Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایثار اور تواضع، دو عظیم خوبیاں

ایثار اور قربانی اخلاق حمیدہ کی صفات کسی قوم، جماعت یافرد میں پائی جائیں تو وہ قوم یا فرد لوگوں میں بے حد محبوب بن جاتے ہیں
* ** * * *عبد المالک مجاہد۔ ریاض* * * * *
معزز قارئین کرام! رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونے والاہے ۔ رمضان ایک تربیتی اور عملی مدرسہ ہے۔ کیوں نہ ہم اس مدرسہ کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کریں۔ اس مدرسہ میں داخلے کا ہر وہ شخص اہل ہے جس نے توحید باری تعالیٰ اور رسالت نبی کریمکا زبانی اقرار کیا ہے اور دل سے اس کی تصدیق کر چکا ہے۔اس مدرسہ کا نام رمضان المبارک ہے۔ اللہ کے رسولنے ارشاد فرمایا: جو شخص رمضان المبارک کے روزے پختہ یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب لینے کی نیت سے رکھے گا تو اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے ۔ہمیں اس مدرسہ سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ اپنے اخلاق اور کردار میں تبدیلی لانی ہے۔ اپنے اندر عمدہ صفات پیدا کرنی ہیں۔ ایک اچھے مسلمان کے اندر بہت ساری صفات ہوتی ہیں۔ان صفات کی طرف قرآن کریم ہماری رہنمائی کرتا ہے۔
قرآن کریم میں مسلمان کی جن صفات کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان میں ایک صفت ایثارکی بھی ہے۔دوسروں کے لیے قربانی دینا،خود بھوکا، یاسا یا ضرورت مند ہونے کے باوجود اپنے مسلمان بھائی کو اپنی ذات پر ترجیح دینا ایک سچے اور پکے مسلمان کی نشانی ہے۔میرے سامنے قرآن کریم کی سورۃ الحشر کی آیت نمبر9ہے، جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وہ خود پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، خواہ انہیں خود اس چیز کی سخت ضرورت ہی کیوں نہ ہو،جنہوں نے اپنے آپ کو اپنے نفس کی بخیلی یا کنجوسی سے بچا لیا، وہی کامیاب ہیں۔‘‘ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ابھی امت مسلمہ میں بڑی خیر ہے۔وہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور خیر خواہی کرتے ہیں۔ ان میں ایثار و قربانی کاجذبہ بہت زیادہ ہے۔ایسا کیوں نہ ہو اس لیے کہ ہمارے پیارے رسولنے اپنی امت کو جو سبق اور درس دیا وہ یہ تھا: ’’کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی کچھ پسند کرے جو وہ اپنے لیے کرتا ہے۔‘‘ سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے آخری دور میںجنگ یرموک ہوئی۔اردن کے علاقے میں واقع دریائے یرموک کے کنارے مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان ہونے والی یہ جنگ بڑی فیصلہ کن تھی۔مسلمانوں کی قیادت سیدنا خالد بن ولیدؓکے پاس تھی۔
اس معرکہ میں کتنے ہی مشہور صحابی شہید ہوئے۔جنگ ختم ہوچکی ہے۔دشمن بھاگ چکا ہے۔حذیفہ عدوی اس جنگ میں شریک تھے۔معرکہ کے اختتام پر انہوں نے پانی کی چھاگل لی اور اپنے چچازاد بھائی کی تلاش میں چل پڑے۔ حذیفہ کہتے ہیں: میرے دل میں تھا کہ اگر مجھے بھائی مل گیا تو اسے کچھ پانی پلا دوں گا۔باقی پانی سے اس کے چہرے کو صاف کروں گا۔یرموک کا میدان کوئی چھوٹا سا تو نہ تھا،اس میں کسی زخمی کو تلاش کرنا کوئی آسان بات نہیں تھی مگر میں نے اپنے شدید زخمی بھائی کو تلاش کرہی لیا۔میں نے پانی کا پوچھاتو انہوں نے اثبات میں اشارہ کیا۔میں نے چھاگل کا منہ کھولا، ابھی پانی انڈیلنے ہی لگا تھا کہ ایک طرف سے زخمی کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔میرا چچازاد کہنے لگا: بھائی! پہلے اسے پانی پلاؤ۔مجھے زیادہ پیاس نہیں۔حذیفہ اس زخمی کے پاس پہنچے۔اس پر جھکے، چھاگل کا منہ کھولا ہی تھا کہ ایک اور طرف سے کسی زخمی کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔اس زخمی نے کہا: نہیں! پہلے اس کو پانی پلاؤ، وہ مجھ سے زیادہ پیاسا ہوگا۔
حذیفہ چھاگل لیے اس زخمی کی طرف بھاگے، دیکھا کہ وہ توجام شہادت نوش کر چکے ہیں۔دل میں آیا کہ پہلے والے زخمی کی طرف جاؤں،ان کو پانی پلاؤں۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ بھی شہید ہو چکے ہیں۔ اب ان کا رخ اپنے چچا زاد بھائی کی طرف تھا۔وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ بھی شہید ہوچکے ہیں۔ ایثار اور قربانی کی یہ مثالیں ہمیں صرف مسلمانوں ہی میں ملتی اور نظر آتی ہیں۔ اللہ رب العزت ایثاروقربانی کرنے والوں کو ایک گارنٹی دیتا ہے اور وہ گارنٹی کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: {وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ہُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًا} ’’اور جو کچھ تم اپنے لیے آگے بھیجو گے ، اللہ کے پاس اس سے بہتر اور اجر میں زیادہ پاؤ گے۔‘‘ ایثار اور قربانی اخلاق حمیدہ کی ایسی خوبصورت شکل ہے کہ اگریہ صفت کسی قوم، جماعت یافرد میں پائی جائے تو وہ قوم یا فرد لوگوں میں بے حد محبوب بن جاتے ہیں۔ایثار کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کے پاس مال ودولت کی کثرت ہو۔
دراصل یہ ایک مزاج ہوتا ہے جو محنت اور مسلسل مشق کے ذریعے کوئی بھی حاصل کر سکتا ہے۔جو شخص بھی جذبہ ایثار سے مالا مال ہو وہ مالدار ہوئے بغیر بھی دوسروں کو فائدہ پہنچاسکتا ہے۔ اللہ کے رسولکے دور اقدس میں یمن سے تعلق رکھنے والا اشعری قبیلہ بڑا مشہور تھا۔آپکا مشہور صحابی ابوموسی اشعری کا تعلق اسی خاندان اور قبیلہ سے تھا۔اس دورمیں پیسہ بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا تھا۔لوگوں کو بس زندہ رہنے کے لیے کھانے کو کچھ مل جاتا تویہی غنیمت تھا۔اس قبیلہ کے لوگوں میں ایثاروقربانی کی بڑی خوبصورت روایت چلی آرہی تھی کہ جب ان کے پاس کھانے پینے کی اشیاء ختم ہونے کو ہوتیں یا بعض کے پاس ختم ہوچکی ہوتیں تورئیس قبیلہ حکم دیتا کہ جس کے گھر جو بھی آٹا،جو،ستو، کھجوریں یا کھانے پینے کی اشیاء ہیں وہ اس کے پاس لے آئے۔
بڑی بڑی کئی چادریں زمین پر بچھا دی جاتی ہیں۔اب کھانے کی جو بھی چیز کسی کے گھر میں ہے وہ لا کر ان چادروں پر ڈال رہا ہے۔مثلاً کسی کے گھر میں جو ہیں یا آٹا ہے،اس نے اس چادر پرڈال دیا،کسی کے پاس کھجوروں کی ایک مقدار ہے، کسی کے پاس گھر میں زیتون ہے یاجو چیز بھی کسی کے پاس ہے وہ تھوڑی ہے یازیادہ،وہ لا کر چادروں کے اوپر ڈالتا جا رہا ہے۔جب سارے لوگ اپنے گھروں سے کھانے پینے کی اشیاء لے کر آجاتے ہیں تو مساوی طور پر اس غلہ یااشیائے خور ونوش کو آپس میں تقسیم کرلیا جاتا۔ ا س کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ در اصل مساوات محمدی ہے۔
ذرا تصور کیجیے! ایثار اور قربانی کی اس سے زیادہ خوبصورت مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ کسی کی عزت نفس کو ٹھیس بھی نہیں پہنچی اور ہر گھر کوکھانے پینے کی چیزیں بھی مساوی طور پر میسر آگئیں؟اب دیکھئے کہ اسلام اس معاملے کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اللہ کے رسول نے اشعری قبیلے کی تعریف فرمائی ہے۔ارشادہوا: ’’قبائل میں بہترین بنو اسد اور اشعری قبیلہ کے لوگ ہیں۔ یہ میدان جنگ سے بھاگتے نہیں اور خیانت بھی نہیں کرتے۔ یہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔‘‘
قارئین کرام! میں اللہ کے رسولکے ان الفاظ پر غور کر رہا ہوں کہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ میں ان الفاظ کی معنویت اور جامعیت کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ اللہ اللہ! یہ مرتبہ اور مقام کہ اللہ کے رسولان کے بارے میں فرما رہے ہیں: یہ مجھ سے ہیں،گویا آپ نے انہیں اپنے خاندان میں شامل کر لیا۔ دراصل یہ وہ ایک قائد اور لیڈر کے الفاظ ہیں جن سے وہ اپنی قوم اور امت کے مورال کو بلند کرتا ہے۔ کیا ایسا نہیں کہ قیامت تک اشعری قبیلے کے لوگ اس بات پر فخر کرتے رہیں گے کہ انہیں آقائے دو جہاں نے یہ لقب عطا فرمایا کہ یہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔
یعنی میں بھی اسی قبیلے کا ایک فرد ہوں۔ مسلمان حسن اخلاق کا مرقع ہوتا ہے۔ اعلیٰ اخلاق کا حامل مسلمان متواضع ہوتاہے۔اس میں بڑائی یا تکبر نہیں ہوتا۔ وہ اپنے آپ کو برتریا بڑا نہیں سمجھتا۔وہ لوگ جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں،دوسروں کو حقیر یا اپنے سے چھوٹا سمجھتے ہیں،اسلام کی نگاہ میں وہ نہایت قابل مذمت ہیں۔اللہ کے رسول نے اپنے ساتھیوں کی اس طرح تربیت کی، ان کا تزکیہ نفس کیا کہ وہ اپنے آپ کو بالکل متواضع سمجھنے لگے۔اللہ کے رسول نے اپنی امت کو کچھ رہنما اصول بتائے ہیں۔آپ نے ارشاد فرمایا: خیرات مال کو کم نہیں کرتی۔اگر کوئی شخص کسی کو معاف کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اسے عزت عطا فرماتا ہے اور جو اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے، اللہ اسے بلندی عطا کرتاہے۔ حضرت عمربن عبدالعزیز ؒ اموی خلیفہ تھے ،انہیں پانچواں خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے۔ اپنے دور خلافت میں ایک دن اپنی کنیز سے کہنے لگے: میں سونا چاہتاہوں۔ تم مجھے پنکھے سے ہوا دو۔
لونڈی ہوا دینے لگ گئی اور عمر بن عبدالعزیز سوگئے۔تھوڑی دیر گزری تو اس کنیز پر بھی نیند کا غلبہ ہوا اور وہ بیٹھی بیٹھی سوگئی۔کچھ وقفہ کے بعد سیدنا عمربن عبدالعزیز جاگے تو دیکھاکہ کنیز سو رہی ہے۔اب دیکھیے تواضع اس چیز کا نام ہے کہ وسیع وعریض اسلامی حکومت کے سربراہ عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ نے پنکھا ہاتھ میں لیا اور کنیز کو ہوا دینے لگے۔جب وہ جاگی تو اس نے دیکھا کہ امیر المؤمنین اسے پنکھے سے ہوا دے رہے ہیں توگھبرا اٹھی۔حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے فرمایا: گھبرانے کی کوئی بات نہیں،تم بھی انسان ہو،تمہیں بھی گرمی لگتی ہے۔تم بھی گرمی سے متاثر ہوتی ہو۔
مجھے جب گرمی لگی تو تم نے مجھے ہوادی، اب اگر میں نے تمہیں ہوا دے دی ہے تو اس میں انوکھی بات کیا ہے؟ ہمارے قارئین نے یقینا حاتم طائی کانام سن رکھا ہو گا۔یہ اصل میںیمن کا شہزادہ تھا، وہاں سے ہجرت کرکے حائل کے علاقے میں اپنی حکومت قائم کرتا ہے۔ یہ علاقہ آج کل سعودی عرب کے شمالی حصے میں واقع ہے۔ حاتم طائی تو اللہ کے رسولکی بعثت سے پہلے ہی وفات پاگیاالبتہ اس کا بیٹا عدی اسلام کے شدید دشمنوں میںسے تھا۔ مذہباً عیسائی تھا۔مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بندی کررہا تھا۔اس کی بہن سفانہ دیگر لوگوں کے ساتھ گرفتارہو کر مدینہ لائی گئی،یہاں وہ اللہ کے رسولکے اخلاق سے بے حد متاثر ہوئی۔اسلام قبول کرلیااور اپنے بھائی کو ملامت کرنے کے بعد مدینہ بھیجا۔عدی نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا۔یہ ایک بڑے باپ کا بیٹا تھا۔یوںبھی قبیلے کا سردار تھا۔اس کے دل میں اسلام کے بارے میں خاصی بدگمانیاں تھیں۔کتنے ہی سوالات تھے جو وہ اللہ کے رسولسے کرنا چاہتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ مسلمانوں کے نبی اکرم نے نجانے کتنے بڑے محلات بنائے ہوں گے۔ ڈھیروں سونے اور چاندی کے مالک ہوں گے۔مسجد نبوی میں آیا ،اللہ کے رسولسے ملاقات کی۔مسجد نبوی نہ تو بہت بڑی تھی نہ ہی پختہ اینٹوں کی بنی ہوئی تھی،نہ ہی شاہانہ فرش تھے۔
عدی کے دل میں آیا کہ مسجد تو بڑی متواضع ہے نجانے اس نبی نے اپنا گھر کتنا بڑا بنایا ہوگا،اس میں کتنا مال ومنال اکٹھا کررکھا ہوگا؟! اللہ کے رسولنے باتیں کرتے کرتے عدی سے فرمایا: عدی! چلو باقی باتیں گھر چل کے کرتے ہیں۔عدی کہتے ہیں: میں بھی یہی چاہتا تھاکہ ان کا گھر دیکھوں۔جب گھر میں داخل ہوئے تو وہاں بھی سادگی کی انتہا تھی۔گھر میں فرش کچی مٹی کا تھا۔بیٹھنے کے لیے کوئی نشست گاہ نہ تھی۔ عدی سوچ بچار میں پڑ گئے کہ آخر ہم دونوں کہاں بیٹھیں گے؟ اللہ کے رسول نے اپنی چادر مبارک کندھے سے اتاری اور اسے زمین پر بچھا دیا۔عدی کہتے ہیں: میرے دل میں خیال آیا کہ اب یہ نبی خود تو چادر پر بیٹھیں گے اور مجھے کچی زمین پر بٹھا دیں گے۔ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اللہ کے رسول ے میرا بازو پکڑکریہ کہتے ہوئے مجھے اپنی چادر پر بٹھا دیا: عدی! تم بڑے باپ کے بیٹے ہو، اس چادر پربیٹھو۔عدی کہتے ہیں: میں نے اشارے سے پوچھا: آپ کہاں بیٹھیں گے؟تو آپ نے کچے فرش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عدی! میرا کیا ہے؟ میںتو اس کچے فرش پرہی بیٹھ جاؤں گا۔عدی کہتے ہیں:میرے دل میں کئی ایک سوالات تھے جو آپ کا اخلاق دیکھ کر ختم ہوگئے۔عدی نے آپ کی تواضع دیکھی تو نقد دل ہار بیٹھا۔کلمہ شہادت کی گواہی دی اور آپ کا جانثار بن گیا۔ آپ نے پوچھا: عدی! وہ تمہارے پاس کچھ سوالات تھے۔
عدی نے کہا: کبھی تھے مگر اب نہیںہیں۔قارئین کرام!یہ اللہ کے رسول کی تواضع کی ایک مثال تھی۔ عمرو بن شیبہ کہتے ہیں: ہم مکہ مکرمہ میں تھے۔ہم نے دیکھا کہ ایک شخص صفا اور مروہ کے درمیان اپنے خچر پرسوار ہے، اس کے ارد گرد نوکر اور خدام ہیںجو لوگوں کو اس سے پرے ہٹا رہے ہیں۔وہ بڑے تکبراور فخرکے ساتھ خچرپربیٹھا صفاومروہ کے ما بین چکر لگا رہا ہے۔ اللہ کے گھر میں اس طرح خدام کے حصار میں صفامروہ کے چکر لگانا ہمیں کچھ اچھا نہ لگا۔کچھ عرصہ گزرا،مجھے بغداد جانے کا اتفاق ہوا۔میں نے ایک آدمی کودجلہ کے پل پر صفائی کرتے اور لوگوں کا سامان اٹھاتے ہوئے دیکھا۔میں اسے باربار دیکھ رہا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا: تم اس طرح میری طرف باربار کیوں دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا: کچھ عرصہ پہلے میں نے مکہ مکرمہ میں تم سے ملتا جلتا شخص دیکھاتھا۔ کہنے لگا: ہاں! میں وہی ہوں۔مجھے بڑا تعجب ہواکہ وہ تو بڑے کروفرسے اپنے نوکروں کے جلو میں صفا مروہ کے چکر لگا رہا تھا۔ کہنے لگا: میں نے وہاں تکبر اور فخر کا اظہار کیا جہاں لوگ تواضع اختیار کرتے ہیں۔ آج اللہ نے مجھ سے اپنی نعمت چھین کر بھکاری بنا دیا۔
سیدناعمرفاروقؓ کے دور خلافت کی بات ہے کہ کسریٰ کا نمائندہ خصوصی مدینہ طیبہ آتا ہے۔اس نے پوچھا: قصر الامارہ اور تمہارا بادشاہ کدھر ہے۔لوگوں نے بتایا: ہمارے ہاں بادشاہ نہیں امیر المؤمنین ہوتے ہیں اور وہ اس وقت شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں۔وہ ان کی تلاش میں گیا تو دیکھا کہ سیدنا عمر ایک بڑے درخت کے نیچے آرام کررہے ہیں۔نیچے ریت ہے۔ان کو پسینہ آیا ہواہے۔نہ کوئی سکیورٹی نہ پولیس والا،نہ تکیہ نہ بچھونا،کچھ بھی تو نہیں۔ اس نے یہ منظر دیکھتے ہی بے ساختہ کہا:آپ نے حکومت کی اے عمر! لوگوں کے ساتھ انصاف کیا، اس لیے امن اور چین سے سو رہے ہیں۔ اس نے اپنے حکمرانوں کا تصور کیا جو سکیورٹی کے بغیر باہر نہیں نکلتے۔مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ سیدنا عمر کی تواضع سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسلام قبول کرلیا۔ ہمارے اس معاشرے میں بعض لوگ جو اونچا اور بلند مقام حاصل کرلیتے ہیں ،اپنے ماضی کوبھول جاتے ہیں۔وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے آباء واجداد تو بہت زیادہ مالدار یا پڑھے لکھے تھے۔وہ فلاں فلاں منصب پر فائز رہے۔ کائنات کی سب سے اعلیٰ اور ارفع شخصیت کے پاس ایک شخص ملنے کے لیے آتا ہے۔آپ کا جلال اور جمال دیکھا تو کانپنے لگا۔آپ نے اسے تسلی دیتے ہوئے فرمایا:ساتھی! ڈرنے اور خوف کرنے کی کوئی بات نہیں، میں تو اس ماں کا بیٹا ہوں جوخشک گوشت کھایا کرتی تھی۔
ہمارے نزدیک کسی بھی انسان کی عظمت یہ ہے کہ وہ اپنی کم مائیگی کا بر ملا اعتراف کرے، تواضع اختیار کرتے ہوئے کہہ دے: بھئی! میں فلاں قبیلے سے تعلق رکھتا ہوںیا ہماری مالی حالت کبھی یہ تھی، اب اللہ نے ہمارے اوپر انعام کیا ہے اور اپنے فضل وکرم سے ہمیں یہ منصب دیا ہے یا اس مقام تک پہنچایا ہے۔ ہمارے سامنے اگر کوئی قدوہ اور قابل اتباع شخصیت ہے تو وہ اللہ کے رسول کی ہے۔آپ نے ارشاد فرمایا: ’’جو بھی نبی مبعوث کیا گیا اس نے بکریاں چرائی ہیں۔‘‘ صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں۔آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’ہاں! میں نے بھی چند قیراط کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرائی تھیں۔‘‘ ہارون رشید عباسی خلیفہ بہت بڑی سلطنت پرحکومت کرنے والے حکمران تھے۔ ان کی تواضع کا بڑا خوبصورت واقعہ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے۔انہوں نے ایک مرتبہ ایک نابینا محدث ابو معاویہ الضریر کو اپنے گھر پر بلایا۔ان سے اللہ کے رسول کی احادیث سماعت کیں۔تھوڑی دیر بعد کھاناآگیا۔ابو معاویہ سمیت سبھی نے امیر المؤمنین کے دسترخوان پر کھانا کھایا۔ابو معاویہ ہاتھ دھونے کے لیے اٹھے تو ہارون رشید بھی ان کے پیچھے گئے۔خادم ابو معاویہ کے ہاتھ دھلانے کے لیے پانی ڈالنے لگا تو ہارون رشید نے لوٹا اس کے ہاتھ سے پکڑ لیا اور خود ابو معاویہ کے ہاتھوں پرپانی ڈالنے لگے۔ابو معاویہ چونکہ نابینا تھے، اس لیے انہیں معلوم نہ تھا کہ ان پر پانی کون انڈیل رہا ہے۔ ہارون رشید نے آواز دی: ابو معاویہ! جانتے ہیں آپ کے ہاتھوں پر پانی کون انڈیل رہا ہے؟انہوں نے جواب دیا: نہیں۔ ہارون رشید کہنے لگے:امیرالمؤمنین آپ کے ہاتھوں پر پانی انڈیل رہے ہیں۔ ابو معاویہ نے ہارون رشیدکو ڈھیروں دعائیں دے ڈالیں۔ ہارون کہنے لگے: میں نے تو محض علم کی تعظیم بڑھانے کے لیے یہ کام کیا ہے۔

شیئر: