انجینیئر کی بھی تو ضرورت ہوگی۔ میں اپنی شوخی اور شرارتوں سے امی ابو کا دل بہلائے رکھتا ہوں تاکہ وہ بہن کے لئے اداس نہ ہوں۔ میں فارغ وقت میں اقبالیات کا مطالعہ کرتا ہوں۔ ڈاکٹر شہاب نے کہا کہ گرہستی کی گاڑی باہمی تعاون اور خلوص کے پٹرول سے چلتی ہے۔ گھر کی سلطنت میں سربراہ مرد اور مشیر عورت ہوتی ہے۔ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ پوری کرنے کانام خوشحالی ہے۔ اس رشتے میں کوئی شرط یا مقابلے کی دوڑ نہیں ہوتی کہ فریقین ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی فکر میں رہیں۔
بدقسمتی سے جو شوہر بیوی سے مشورہ لیتا ہے اور اپنے فیصلوں میں اسکی مرضی کو شامل کرتا ہے، اسے بزدلی کا طعنہ دیکر کم مائیگی کا احساس دلایا جاتاہے۔ اگرچہ ایسا نہیں ہے ،جو مرد ان طعنوں کو سن لیتے ہیں ،ان کی فیملی لائف میں بے سکونی آجاتی ہے جس کا اثر بچوں پر پڑتا ہے۔زن و شو کا تعلق بہت ہی خوبصورت ہوتا ہے۔ مستقبل کے معاشرے کی خوشحالی کی ذمہ داری اسی بنیادی ا کائی پر ہے۔ جہاں ایسا ماحول ہو یعنی طعنوں کا ، ان کے لئے میں یہی کہوں گا کہ مرد حاکم نہیں، محافظ ہے اور محافظ کے کچھ تو اختیارات ہوتے ہیں جن کی بدولت وہ عورت کو تحفظ اور حقوق سے نوازتا ہے۔انہوں نے ہمارے سوال کے جواب میں اپنی پسند کی شاعری اپنے موبائل سے خوبصورت آواز میں اردو نیوز کی نذر کی۔ اسماء شہاب نے کہا کہ ازدواجی زندگی کے بے شمار پہلو ہیں جن پر بے انتہاء لکھا گیا اور تذکرے بھی ہوئے لیکن پھر بھی تشنگی رہتی ہے کچھ جاننے اور سمجھنے کی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ایشیائی معاشرہ مردانہ تسلط کا شکار ہے جہاں کہیں یہ تسلط مغلوب ہوتا نظر آئے، وہاں مرد کو فوراً کوئی نہ کوئی نام دے دیا جاتا ہے اور اسے جو رو کا غلام کہہ کر اس کی مردانگی کو للکارا جاتا ہے۔
اسماء نے کہا کہ میں تو اس فارمولے پر عمل کرتی ہو ںکہ سب کی اور خصوصاً سسرال والوں کا احترام کرو اور اپنی عزت کراؤ۔ شوہر اس طرح محسوس کرتے ہیں کہ بیگم ہمارے گھر کا ہی حصہ ہیں۔ میری پھوپھی ساس ، میں نے پہلے ہی بتایا کہ بہت ہی اچھی ہیں لیکن پھر بھی میں ان کے مزاج کے مطابق ان کا خیال رکھتی ہوں۔ انہیں ہر سال اپنے پاس بلانا اور خوب خدمت کرنا ہمارے پروگراموں میں شامل ہے۔ میڈیا کے ذریعے میںسب خواتین کیلئے یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ شوہر ایک سایہ دار درخت ہے اور اس کے سائے کے پھیلاؤ میں وہ تمام رشتے ہیں جو اس سے منسلک ہیں۔ ان سب کا خیال و احترام ہم پر واجب ہے۔ والدین یعنی بزرگوں کے احترام کی تو دین اسلام نے بھی تاکید فرمائی ہے۔ گھر کے ماحول کو لگائی بجھائی سے دور رکھنا ضروری ہے ورنہ اس کے اثرات نسل درنسل چلتے ہیں۔
اسماء نے کہا کہ میں سندھی ادب شوق سے پڑھتی ہوں۔ہماری گفتگو خاصی طویل ہوچکی تھی۔ انہوں نے بھی اپنی بیٹی سے بات کرنی تھی جو ان کے معمولات کا حصہ ہے چنانچہ ہواؤں کے دوس پر ہماری یہ ملاقات’’ کبھی اور سہی‘‘ کے دلاسے پر انجام کو پہنچی۔

شیئر: