Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جدہ میں علیگیرینزکی یادگار تقریب اور مشاعرہ

عزیز الرب اور فرزان رضوی نے شمع محفل روشن کی ، نور الدین خان نے کلیدی خطبہ پیش کیا
- - - - -  - - - - -  - -
ادب ڈیسک ۔ جدہ
 - - - - - - - - - - -  -
برصغیر اور خاص طور پر ہندوستان کے بعض ادارے ایسے ہیں جو اپنی انفرادیت کے باعث دنیابھر میں اپنا نام اور مقام پیدا کر چکے ہیں۔ ان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شامل ہے ۔ جس نے معمارانِ مستقبل کو علم کے ساتھ ساتھ مسلم تشخص بھی عطا کیا۔ اس مادرِ علمی کی تدریب و تدریس،مثالی تہذیب، منفرد روایت اور لائقِ تقلید ثقافت کے طور پر سامنے آئی، یہاں سے فارغ التحصیل نوجوان، جامعہ کی مثالی روایات کے امین ثابت ہوئے۔ وہ اس کرۂ ارض پرجہاں بھی گئے، وہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی دھاک بٹھا دی۔ آج بھی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا سابق طالب علم کہیں موجود ہو تو اس کا اندازِ نشست و برخاست ہی بتا دیتا ہے کہ وہ’’ علیگیرین ‘‘ہے۔ علیگیرینز خواہ ہندوستان، پاکستان یا دنیا کے کسی بھی چپے میں موجود ہوں، علم و ادب کے فروغ ، زبان و بیان کی ترویج اور اخلاقیات کی ترغیب کے لئے سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔
سر سید احمد خان نے1875ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد رکھی تھی جو بعدازاں1920ء میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے قائم ہوئی ۔علیگیرینز کی اچھی خاصی تعداد جدہ میں گزشتہ 40برس سے سر گرم ہے جو کی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔اس ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کاہر 2 سال کے بعد جمہوری طریق پرباقاعدہ انتخاب ہوتا ہے ۔ یہ ایسوسی ایشن وقتاً فوقتاً تفریحی اور فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہتی ہے ۔فی الوقت اس ایسوسی ایشن کی صدارت کے فرائض عزیز الرب انجام دے رہے ہیں ۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن، جدہ کی جانب سے شمال جدہ کے ایک استراحہ میں تقریب کااہتمام کیا گیا جس کا موضوع’’فروغِ اردو میں نوجوان نسل کی شرکت‘‘تھا۔ تقریب کا باقاعدہ آغازتلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کی سعادت مفتی ابو سفیان صاحب نے حاصل کی ۔ فریدالوحیدی کے پوتے فارس الوحیدی نے نعت طیبہ پیش کی ۔
محترم عزیز الرب اور فرزان رضوی نے شمع محفل روشن کی ۔ نائب صدر نور الدین خان نے موضوع کی مناسبت سے ایک کلیدی خطبہ پیش کیا ۔دوران خطبہ بار بار اس بات کی طرف نشاندہی کرتے رہے کہ اردو کو فقط بول چال کی حد تک محدود نہ رکھیں بلکہ لکھنے اور پڑھنے کی طرف بھی خاص توجہ مبذول کریں تاکہ اردو رسم الخط کو دنیا سے ختم کرنے کی سازش ناکام بنائی جا سکے۔ تقریب کے اگلے مرحلے میں ایک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس میں ہندوستان، پاکستان اور سعودی عرب کے مقامی شعرا ئے کرام کے علاوہ اردو شاعری سے شغف رکھنے والے لوگوںنے شرکت کی۔ مشاعرے کی صدارت فضا الرحمٰن نے کی ۔ انہوں نے اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان اور شاعری ہندوستان میں آج بھی مقبول ہیں یہاں تک کہ غیرمسلم بھی اردو میں غزلیں کہتے ہیں ۔اردو کا رسم الخط بہت اہمیت کا حامل ہے ۔
ایسوسی ایشن کے صدر عزیز الرب نے فضا الرحمٰن صاحب کا شکریہ ادا کیا اور اس بات کا عزم مصمم کیا کہ ہم اردو زبان کے فروغ کی خاطر کمر بستہ رہیںگے۔ انہوں نے کہا کہ اچھائی کی شروعات اپنے گھر سے ہوتی ہے ۔اردو زبان کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے بچّوں کو اپنی مادری زبان سکھائیں ۔اظہار خیال کے لئے اردو بہت موزوں زبان ہے اور اپنے اندر دیگر زبانوں کے الفاظ کی موجودگی کی وجہ سے یہ اردو نہ بولنے والوں میں بھی حد درجہ مقبول ہے ۔وہ قومیں جو اپنی زبان سے رشتہ توڈ دیتی ہیں ، اپنی شناخت کھو کر صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں ۔ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری عاصم ذیشان نے کہا کہ یہ مشاعرہ ہماری جامع ثقافت کا مظہر ہے ۔مجھے امید ہے کہ یہ قیمتی روایت ہمارے شعرا ء،نوجوان نسل اور اردو زبان سے محبت رکھنے والے لوگوں کی مدد سے جاری رہے گی ۔
ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور موجودہ مشیر فرزان رضوی نے کہاکہ نوجوان نسل کی مدد کے بغیر کوئی بھی زبان نہ ترقی کر سکتی ہے اور نہ پروان چڑھ سکتی ہے۔اس موقع پرانہوںنے سینیئر علیگیرین مولانا فرید الواحدی کی تعریف کی اور کہا کہ جونیئر علیگیرینز کے ساتھ وہ انتہائی عزت و شفقت سے پیش آتے ہیں۔ ان کا یہ وصف بلا شبہ لائقِ ستائش ہے ۔ مشاعرے کی نظامت کے فرائض گرجدار آواز اور دبنگ لہجے کے حامل ، تجربہ کار ناظم اشفاق بدایونی نے ادا کئے ۔مشاعرے میں شعرائے کرام کی جانب سے پیش کئے جانے والے کلام سے اقتباس پیشِ خدمت ہے:
٭٭ زمرّد سیفی
تیری نفرت ہے دل کا پاگل پن
 تیری نفرت میں کیا بکھر جائیں
 مل نہ پائے گی کوئی جائے پناہ
 اپنی نظروں سے جب اتر جائیں
٭٭ ضیاء مفتی
گر حمایت نہ ہو سکے حق کی، ظلم کی پیروی نہ کی جائے
 سر جھکے تو جھکے خدا کے حضور، غیر کی بندگی نہ کی جائے
احمد فاروقی* *
 بے غرض مونس و غم خوار کہاں سے لاؤں
اپنے گھر کے درو دیوار کہاں سے لاؤں
آج ملتی ہیں زلیخائیں تو ہر سو احمد
 یوسف چشم حیادار کہاں سے لاؤں
٭٭انجم اقبال علیگ
آئین میرے حق میں ہے ،قانون میرے ساتھ
 حاکم سنا رہے ہیں سزائیں مرے خلاف
مجھ بوریا نشیں کا مقدر تو دیکھئے
 اٹھی ہیں ہر طرف سے صدائیں مرے خلاف
٭٭صدیق الوحیدی 
ہاتھ قابیل کا پھر ہے بنی آدم پہ دراز
آدمی جان بہ لب، نوحہ کناں ہے کہ نہیں
٭٭انور انصاری
آنکھوں میں نظر باندھی، پیروں میں سفر باندھا
  میں دشت میں تھا برسوں اور دشت کو گھر باندھا
پانی پہ ہوا باندھی پھر اس پہ دیا رکھا
  پل پل کے اندھیرے کو تعبیرِ سحر باندھا
٭٭اطہر عباسی
 غم ضروری ہے فضا دل کی بدلنے کے لئے
 آدمی عیشِ مسلسل سے بھی تھک جا تا ہے
    محمد مجاہد سید**
وہ حقیقتوں کی زمین پر کہاں رکھ سکے ہیں کبھی قدم
وہ جو اپنی نیند سے تنگ ہیں، وہ جو اپنے خواب سے ڈر گئے
٭٭٭
سرِ آئنہ یہ چراغ بھی ،میرے ہاتھ پر ہے رکھا ہوا
پسِ پردہ کیوں ہے حجاب سا، کوئی پھر نگہ میں کھنچا ہوا
نعیم بازید پوری * *  
پھول ہونٹوں کا رنگ مانگتے ہیں
 مانگ پیروں کی گرد مانگتی ہے
تقریب کے اختتام پر حسب روایت ایسوسی ایشن کے نائب صدر نور الدین نے یونیورسٹی کے خصوصی افراد کا ذکر کیا اور ان کو خراج تحسین پیش کیا جن میں مولوی عبدالحق، رشید احمدصدیقی، قاضی عبد الستار، علی احمد سرور، اسلوب احمد انصاری جبکہ شعرائے کرام میں مجاز، جذبی،شہریار اور دیگر شامل تھے۔ انہوں نے تمام شعراء اور ایسوسی ایشن کے تمام افرادکا بھی شکریہ ادا کیاجن میں خاص طور پر فرزان رضوی، عزیز الرب، عاصم ذیشان، انور بلگرامی، اطہر رسول، امتیاز حسین احمد، عبدالبصیر، عقیل جمیل، محمد عتیق صدیقی،محمد سراج، رب نواز خان، مفتی ضیاء، شمس تبریز عالم اور غفران نشترشامل تھے۔اس موقع پر شعرائے کرام کو تحائف اور اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

شیئر: