Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

متوقع انتخابی نتائج

حزب اختلاف کی ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر اچھلنے لگتی ہے گویا ہفت اقلیم مل گئی ہو اور بعد ازاں حقیقت معلوم ہونے پر بغلیں بجاتی اور منہ چھپاتی نظر آتی ہے
* * * * محمد مبشر انوار* * * *
جمہوریت میں بندوں کو گنا جاتا ہے ،تولا نہیں جاتا اور اسی پس منظر میں پاکستان کی سیاست مسلسل پنپ رہی ہے اور کوئی بھی سیاسی قائد اس فارمولے سے باہر سیاست کرنے کی جرأت نہیں کررہا بلکہ بعینہ ’’روم میں وہی کرو،جو رومی کرتے ہیں ‘‘ کے مصداق سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔سیاسی بحرانوں کی زرخیز زمین ،پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال دن بدن گھمبیر ہو تی جا رہی ہے ،حکومت آگ کا ایک دریا پار کرتی ہے تو اسے دوسرے دریا کا سامنا ہوتا ہے اور تقریباً یہی صورتحال نا تجربہ کار،جلد باز حزب اختلاف کی ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر اچھلنے لگتی ہے گویا ہفت اقلیم مل گئی ہو اور بعد ازاں حقیقت معلوم ہونے پر بغلیں بجاتی اور منہ چھپاتی نظر آتی ہے۔
نئی سے نئی تاویلیں گھڑتی اور نئے معنی دیتی نظر آتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لئے اقتدار صرف کانٹوں کی سیج بن چکی ہے مگر آفرین ہے ہمارے سیاسی قائدین پر کہ وہ کمال مہارت سے اس سیج کے تمام زہریلے کانٹے عوام کو منتقل کر دیتے ہیں جبکہ اقتدار کا صحیح مصرف اپنے اثاثہ جات کو بڑھانے میں استعمال کرتے ہیں۔ انتہائی سادہ زبان میں اگر بیان کیا جائے تو بات فقط اتنی سی ہے کہ حکمران ٹولہ اقتدار میں رہتے ہوئے اپنے تفویض کردہ اختیارات سے تجاوز کر کے زیادہ سے زیادہ ذاتی مفادات اقتدار سے کشید کرتا ہے اور نہ صرف اپنے بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے لئے جائیدادیں بناتا ہے کہ اس کا تمام تر محور و مرکز فقط اور فقط پیسہ ہے ۔ عوامی بہبود یا ملکی وقار اس کی نظروں میں ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔
مزید بد قسمتی یہ ہے کہ سیاسی افق پر موجود سیاستدانوں میں کوئی واضح تبدیلی بھی نظر نہیں آتی کہ وہی لوگ ایک سیاسی جماعت سے اٹھ کر دوسری سیاسی جماعت کا حصہ بن جاتے ہیں اور ان کی سیاسی حیثیت اور مرتبہ (الیکٹ ایبلزکی حیثیت)انہیں کسی بھی دوسری سیاسی جماعت میں پھر ٹکٹ کا اہل بنا دیتی ہے۔ اس صورتحال میں سیاست اور اقتدار میں واضح تبدیلی کے آثار نہ صرف معدوم ہیں بلکہ دور دور تک اس کی امید بھی نہیں کہ کسی طرح سے پاکستان اور پاکستانی عوام کے دن بدل سکیں لہذا آنے والی نہ جانے کتنی نسلوں کو اس تگ و دو سے گزرنا پڑے گا کہ وہ اپنے بنیادی حقوق کو کسی طرح اس ہزارپا سیاسی منظر نامے سے حاصل کر سکیں۔ بحرانوں کے حوالے سے موجودہ حکومت خاصی خود کفیل ثابت ہوئی ہے کہ اس کا ہر دوسرا دن کسی نئے بحران کو اپنے جلو میں لئے ہوئے ہے لیکن سب سے زیادہ جس بحران نے اس حکومت کی بالعموم اور حکمران خاندان کی بالخصوص ’’عزت افزائی‘‘ کی ہے اور ہنوز جاری ہے وہ پانامہ ا سکینڈل ہے اور اس کے ساتھ ضمنی کے طور پر جس بحران نے حزب اختلاف کو امید دلائی وہ ’’نیوز لیکس‘‘ کا بحران تھا۔
ماضی کو ذہن میں رکھتے ہوئے بارہا ایسی امیدیں تحریک انصاف سمیت دوسری سیاسی جماعتوں نے لگائی کہ فوج کسی بھی وقت حکومت کا تختہ الٹ سکتی ہے مگر افسوس یہ ہو نہ سکا اور حکمران جماعت بوجوہ اس بحران سے سرخرو ہو ہی گئی،جس میں حکومت کی اپنی اہلیت ’’صفر بٹا صفر‘‘ہی تھی ماسوائے ایک بدنام زمانہ ’’مذاق جمہوریت‘‘ کہ جس کی وجہ سے فوج پیش منظر میں آنے سے مسلسل گریزاں ہے وگرنہ ملکی سلامتی کا معاملہ ایسا تھا کہ میمو گیٹ ا سکینڈل پر ہی جمہوریت کا بوریا بستر گول ہو جاتا اور عوام اس وقت مارشل لاء کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی۔ نیوز لیکس کا بحران تو جیسے تیسے ٹل گیا لیکن کیا پانامہ بحران کا انتظام بھی یوں ممکن ہے؟؟کیونکہ اس وقت حزب اختلاف کی ساری کی ساری توجہ پانامہ کی جے آئی ٹی پر مرکوز ہے اور وہ یہ آس لگائے بیٹھی ہے کہ جے آئی ٹی کے نتیجے میں اگرصرف ایک معزز جج نے بھی اپنے فیصلے سے رجوع کر لیا تو حزب اختلاف ، میاں نواز شریف کی چھٹی کروانے کا میدان،مارلے گی۔
بات یہاں تک ٹھیک ہی ہے لیکن کیا اس کے بعد حزب اختلاف انتخابی میدان میں بھی کامیاب ہو جائے گی، اس کی کیا ضمانت ہے؟کیا حزب اختلاف سمجھتی ہے کہ شخصیت پرستی کی ماری عوام ، فقط ایک شخص کے منظر سے ہٹنے پر اس سیاسی جماعت سے ناطہ توڑ لے گی؟اگلے انتخابات میدان میں اترنے سے پہلے کیا یہ مفروضہ درست ہو سکتا ہے؟اور کیا واقعی صرف اس ایک مفروضے پر آئندہ انتخاب میں اترا جا سکتا ہے؟میرے نزدیک یہ حزب اختلاف کی ایک اور فاش غلطی ہو گی اگر وہ اس مفروضے کے تحت انتخابی میدان میں اترتی ہے کہ شخصیت پرستی کہ اس معاشرے میں ،بالخصوص ہمدردی کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے ہماری سیاسی اشرافیہ بہت حد تک کامیاب رہتی ہے۔
علاوہ ازیں دوسری اہم ترین بات کہ اگر میاں نوازشریف کسی بھی وجہ سے اپنی حیثیت یا سیاسی سرگرمیوں سے محروم کر دئیے جاتے ہیں ، تب صورتحال یکدم بدل جائیگی اور بہت زیادہ امکانات ہیں کہ وہ موسمی پرندے جو حالات کے مطابق یا نظریہ ضرورت کے تحت یا دوسری جماعت میں نقب لگانے کے لئے ارادتاً بھیجے گئے ہیں ،عین انتخابی اکھاڑہ سجنے سے پہلے واپس اپنے آشیانوں میں لوٹ آئیں،اس کی ابتداء بھی ہو چکی ہے،دیکھیں انتہا کیا ہوتی ہے۔پاکستانی سیاست کی ایک اٹل حقیقت بھٹو صاحب کی سیاست ہے کہ اس و قت بھٹو کے سیاسی نظریات کو عوام نے قبولیت بخشی اور بھٹو صاحب نے الیکٹ ایبلز کی بجائے اپنے نو آموز سیاسی کارکنوں کو ٹکٹ دئیے اور ان کارکنوں نے سیاست کے بڑے بڑے برجوں کو شکست فاش دی لیکن جب بھٹو نے کارکنان کو چھوڑ کر الیکٹ ایبلز پر انحصار کرتے ہوئے انتخابات جیتے ، تو نہ صرف وہ بلکہ ان کی پارٹی بھی سخت مصائب کا شکار ہوئی اور یہی صورتحال محدود سطح پر ایم کیو ایم کی رہی۔
میری نظر میں اس وقت ،جس کا اظہار پہلے بھی کر چکا ہوں،پاکستان پیپلز پارٹی کے ناراض اور مایوس کارکنان کی اکثریت آج تحریک انصاف کا حصہ ہیں لیکن قیادت ابھی بھی الیکٹ ایبلز کے ہاتھوں میں ہے،دیکھنا یہ ہے کہ انتخابات سے قبل ٹکٹ کے لئے ،عمران خان صاحب پارٹی کے کارکنان کا انتخاب کرتے ہیں یا الیکٹ ایبلز کا،بالخصوص اس وقت اگر نئے الیکٹ ایبلز پارٹی کا حصہ بنتے ہیں اور ان کی چپقلش میں کچھ الیکٹ ایبلز پارٹی چھوڑ کر جاتے ہیں۔ اس پس منظر کے ساتھ ساتھ گزشتہ انتخابات کو سابق صدر زرداری نے آر اوز کا الیکشن کہا تھا جبکہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پولنگ ختم ہوتے ہی اپنی رہائش گاہ پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں واضح اکثریت چاہئے تا کہ وہ کسی دوسری سیاسی جماعت کے دباؤ سے آزادہو کر اپنے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں اور بعد ازاں مسلم لیگ ن واضح اکثریت سے جیتی،یہ الگ بات کہ اس نے اپنے کسی بھی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا بلکہ معاملات مزید الجھے ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتاکہ پنجاب میں افسر شاہی ریاست کی بجائے شاہی خاندان کی ملازمت کو ترجیح دیتی ہے کہ اس میں بہت سے ذاتی مفادات کا حصول نہ صرف ممکن ہوتا ہے بلکہ کسی بھی قسم کی پریشانی یا زحمت سے محفوظ رہا جا سکتا ہے اور وہ افسر جو ریاست ،آئین و قانون کے تحت کام کرتے ہیں انکا انجام محمد علی نیکوکارا یا شارق کمال صدیقی جیسا ہوتا ہے۔ انتخابی نظام بذات خود انتہائی کمزور ہو چکا ہے جس کی اصلاح وقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے مگر ہزارپا کی طرح ملک کو جکڑے ہوئے اشرافیہ کسی بھی طور اس نظام کی اصلاح کے لئے تیار نہیں کہ یہی وہ نظام ہے جس کی کمزوریوں سے حکمران ٹولہ بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اعدادو شمار کی برتری حاصل کرکے اقتدار پر براجمان ہوتا ہے۔ وہ کیسے اس نظام کی اصلاح کرکے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارے؟اور اس نظام کے رہتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی دوسری جماعت برسر اقتدار آ سکے؟اس نظام کے رہتے ہوئے یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی بھی نئی جماعت اس شکنجے کو توڑ کر اپنے لئے جگہ بنا سکے یا دوسری صورت یہ ہے کہ مقتدر حلقے جس جماعت کے سر پر دست شفقت رکھیں جیسا 2013ء کے انتخابات میں ہوا ،جس کا ثبوت میاں نواز شریف صاحب کی بعد از پولنگ تقریر تھی۔ اس پس منظر میں ہونے والے انتخابات اور انتخابی نتائج میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں۔

شیئر: