Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آج کا ازدواجی رشتہ ’’میڈ اِن چائنا‘‘، چلا تو چل گیا، گارنٹی کوئی نہیں

صحت کی خرابی ہو یا مزاج کی نوابی، کاروبار میں گھاٹا ہو یا پھر قد ناٹا ہو غرض ہر چیز میں موسم کو کوسا جاتا ہے
- - - - - - - - - - -  - -
مسز زاہدہ قمر ۔ جدہ
-  - - - - - - - - -
ہم ساکنانِ مشرق بڑے نازک مزاج واقع ہوئے ہیں۔ جیسے ہم نازک مزاج ہیں ویسے ہی ہمارے اردگرد کی اشیاء اور یہاں تک کہ ہمارے موسم اور حالات بھی نازک مزاج ہیں۔ہماری استعمال کی اشیاء کو ہی لے لیجئے، سوئی سے لیکر کار تک نازک مزاج ہے۔ کپڑے ایک دفعہ کی دھلائی برداشت نہیں کر سکتے۔ جس طرح کوئی کھلاڑی میدان میں ہمت چھوڑدیتا ہے، اسی طرح کپڑے رنگ چھوڑدیتے ہیں۔ جوتے دو قدم بھی ساتھ نہیں دے پاتے اور راستے ہی میں بائے بائے کہہ کر رُک جاتے ہیں ۔ جوتوں کے دانت نہیں ہوتے پھر بھی کاٹتے ہیں اور زبان نہیں ہوتی اس کے باوجود چلا چلا کراپنی زبوں حالی کا روناروتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بس ہمارا، تمہار ا ساتھ 2 قدم کا ہی تھاحالانکہ پُرانے زمانے میں ایک ایک جوتا دس 10 سال تک ساتھ نبھاتا تھا۔ ایسے ہی ایک زمانے کا ذکر ہے کہ کسی صاحب سے ان کے دوست نے پوچھا’’تمہارا جوتا بڑا خوبصورت اور پائدار معلوم ہوتا ہے ، کب خریدا؟‘‘انہوں نے بڑے فخریہ انداز میں جواب دیاکہ’’یہ 5 سال پہلے خریدا تھا اور اس قدر پائدار ہے کہ چار دفعہ مسجد میں تبدیل کر چکا ہوں اور تین مرتبہ اسے شادی کی تقریب میں بدل چکا ہوں پھر بھی نیا کا نیا ہی ہے۔‘‘ ہمارے ہاں کے باہمی ناتوں خصوصاً شادی جیسے ازدواجی رشتے کو ہی لے لیں ہر’’ رشتہ میڈاِن چائنا‘‘ لگتا ہے یعنی چلا تو چل گیا، ورنہ گارنٹی کوئی نہیں ۔
بات چلی تو پتہ نہیں کہاں تک پُہنچ جائے گی اور جناب ! ہم اتنے پُہنچے ہوئے بزرگ نہیں کہ زیادہ دو ر جائیں ،تو چلیں قریب کی بات کرتے ہیں۔ ہمارے مزاج کی طرح ہمارا موسم بھی گھڑی گھڑی اپنا رویہ بدلتا ہے۔ ’’کبھی دکھ ہے، کبھی سکھ ہے‘‘ کی منھ بولتی تصویر نظر آتا ہے۔ لوگ پاکستان کے موسم کو محبوب کے مزاج سے تشبیہ دیتے ہیں جو گھڑی میں تولہ اور گھڑی میں ماشہ ہو جاتاہے۔ ہر موسم ہمارے وطن کے شہریوں پرپوری شدت سے حملہ آور ہوتا ہے اور اپنے ساتھ دیگر لوازمات بھی لاتا ہے۔ خصوساً گرمی کا موسم اپنے ساتھ لوڈشیڈنگ ، وبائی امراض، مکھیوں اور مچھروں کا تحفہ لاتا ہے ۔
ویسے ہماری عقل بندانہ رائے میں موسم گرما وطن عزیز کے لوگوں کی عموماً اور کراچی کے شہریوں کی اخلاقی تربیت میںخصوصاً اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر عوام موسم کو بُرا بھلا کہہ کر دل کی بھڑاس نہیں نکالیں گے تو یقینا ایک دوسرے کو نازیبا کلمات کہنے لگیں گے ۔ہم لوگ ہر چیز کا ذمہ دار موسم کو ٹھہراتے ہیں۔صحت کی خرابی ہو یا مزاج کی نوابی، بال جھڑیں یا دل کی دھڑکنیں بڑھیں، نکسیر پھوٹے یا پسینہ چھوٹے، اولاد نافرمان ہو یا رشتے دار انجان ہو، کاروبار میں گھاٹا ہو یا پھر قد ناٹا ہو غرض ہر چیز میں موسم کو کوسا جاتا ہے ۔ اگر موسم کی خبریں ہمارے انداز میں سُنائی جائیں تو کچھ یوں ہو سکتی ہیں : ٹریفک جام ، شوراوردھویں کی وجہ سے لوگوں کے دماغ کا درجۂ حرارت بڑھ گیا۔ ساس کی خاطر نہ کرنے پر گھر کا موسم ابرآلود ہے۔کسی بھی وقت آندھی اور طوفان آنے کا اندیشہ ہے لہٰذا آنسوئوں کی ہلکی پھوار کو معمولی نہ سمجھیں یہ بھی ممکن ہے کہ ژالہ باری یعنی’’ گھریلو سامان باری ‘‘ شروع ہو جائے۔ شہر کے تفریحی پارکوں میں رومانی ہوائیں تیز ہو گئیں۔ شاپنگ کے بگولے بہت تیز رفتاری سے شہر میں داخل ہو گئے ۔
اپنی بیگمات کو گھر میں حفاظت سے رکھئے ورنہ یہ بگولے انہیں اُڑاکر کسی بھی شاپنگ سینٹر میں پھینک آئیں گے۔ خیر یہ تو فرضی خبریں ہیں۔ ہمیشہ گرمی کا موسم ہی شہریوں کے لئے عذاب کا باعث نہیں ہوتا بلکہ موم سرما بھی کبھی کبھی نئے گُل کھلاتا ہے۔ایک پہاڑی علاقے میں برف باری کے بعد ایک شخص اپنی چھڑی کو جگہ جگہ ٹیکتا ہوا جا رہا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر ایک نوجوان آگے بڑھا اور اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے بولا ’’جناب اگرآپ کو راستہ تلاش کرنے میں دقت ہے تو میں آپکو قریبی سڑک تک پہنچانے میں مدد کردوں؟‘‘،نہیں! اس آدمی نے جواب دیا ’’میں سڑک نہیں تلاش کر رہا بلکہ میں تو اپنی بیوی کو ڈھونڈ رہا ہوں جو دو گھنٹے پہلے یہاں کھڑی تھی۔‘‘ لوگ کہتے ہیں کہ کچھ موسم ڈاکٹروں کے ہوتے ہیں اور کچھ موسم بتی اور ٹینکر والوں کے۔ جی ہاں ! پانی کے ٹینکروالوں کے قصے یہ ہیں۔ سردی کی شدت اور گرمی کی حدت سے لوگ باگ بیمار ہوتے ہیں تو ڈاکٹروں کے نئے ماڈل کی کار کا بندوبست اور بنگلے کی اُمید پیدا ہو جاتی ہے۔
گرمی میں لوڈ شیڈنگ سے موم بتی اور لال ٹین کی مانگ بڑھ جاتی ہے ۔ پانی کے ٹینکروں کی چاندنی ہو جاتی ہے۔ ٹوکن کے لئے لوگ علی الصباح بیدار ہونے کے عادی ہو جاتے ہیںکیونکہ جو جتنی جلدی جائے گاوہ اتنی ہی جلدی ٹوکن کی لائن میں آگے کھڑا ہو سکے گا۔ ہمارے ان کرم فرمائوں کی بدولت وہ نماز کے پابند بھی ہو جاتے ہیں لہٰذا قوم کو اپنے ارباب اقتدار کے ساتھ ساتھ ان لوگو ں کا بھی احسان مند ہو نا چاہئے۔ گرمی کا موسم لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ بونس کے طور پر ہر سال اپنے ساتھ امتحانات اور شدید ترین گرمی میں بجٹ کی آفت بھی لاتا ہے۔ امتحانا ت کو تو طالب علم طبقہ جیسے تیسے ایک مہینے کی مصیبت سمجھ کر برداشت کر لیتا ہے مگر بجٹ۔۔۔۔ عوام خود سمجھدار ہیں ہم کیا کہیں۔ بجٹ کا معاملہ یہ ہے کہ یہ ہر سال سخت سے سخت ہوتا جا رہا ہے۔
ہمیں اور تو کسی چیز کی مہنگائی کا علم نہیں اور نہ ہی ہماری بجٹ سے کوئی ذاتی دشمنی تھی مگر جب سے ہم نے سُنا اور بُھگتا کہ بجٹ نے کاسمیٹکس کا سامان مہنگا کر دیا، یقین جانئے کہ چراغوں میں روشنی نہ رہی اور چہرے پر لوڈشیڈنگ جیسا اندھیرا چھا گیا۔ اب یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اپنی اصل صورت اگر صاحب بہادر کو دکھائی تو وہ پہچاننے سے انکار نہ کر دیں۔ گمان غالب یہ ہے کہ وہ ڈر ہی نہ جائیں۔ خیر ! یہ بات ہمارے دل کو بھاتی ہے کہ وہ ہم سے ڈریں اور ہماری ہر بات مانیں۔ مانتے تو وہ اب بھی ہیں کیونکہ کچھ ماہ پہلے جب بالوں کے کلر کی قیمت بڑھی تو ہم نے چند دِن کلر نہیں لگایا، نتیجہ یہ نکلا کہ 2ماہ بعد انہوں نے ہم سے کہا کہ میں تمہاری کوئی بات نہیں ٹال سکتا کیونکہ بڑوں کا حکم ٹالنا بُری با ت ہے۔

شیئر: