Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’آپ کے پاس غم کا کوئی علاج ہے‘‘

 -- -  - - -- - -- -  - - - - - - - - - - - - -  - - - - - - - - - - - - - - - - - - --  - -
محترم قارئین! ’’پردیس کہانی ‘‘کا سلسلہ جاری ہے ، آپ لوگوں کی جانب سے ای میل اور فون کے ذریعے بھرپور پذیرائی پر شکریہ ادا کرتے ہیں، آپ بھی اپنی یادداشتیں کھنگالیں اور ہمیں بمع تصویر ارسال کریں
- - - - - - - - - - - - - - - - -  - - - - - - - - - - -  - - - - - - - - - - - - -
( نوٹ: آپ بیتی کے نام اور مقام سب فرضی ہیں)
* * * ڈاکٹر شگفتہ نقوی۔ آسٹریلیا* * *
(پہلی قسط)
اس سال جب پاکستان جانا ہوا تو مریضوں سے دوری کو قربت میں بدلنے کا موقع یوں ملا کہ اسپتال کی انتظامیہ نے درخواست کی کہ ہمارے ہاں گائناکالوجسٹ کی جگہ خالی ہے اور مریض بہت پریشان ہورہے ہیں ہماری ڈاکٹر ایک ماہ بعد آجائے گی اتنے عرصے کیلئے آپ گائنی وارڈ کو سنبھال لیں۔ موقع اچھا تھا۔ دل بھی اداس تھا، پھر خدمت خلق کا ایک موقع عطا ہوا تھا اسے کیوں جانے دیتی۔ بس گرمی اور رمضان، لیکن اللہ تعالیٰ سے مد د مانگی اور حامی بھر لی۔ رہنے کیلئے گھر اور کھانا میس سے آجاتا تھا۔ ماضی کی کتنی یادوںکی کھڑکیاں کھل گئیں۔ اللہ کا شکر ادا کرکے چارج سنبھال لیا۔ ایک ہفتے میں راستے، سیڑھیاں، اسٹاف، لوگ ، عملہ کمرے، کچھ کچھ واقفیت ہوگئی جیسے کوئی بچھڑا صدیوں بعد ملا ہو۔ شاید دسواں دن تھا۔
*آؤٹ ڈور میں رش تھا، کیونکہ صبح 8 بجے سے ایک بجے تک آپریشن تھیٹر میں مصروف رہے۔ *اچانک ایک خاتون جسکی عمر 60 سال کے قریب ہوگی، اس نے اپنی پرچی آگے رکھی۔ *میںنے بغیر دیکھے کہا،جی کیا تکلیف ہے، آپ کو۔۔
* اس نے کہا !آپ کے پاس غم کا کوئی علاج ہے۔
*خلاف توقع جواب سن کر میں نے نظر یں اٹھائیں اور اسے غور سے دیکھ کر کہا جی، کیا کہا آپ نے؟ *جدائی کے کرب سے کونسی دوا نجات دلا سکتی ہے
*اس کے چہرے پر بلا کا کرب تھا۔ چہرے پر بے شمار سلوٹیں ، کھچڑی بال، میلے کپڑے ، معمولی سی چپل ہاتھ میں ایک بیگ۔
*میں نے اسکے ظاہر سے باطن میں جھانکنے کی کوشش کی، لیکن سامنے استقامت اور صبر کے پہاڑ کھڑے تھے اور اسکی شخصیت انکے پیچھے چھپی ہوئی تھی۔ *میں نے سوچاکوئی حادثہ، واقعہ، گہری چوٹ، دنیا کی بے رخی ، اپنوں کی بے اعتنائی ، غربت، بس یہاں تک ہی سوچا تھا۔
*وہ بولی!فراز نے کہا تھا،
 میرے چہرے پر سلوٹیں ہیں تو حیرت کیوں ہے
زندگی نے مجھے کچھ آپ سے زیادہ پہنا
** *اب تو حیرت سے میری زبان بند، وہ کس طرح میری سوچ پڑھ رہی تھی۔ یقینا پڑھی لکھی تھی اور میں
ابھی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھی۔
*اگر آپ تھوڑی دیر انتظار کرلیں تو مریض نمٹا کر میرے ساتھ گھر چلیں وہاں بیٹھ کر اطمینان سے باتیں کریں گے۔
*اب زندگی میں اطمینان کہاں، مگر شاید یہ دولت آپ کو نصیب ہو تو آج مجھے بھی خیرات مل جائے گی۔
*میں اپنے جملے پر شرمندہ ہوگئی ۔یاالٰہی، یہ توکوئی پہنچی ہوئی معلوم ہوتیں ہے۔ ایک قول یاد آگیا کہ کسی کو حقیر نہ جانو۔۔۔
*کام ختم کرکے ہم گھر چلے آئے۔ گھر اسپتال کے کمپاؤنڈ میں واقع تھا۔ 5 منٹ کی واک تھی۔تالا کھولا، اے سی چلایا، اجازت چاہی کہ نماز ادا کرلوں تو وہ بولی میں بھی پڑھو نگی۔مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ پرچی پر بھلا کیا نام لکھا تھا، محمودہ بیگم۔ یاد آگیا عزت رہ گئی۔
* میں نے کہا باتھ روم ادھر ہے پہلے آپ وضو کرلیں، آپ میری مہمان ہیں اسلئے آپ کا حق فائق ہے۔ *وہ بولی! آپ کی اردو بہت اچھی ہے، کیا آپ لکھتی بھی ہیں؟
*مجھے اپنا آپ اسکے سامنے بہت کم مایہ لگ رہا تھا۔جی بس کچھ نہ کچھ۔ یہ ادھر رسالے پڑے ہیں۔ لگتا ہے آپ کو مطالعے کا بہت شوق ہے؟ میں نے ہلکی سے ’’جی ‘‘ پر ہی اکتفاکیا
* وہ باتھ روم میں چلی گئی۔نماز سے فارغ ہوئے۔۔
*میں نے پوچھا ! محمودہ آپ مجھے شروع سے اپنی کہانی سنائیں۔ شاید میں کسی زخم پر کوئی مرہم رکھ سکوں
*اس نے کہا:
 ابن مریم ہوا کرے کوئی،میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
 باہر اندر ہے ایک سناٹا،ہم کہیں اور سنا کرے کوئی
اسے کیا معلوم، مری امی جان کا نام مریم ہے ۔ میڈیکل کالج میں یہ شعر اکثر میرے لئے پڑھا جاتا تھا۔
آپ کی اب تک کی گفتگو سے تو آپ کا ذوق نفیس بتا رہا ہے کہ آپ بہت بہادر ہیں۔ چھوٹے موٹے غم تو آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ تھکاوٹ اور پیاس غائب ہوچکی تھی۔میں نے کہا میں ہمہ تن گوش ہوں آپ کہئے۔۔۔اس نے کہنا شروع کیا۔۔۔
*میرا نام محمودہ ہے لیکن میں 4 بھائیوں کے بعد پیدا ہوئی تھی مجھے گھر والے شہزادی کہتے تھے۔
*گاؤں میں پرائمری اسکول تھا۔ جب میں نے پانچویں جماعت پاس کرلی تو ا ابا نے کچھ زمین فروخت کرکے قصبے میں مکان لے لیا تاکہ میں وہاں ہائی ا سکول سے میٹرک کرسکوں۔بھائی مجھ سے بڑے تھے۔ میں سارے گھر بلکہ سارے خاندان کی آنکھوں کا تارا تھی۔
*ابا کی کوئی بہن نہ تھی، اماں کی بھی نہ تھی۔لہٰذا انہوں نے بہن او ربیٹی سب کا پیار مجھ پر نچھاور کیا۔ میں کلاس میں اول آئی۔ استانیاں بھی میرا خیال رکھتیں۔ کھیلوں میں ڈرامے میں سب سے آگے آگے۔
*میرا بچپن پہاڑی ندی کی طرح اچھلتے کودتے پتھروں کو پھلانگتے رکاوٹوں سے ٹکراتے اور پانی کے تیز بہاؤ کی طرح گزر گیا۔ ایسا کہ پھر صرف یا د کی ناؤ باقی رہ گئی ، وہ بھی حادثوں سے ٹوٹی پھوٹی۔
*کیسا خوبصورت زمانہ ، کتنے مخلص اور پیارے لوگ میرے اردگرد تھے۔ اب :
 دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی الفت کے رات دن
 لیکن وہ جاچکے ہیں ، واپس نہ آئیں گے
میں نے ٹوکنا مناسب نہ سمجھا۔
*پھر ایک ایک کرکے بھائیوں کی شادیاں ہوگئیں۔چھوٹی بھابھی نے میرے بھائی سے کہا کہ اپنی زمین الگ کرلو۔ ہم نے اکٹھے نہیں رہنا۔
*یہ خوشیوں کے میلے میں غم کا پہلا پتھر تھا۔ ہم سب حیران رہ گئے کہ وہ ہمارے چچا کی بیٹی تھی۔ابھی تو چچا اور ابا کی زمین بھی سانجھی تھی۔ بیٹا کیسے الگ کرلے گا۔لیکن چچا نے بھی بیٹی کا ساتھ دیا۔خاندان کے بڑے مل کر بیٹھے کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جائے۔ ابا کے انکار کی صورت میں چچا نے کہا کہ میری بیٹی کو طلاق دیدیں۔ ابا اس انتہائی صورت حال کیلئے تیار نہ تھے۔ پہلے زمین کا بٹوارہ ہوا ۔ جس زمین سے نہر گزرتی تھی وہ چچا نے پسند کرلی۔ بھائی کیا الگ ہوا۔زندگی ایک مسلسل آزمائش کی گرد میں آگئی۔ خاندان میں لڑکیاں موجود تھیں لیکن میری امی ابا دونوں ہی اس حادثے سے سہم گئے تھے۔ باقی بھائیوں کی شادیاں غیروں میں کردیں۔ صلہ رحمی کا ایک تقاضہ پورا کرلیا تھا تو یہی کافی تھا۔۔
*زمرد میری ہم جماعت تھی۔ بڑی پیاری اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ اس نے سب کے زخموں پر مرہم رکھا۔ سبھی کا خیال رکھی تھی۔ اپنوں کی مخاصمت اور غیروں کی لفت دونوں دیکھ لیں۔پھرزمرد کے خاندان سے میرے لئے رشتہ آیا۔ گھر والوں نے ہاں کردی۔زمردبھابھی نے بہت کہا کہ لڑکا کراچی میں ہوتا ہے آئے تو مل لینا، مگر میں نے انکار کردیا ۔ جو قسمت میں ہے مل کر رہے گا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں ٹیچر ٹریننگ یا کوئی کورس ضرور کروں لیکن اباجی کہنے لگے۔پتر اب اگلے گھر جانے کی تیاری کر اورخاندان کو جوڑ کر رکھنے ، خدمت کرنے ، صبر کرنے اور راضی بہ رضا رہنے کا کورس سیکھ لے ۔زندگی میں یہ بہت اہم سبق ہے۔۔

شیئر: