Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کسی بھی ملک کے مقابلے میں قطر میں ہیلتھ ٹریٹمنٹ پر خرچ نہ ہونے کے برابر ہے

بظاہر تو پولیس خال خال ہی نظر آتی ہے مگر جیسے ہی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے وہ بوتل کے جن کی طرح آدھمکتے ہیں، دوحہ اب خوابوں کا شہر بنتا جارہا ہے
* * * * ممتاز شیریں،دوحہ ،قطر* * * * * *

چوتھی قسط

کہنے کو تو دوحہ عالی جی کے دوھے جتنا ہے مگر ادبی حوالے سے اس کا علاقہ اور نام بہت بڑا ہے بہت سی ادبی تنظیمیں یہاں کام کر رہی ہیں جس میں "مجلس فروغ اردو ادب " قدیم ترین ادبی ادارہ ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جو کئی دہائیوں سے بین الاقوامی اردو ایوارڈ تقسیم کر رہا ہے اور عالمی مشاعروں کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ یہ صرف مشاعرے ہی نہیں کانفرنسیں اور مذاکرے بھی کراتا ہے اور ان میں بیرون ملک سے شعرائے کرام کو "نان و نفقہ" دے کر بلایا جاتا ہے۔ العدید امریکن ائیر بیس قطر میں امریکہ کا ایک وسیع اور جدید ہوائی اڈہ ہے جہاں سخت جان امریکی تعینات ہیں۔ العدید ائیر بیس دوحہ سے 40 کلو میٹر اور ہمارے گھر کے راستے سے گزر کر آتا ہے۔ اس ائیر بیس کا قیام 1991 میں گلف وار کے بعد عمل میں آیا عراق کی جنگ میں جب امریکی فائٹر جہاز اپنی پوری گھن گرج کے ساتھ ہمارے سروں سے شوں شوں کر کے گزرتے تھے تو دل کانپ کانپ اٹھتا تھا ہر لمحے دل کو دھڑکا سا لگا رہتا تھا کہ کہیں اندازے کی غلطی سے کوئی بم ادھر نہ گر جائے۔ اس ائیر بیس کی سیکیورٹی کا انتظام نہایت جدید اور سخت ہے کچھ سال پہلے جب میرا چھوٹا بیٹا 3 سال کا تھا تو ایک رات ہم اپنے گھر واپس جارہے تھے۔
العدید امریکن ائیر بیس کے پاس سے گزر رہے تھے کہ حماد میاں کو حاجتِ ضروریہ پیش آگیا۔ ابھی گھر آنے میں کافی وقت تھا۔ چونکہ آس پاس کوئی آبادی نہیں تھی ہم نے یہ خیال کیے بغیر کہ ہم العدید ائیر بیس کے پاس ہیں اپنی گاڑی روک لی اور حماد سے کہا کہ تم فارغ ہو لو ہمیں بمشکل 10 منٹ ہی لگے ہوں گے ابھی گاڑی دوبارہ اسٹارٹ ہی ہونے والی تھی کہ اچانک سے ایک امریکی فوجی تیز سرچ لائٹ ہم پر ڈالتا آ پہنچا اور "ادھر کیوں رکے" کی تفتیش شروع کر دی بڑی مشکل سے اسے یقین آیا کہ ہم کسی "بْری " نیت سے نہیں رکے تھے پھر بھی اس نے ہمارا نام، پتہ،گاڑی کا نمبر ،اور سیل فون نمبر نوٹ کیا۔ ہمیں کتنے ہی دنوں تک یہ سوچ کر نیند نہیں آئی کہ کہیں کسی "نامعلوم افراد" کے" کردہ " گناہ کی پاداش میں ہم نہ دھر لئے جائیں…! باہر کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں قطر میں ہیلتھ ٹریٹمنٹ پر خرچ نہ ہونے کے برابر ہے۔
جدید مشینری اور سہولیات سے آراستہ صاف ستھرے حمد جنرل اسپتال میں علاج عوام و خواص سب کیلئے یکساں ہے ۔ابھی پچھلے سال کی بات ہے حماد (میرا چھوٹا بیٹا) اسکول سے گھر آیا تو پیٹ کے درد سے بے حال تھا ہم بھاگم بھاگ اس کو اسپتال لے کر گئے تو اپنڈیکس ظاہر ہوا ۔ڈاکٹروں نے پہلی ترجیح پر اس کا آپریشن کیا جب تک اسپتال میں رہا بہترین علاج کے ساتھ غذا اور دوا سب مکمل مفت ملتا رہا اور رخصت ہوتے وقت بچے کو خوش کرنے کیلئے ایک عدد پلے اسٹیشن بطور تحفہ اسپتال کی طرف سے دیا گیا…! قطر کی گلیوں اور بازاروں میں چھوٹے چھوٹے "مطعم" پاکستانیوں اور ہندوستانیوں نے بنائے ہوئے ہیں۔ لاہور اور دِلّی کی کون سی ڈش ہے جو ان مطعموں پر دستیاب نہیں ہے پراٹھا، آلو چھولے ،پائے اور بریانی سے لے کر لسی کے گلاس تک ہر چیز دستیاب ہے۔10 سے20 ریال میں بندہ سیر ہو کر کھانا کھا سکتا ہے اور ذائقہ بھی ایسا کہ کسی بھی فائیواسٹار ہوٹل کو مات دے دے۔
قطر میں رہتے اس بات پر مجھے ہمیشہ ہی حیرت رہی کہ بظاہر تو یہاں شرطے (پولیس) خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں مگر جیسے کہیں قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے وہ بوتل کے جن کی طرح آ دھمکتے ہیں۔ بقول انشاء اللہ خان انشاء…! دیوار پھاندنے میں دیکھو گے کام میرا جب دھم سے آ کہ کہوں گا صاحب سلام میرا یہاں تک کہ شہر کی چھوٹی چھوٹی سڑکوں پہ بھی جیسے کسی نے غلط پارکنگ کی ۔فورا شرطوں کی گاڑی نے انہیں دھر لیا۔12پوائنٹس وائلیشن ہونے پہ لائنس منسوخ ہو جاتا ہے اور یہاں لائسنس بنوانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ آج کل سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر 500 ریال ،غلط کراسنگ پہ 1000ریال ،سگنل توڑنے پہ 6000ریال جرمانہ ہے۔ ٹریفک قوانین میں سختی کی وجہ یہ ہے کہ حادثات کی شرح بہت بڑھ گئی ہے گورنمنٹ اس کو روکنے کیلئے سخت قوانین بنا رہی ہے لیکن حد سے زیادہ سختی نے لوگوں کو خوف میں مبتلاکر دیا ہے۔ اونٹوں کی سالانہ دوڑیں بھی قطر کی ایک اہم ثقافتی پہچان ہے لیکن اونٹوں کی دوڑ کا نام آتے ہی ہمارا ذہن بچوں کے استحصال کی طرف چلا جاتا ہے کیونکہ ماضی میں ان اونٹوں پر6 سے 7 سال تک کے بچے بندھے ہوتے تھے ۔مقصد یہ ہوتا تھا کہ جب بچے ڈر کر روتے تھے تو ان کی چیخ و پکار کی آواز سے اونٹ اور تیز دوڑتے تھے۔ اس مقصد کیلئے غریب ممالک سے بچے اسمگل کئے جاتے تھے۔
اللہ کا شکر ہے کہ اب یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے اور حکومت نے پابندی عائد کر دی ہے۔ اونٹوں کی دوڑ عربوں کا پسندیدہ کھیل ہے اور اس کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت قطر میں کم از کم 20 ہزار دوڑنے والے اونٹ موجود ہیں ۔کیمل ریس کیلئے بہت بڑے بڑے میدان بنے ہوئے ہیں۔ کیمل ریس کا میدان دیکھتے ہی نجانے کیوں ہماری طبیعت خراب ہونے لگتی ہے ۔ہماری آنکھوں کے سامنے معصوم پھول سے بچے اور ان کی چیخیں آجاتی ہیں۔ دوڑتے اونٹوں کے کوہانوں پر بندھے بچوں کو میں اپنی تصور کی آنکھ سے روتے ،چیختے،بلبلاتے سنتی ہوں ۔یہ آوازیں مجھے ماضی میں لے جاتی ہیں جب وحشی اونٹ تیزی سے دوڑتے تھے اور ان اونٹوں پہ بندھے کئی بچوں کی کمر کی ہڈی ٹوٹ جاتی تھی ۔کوئی بچہ اونٹ سے نیچے گر جاتا اور تیز دوڑتے اونٹوں کے قدموں تلے آ کر کچلا جاتا۔ وہ ہونٹ، وہ ناک، وہ آنکھیں، وہ تھوڑی،وہ گردن جس پہ اس کے ماں باپ ،نانا نانی، دادا دادی، بہن بھائی کے بوسے ثبت ہوتے تھے خون میں لت پت نظر آتی ہیں… ہمیشہ ان میدانوں سے گزرتے میرا دل بجھ سا جاتا ہے مجھے لگتا ہے میں کیمل ریس کے میدان سے نہیں کربلا کے میدان سے گزر رہی ہوں…! دنیا کے ہر خطے میں کچھ ظالم لوگ ایسے ہیں جو ہٹلر سے بھی زیادہ سنگدل ہیں اور پورے ملک و قوم کا نام بدنام کرتے ہیں… میں کیا کروں کہ ایک پھول کے مرجھانے سے چمن سارا مجھے ویران نظر آتا ہے…! بڑی طاقتوں کیلئے قطر الہ دین کے چراغ کی طرح ہے ان کو جب ضرورت پڑتی ہے وہ اسے رگڑتے ہیں اور قطر پورے کروفر کے ساتھ کیا حکم ہے میرے آقا…! کی صدا کے ساتھ ہاتھ باندھے کھڑا ہوجاتا ہے۔چراغ رگڑنے والے اس ہاتھ سے قطر کو خطرہ ہے اسے دوست اور دشمن کی پہچان کرنا ہوگی۔ رات کے وقت کار میں بیٹھ کر قطر کا نظارہ کریں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم کوئی خوبصورت البم دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت قطر اپنی بلند و بالا فلک بوس عمارتوں اور شاپنگ سینٹرز کے باعث پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے قطر میں تیرتے ہوئے شہر اور گھومنے والے شاپنگ مالز نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے دوحہ اب خوابوں کا شہر بنتا جا رہا ہے۔
ایک ایسا شہر جس کا ہم سب خواب دیکھتے ہیں کسی خوبصورت شہر کا طلسم ہمارے لیے دیو مالا کہانیوں سے کم نہیں ہوتا۔ چاندنی راتوں میں سمندر کے کنارے پانی میں ہمیں مسکراتا چاند نہیں جھلملاتا شہر نظر آتا ہے اور ہم اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ یہ طلسماتی شہر اب رہائش کے اعتبار سے کافی مہنگا ہو چلا ہے2 کمرے کے فلیٹ کا کرایہ 7 ہزار قطری ریال ماہانہ ہے۔ اس وقت کم آمدنی والوں کیلئے یہاں رہائش ایک درد سر ہے کیونکہ بقول غالب…! ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں،کھائیں گے کیا…؟
 
محترم قارئین:صفحہ زندگی پر آپ کی کہانیوں ،انٹرویوز اور ماضی کی یادوں کا سلسلہ جاری ہے،یقینا آپ کو پسند آرہا ہوگا۔ہمیں آپ کی رائے کا انتظار رہتا ہے۔ساتھ ہی آپ بھی اپنی یادداشتیں ہمیں بھیج سکتے ہیں جبکہ ہم آپ سے ایمو ،واٹس ایپ یا فون پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔ہمارا پتہ ہے۔۔ editoreal3...urdunews.com

شیئر: