Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاکھ چاہوں تو بھی گزرے30سال واپس نہیں لاسکتا

پردیس کہانی اپنوں کا ساتھ ، خوشی غمی ، دوست احباب اور سب سے بڑھ کروطن کی مٹی کی خوشبو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- - - - - - - - -  - - -
سہیل احمد خان تبوک
 - - - - - - - - - - -
میں لاکھ چاہوں بھی تو گزرے ہوئے 30 سال واپس نہیں لا سکتا، روپیہ پیسہ ، دولت شہرت ، نام ناموس، گھر بار، خاندان ،سکھ چین ،بنک بیلنس، نوکر چاکر غرض دنیا کی کوئی نعمت نہیں جو میرے پاس نہ ہو،تمام بچے شادی شدہ ہونے کے بعد اپنے اپنے گھروں میں سیٹل ہوگئے ہیں ،میرے بینک اکاؤنٹس میں خاصی معقول رقم موجود ہے ۔ آج میں اگر آبائی گاؤں جاتا ہوں تو ہر گلی ، ہر ،محلے اور گھر میں مرد و خواتین کھڑے ہوکر استقبال کرتے ہیں ، میرے بچے بچیوں کے لئے خاندان بھر میں رشتوں کی لائن لگی تھی اور آج گھر میں برتن دھونے سے لیکر گاڑی چلانے تک کے لئے ملازم موجود ہے مگر ہمیں اچانک ہی نہیں ہوا ،زندگی میں آسانیاں پانے کے لئے کیا کچھ کھونا پڑا اگر پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو آنسو اور درد کے سوا کچھ نہیں ملتا، ان گزرے ہوئے 30 سالوں کا کوئی ایک بھی دن ، ایک بھی رات مجھے دل سے، اندرسے خوشی نہیں دے پائی، میں لاکھ چاہوں تو بھی گزرے ہوئے 30 سال واپس نہیں لاسکتا۔
یہ سب باتیں بیان کرتے ہوئے دلاور خان کا چہرہ آنسوئوں سے مکمل طور پر تر ہو چکا تھا، گزشتہ روز دفتر سے گھر آتے ہوئے دربند کے ایک دور دراز گاؤں کروڑی کا رہائشی دلاور خان جو گزشتہ 30 سالوں سے سعودی عرب کے شہر ریاض میں شٹرنگ کا کا م کرتا ہے اپنے حالات زندگی بیان کر رہا تھا ، دلاور خان نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بتا یا کہ " یہ ملک جو ہماری دھرتی ماں ہے اسکی قدر وقیمت کا ہمیں رتی بھر بھی احساس نہیں ۔ ہمیں بالکل بھی یہ احساس نہیں کہ آزادی جیسی نعمت جو ہمیں نصیب ہے اس کی کیا اہمیت ہے ۔ ؟ 80کی دہائی میںجب میں عازم سفر ہو اتو ریاض ائیر پورٹ ہمارے کراچی ائیر پورٹ سے بھی چھوٹا تھا ۔رجسٹروں پر ہمارے نا م کا اندراج کیا جاتا تھا۔
ہماری پی آئی اے اور سعودی ائیر لائن میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ ہمارا ملک سعودی عرب کی ترقی و تعمیر کے لئے افرادی قوت مہیا کر رہا تھا۔ہمارے گرین پاسپور ٹ اور ہم پاکستانیوں کو عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ مگر افسوس! سالہا سال وہاں گزارنے کے بعد جہاں ہم اپنے گھروں میں خوشحالی، معاشی استحکام ، سکون اور آسائشیں لے آئے وہیں ہمارے ملک ہماری دھرتی ماں پاکستان نے اپنا نام مقام کھو دیا۔ دلاور خان جیسے لاکھوں پاکستانی آج نہ صرف سعودی عرب بلکہ دنیا کے ہر ملک میںتلاش معاش اور بہتر زندگی کے حصول کے لئے سرگرداں ہیں، وہ اپنے آج کو اپنی آنے والی نسلوں کے کل کیلئے قربان کرتے چلے آرہے ہیں ۔ لاکھوں کی تعداد میں نوجوان اس ملک سے بھاگنے کے لئے ہمہ وقت تیار کھڑے ہیں ۔
اپنے ملک، اپنی دھرتی ماں، اور اپنی جائے پیدائش سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے مگر آج کیوں ہر پاکستانی ملک سے بھاگ رہا ہے۔ ملک کے قابل اور ذہین نوجوان جو اس ملک کا اثاثہ ہیں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ملک چھوڑ کے جا رہے ہیں اور ایک امریکی اخبار کے سروے کے مطابق گزشتہ دہائی میں20 لاکھ سے زائد نوجوان دنیا کے مختلف ممالک میں بہتر مستقبل کے لئے جا چکے ہیں۔ حکومت وقت کی ترجیحات میں اولین چیز نوجوانوں کے لئے پر کشش ،باعزت اور باوقار ذرائع آمدن کے حصول کی پالیسی ہونی چاہیے مگر ہماری حکومت نوجوانوں کو لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا کر کے ایک ایک لاکھ روپے کے قرضے جاری کرنے کی ا سکیمیں رائج کر رہی ہیں۔ نوجوانوں کی عزت ِ نفس مجروح ہو رہی ہے ، جہاں دو وقت روٹی کا حصول ، اپنے خاندان کی کفالت اورپر سکون زندگی ایک خواب بن جائیں وہاں وطن کی محبت کیا خاک پیدا ہوگی ؟ ہمارے حکمرانوں کاکاروبار پوری دنیا میں پھیل رہا ہے ۔
مگر کیا کبھی حکمرانوں نے تنہائی میں سوچا ہو گا کہ ملک و قوم کے بچے ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ اقتدار پانی کے ایک بلبلے کی طرح ہوتا ہے جو بہت خوشنما دکھائی دیتا ہے مگر اس کی عمر انتہائی مختصر ہوتی ہے۔ ایک حقیقت جس کا سامنا کرنے سے ہر حکمران نظر چراتا ہے کہ اقتدار افقط ایک آزمائش ہے۔ اس ملک کے نوجوان اپنا جائز حق مانگ رہے ہیں یہ نہ ہو کہ کہیں بہت دیر ہوجائے ، آج اس ملک کی بہترین افرادی قوت بیرون جاکر ان کے لئے کا م کررہی ہے مگر ہمارے ملک میں نوجوانوں کے لئے کوئی ٹھوس پالیسی وضع نہیں کی جاتی آخر کب تک۔۔۔۔۔ دلاور خان کی گاڑی سے جب میں اترنے لگا تو اس نے مجھے اپنی نم آنکھوں کے ساتھ دیکھا اور کہا کہ ـ ـ’’میں اپنے گزرے ہوئے 30 سال واپس نہیں لا سکتا مگر کیا میرے بچے بھی اگلے 30 سال اپنے وطن سے دور رہیں گے‘‘ میرے پاس اس سوال کاکوئی جواب نہیں تھا۔۔۔۔۔۔

شیئر: