Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شریعت پر نشانہ

مسلم معاشرہ میں طلاق دینے کے مروجہ طریقے کو ختم کردیا گیاتو مسلمانوں کے پاس شادی ختم کرنے کا کون سا طریقہ باقی بچے گا؟
- - - -  - - - - -
معصوم مراد آبادی
 - - - - - - - -
طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ کی دستوری بنچ نے سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران ملک کی سب سے بڑی عدالت میں فریقین نے طلاق ثلاثہ پر بحث ومباحثہ کے دوران عدالت کو اپنے دلائل کے ذریعہ مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ایک طرف جہاں مسلم پرسنل لاء بورڈ نے طلاق ثلاثہ کے جواز کے حق میں اپنے دلائل پیش کئے ،وہیں حکومت نے طلاق ثلاثہ کو سب سے بڑا گناہ اور جرم قرار دیتے ہوئے اسے قطعی طور پر ختم کرنے کی پُرزور وکالت کی۔بحث کے دوران کئی اتار چڑھاؤ آئے ۔مسلم پرسنل لا ء بورڈ کے وکیل کپل سبل کی طرف سے طلاق ثلاثہ کو رام مندر کی طرح آستھا(عقیدے)سے جوڑنے پر مسلم حلقوں کی طرف سے شدید نکتہ چینی کا نشانہ بنایا گیا اور اسے بابری مسجد کیس کو کمزور کرنے کی کوشش قرار دیا گیا۔وہیں دوسری طرف حکومت نے طلاق ثلاثہ کیخلاف بحث کے دوران مسلم معاشرہ میں طلاق کے چلن کو ہی ختم کرنے کی اپیل کی۔یہاں تک کہ اسلامی شریعت اور پرسنل لاء کوختم کرکے اپنی طرف سے ایک نیا قانو ن وضع کرنے کی بات کہی۔
حکومت نے کہا ہے کہ اگر 3 طلاق کا رواج ختم ہوا تو حکومت اسکے متبادل کے طور پر مسلمانوں کے شادی بیاہ اور طلاق سے متعلق نیا قانون وضع کریگی۔ یعنی مسلم پرسنل لاء کو ختم کرکے حکومت مسلمانوں کے عائلی قوانین کی جگہ اپنی طرف سے بنایاگیا قانون نافذ کریگی ۔یہی دراصل وہ خواہش ہے جو موجودہ حکومت کے دل میں کروٹیں لے رہی ہے اور وہ طلاق ثلاثہ کی آڑ لے کر مسلم پرسنل لاء پر شب خون مارنا چاہتی ہے۔حکومت کو سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ آخر مسلمان اپنے پرسنل لاء پر کیوں عمل پیرا ہیں اور انہیں شرعی قوانین کے تحت زندگی گزارنے کی آزادی کیوں حاصل ہے۔بظاہر حکومت طلاق سے متعلق قانون میں اصلاح کی طرفداری کا دعویٰ کرتی ہے لیکن وہ اندر ہی اندر مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنے کی سازش کررہی ہے جس کا اظہار اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے سپریم کورٹ میں کسی پس وپیش کے بغیر کردیا ہے ۔ طلاق ثلاثہ کے جواز پر سماعت کررہی سپریم کورٹ کی دستوری بنچ نے حکومت سے پوچھا تھا کہ مسلم معاشرہ میں طلاق دینے کے مروجہ طریقے کو ختم کردیا گیاتو مسلمانوں کے پاس شادی ختم کرنے کا کون سا طریقہ باقی بچے گا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا’’ایسی صورت میں سرکار نیا قانون لائیگی۔اٹارنی جنرل نے یہ بھی کہا کہ طلاق سے متعلق قانون میں تمام مسلم ملکوں کے اندر اصلاحات ہو چکی ہیں۔حکومت نے دلیل دی ہے کہ شریعت لاء 1937میں بناتھا جو کہ ایک ایکٹ ہے لیکن دستور کہتا ہے کہ قوانین کو دستور کے پس منظر میں دیکھا جائیگا۔ان حالات میں بنیادی حق کی خلاف ورزی کرنے والا قانون باقی نہیں رہ سکتا۔مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ ایک ساتھ3 طلاق برابری کے حق کی نفی کرتی ہے اسلئے اسے خارج کیا جائے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب سے طلاق ثلاثہ کیخلاف جارحانہ مہم شروع ہوئی ہے تب سے ہم لگاتار یہی لکھ رہے ہیں کہ طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کی یہ مہم درحقیقت ملک میں مسلمانوں کو حاصل مذہبی آزادی کو ختم کرنے کی مہم ہے۔
حکومت اس آزادی کو براہ راست ختم نہیں کرسکتی کیونکہ اس میں ملک کا دستور سب سے بڑی رکاوٹ ہے لیکن وہ اس مذہبی آزادی کو قانون اور دستور سے ٹکراؤ کی آڑ میںآہستہ آہستہ کمزور اور ناقابل عمل بناسکتی ہے۔طلاق ثلاثہ کی آڑ لے کر اس وقت پورے ملک میں اسلامی شریعت اور مسلم پرسنل لاء کو نشانہ بنانے کی شر انگیز مہم چل رہی ہے۔اس کے پیچھے اصل مقصد یہی ہے کہ عوام کے درمیان مسلمانوں کے عائلی قوانین اور مسلم پرسنل لاء کو اتنا بدنام کردیا جائے کہ لوگ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرنے لگیں۔ طلاق ثلاثہ پر جاری بحث کے دوران میڈیا اور سیاسی حلقوں میں یکطرفہ طور پر اسلام میں خواتین کے ساتھ ہونے والے نام نہاد ناروا سلوک کا ذکر تو بار بار کیا جارہا ہے لیکن ایک بار بھی اس پر کوئی مباحثہ نہیں ہوا کہ مجموعی طور پر ہندوستانی معاشرہ میں عورتوں کی کیا صورت حال ہے ۔خاص طور پر اکثریتی فرقہ میں عورتوں کے ساتھ ہونیوالے مظالم اور انہیں جہیز کے نام پر زندہ جلادینے کے واقعات نیزکروڑوں طلاق شدہ یا بیوہ عورتوں کی حالت زار اور آشرموں میں دردناک زندگی گزارنے والی خواتین پر نہ تو کوئی روشنی ڈالنے والا ہے اور نہ ہی اس پر تنقید کرنے والا ۔
سب کے سب طلاق ثلاثہ کے پیچھے اس طرح پڑ گئے ہیں گویا پورے ملک میں تمام خرابیوں کی جڑ یہی ہے ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ طلاق ثلاثہ کا غلط استعمال کرنے والے موجود نہیں یا مسلم معاشرہ میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں لیکن یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ ایسے مسلمانوں کی تعداد آخر کتنی ہے اور کتنے لوگ ایسا کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ پورے ملک میں بحث کا محور بن گیا ہے۔ یہاں تک کہ اس مسئلے کی آڑ لے کر مسلم پرسنل لاء اور عائلی قوانین کو نشانہ پر لے لیا گیا ہے۔ اس بحث کے دوران حکومت اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئی ہے کہ وہ طلاق ثلاثہ کو ختم کرکے مسلمانوں کے شادی بیاہ اور طلاق کا نیا قانون وضع کر لے گی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ جب مسلمانوں کو مسلم پرسنل لاء کے تحت اپنے عائلی امور انجام دینے کی دستوری آزادی حاصل ہے اور وہ اسکے تحت اطمینان بخش زندگی گزار رہے ہیں تو یہاں پر حکومت کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کیلئے نیا قانون وضع کرنے کے بارے میں غور وفکر کرے۔ظاہر ہے مسلمان مسلم پرسنل لاء کیخلاف حکومت کے ہر اقدام کی ان شاء اللہ مخالفت کرینگے اور وہ ایک لمحہ کیلئے بھی یہ برداشت نہیں کریںگے کہ حکومت ان پر کوئی قانون تھوپنے کی کوشش کرے۔

شیئر: