Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گائے گڑ کھائے !

گائے کا مسئلہ ہند کی آدھی آبادی کے لئے مذہبی ہے اور بقیہ کے لئے سیاسی، بھینس کے پردے میں گائے کے گوشت کی برآمد روکنے کی کوشش
* * * * وسعت اللہ خان * * *
مسلمانوں اور یہودیوں کو یہ سہولت ہے کہ حرام اور حلال جانوروں کی ایک واضح فہرست ہے۔دونوں مذاہب میں حلال چرندوں اور پرندوں کو سوائے ذبیحہ کے کسی اور طریقے سے مارا نہیں جاسکتا۔خنزیر چونکہ دونوں مذاہب میں حرام ہے لہذا کوئی بھی مسلمان یا یہودی بھلے کسی بھی فرقے سے ہو خنزیر کے گوشت سے پرہیز کرتا ہے ( اس کا استعمال صرف گالی کی حد تک ہے )۔ عیسائیت میں ایسی کوئی خاص ممانعت نہیں۔
چین سمیت جنوب مشرقی ایشیا و مشرق بعید کے اکثر باشندے اور جنوبی امریکہ تا بحرالکاہل آباد بیشتر غیر الہامی عقائد کے پیروکار قبائل قائل ہیں کہ جو بھی شے کھائی جاسکتی ہے کھا لو۔ اس تناظر میں ہندو مت کو دیکھا جائے تو خود کو ہندو کہنے یا سمجھنے والے بہت سے لوگ گائے کے گوشت سے اجتناب برتتے ہیں مگر یہودیوں اور مسلمانوں کے برعکس سب ہندو اس بارے میں متفق نہیں۔ نچلی ذاتوں ، دلتوں اور بہت سے ہندو قبائل میں گوشت کا چلن عام ہے اور گوشت میں بھی بیف اس لئے زیادہ کھایا جاتا ہے کیونکہ مچھلی ، مرغی اور مٹن وغیرہ کے مقابلے میں پروٹین حاصل کرنے کا سستا ذریعہ ہے۔
ہندکا طول و عرض دیکھا جائے تو آسانی سے اندازہ ہوجائے گا کہ بھانت بھانت کی نسلوں ، مذاہب اور مزاجوں کو اپنے اندر سمونے والے کسی ملک میں ایک طبقے کی ’’ لحمیاتی شریعت ’’ کا سب پر نفاذکس قدر مشکل ہے۔مثلاً ہندکی 29 ریاستوں میں سے صرف 10 ریاستوں ( ہماچل پردیش ، پنجاب ، ہریانہ ، اترا کھنڈ ، اتر پردیش ، راجستھان ، گجرات ، مدھیہ پردیش ، مہاراشٹر ، چھتیس گڑھ ) ، ایک خصوصی درجے والی ریاست ( کشمیر ) اور مرکز کے براہ راست زیرانتظام دو علاقوں ( دہلی اور چندی گڑھ ) میں گائے ، بیل اور بچھڑے کے گوشت کی تجارت اور استعمال جرم ہے لیکن گوا کی ریاست میں بی جے پی کی حکومت کو بھینس ، بیل اور بچھڑے کے گوشت کی خرید و فروخت پر کوئی پریشانی نہیں حالانکہ گوا میں 26 فیصد عیسائیوں کے مقابلے میں 66 فیصد آبادی ہندو ہے۔ مرکزی حکومت کے زیرانتظام علاقہ ہونے کے باوجود جنوب مغربی ہندکے جزیرے لکشا دویپ میں گائے کا گوشت فروخت ہوسکتا ہے۔ تاویل یہ دی جاتی ہے کہ لکشا دویپ میں مسلمان آبادی 80 فیصد سے زائد ہے مگر ریاست جموں و کشمیر میں گائے کا ذبیحہ غیرقانونی ہے حالانکہ وہاں مسلمان آبادی 70 فیصد کے لگ بھگ ہے اور بی جے پی مخلوط حکومت میں مفتی سعید کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی جونیئر پارٹنر ہے۔8 ریاستوں میں بیف سرکاری تصدیقی سرٹیفکیٹ کے ساتھ بیچا اور خریدا جاسکتا ہے۔
شمال مشرقی ہند کی کسی بھی عیسائی و قبائلی اکثریتی ریاست ( ارونا چل پردیش ، منی پور ، میگھالے ، میزو رام ، ناگالینڈ ، تریپورہ ، سکم ) اور جنوبی ریاست کیرلہ میں بیف آزادی سے بیچا اور کھایا جاسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سکم میں ہندو آبادی 58 فیصد اور کیرلہ میں 55 فیصد ہے۔ثابت یہ ہوا کہ گائے کا مسئلہ ہند کی آدھی آبادی کے لئے مذہبی ہے اور بقیہ کے لئے سیاسی۔شمالی ہندکی ریاستوں میں چونکہ گائے کا معاملہ تاریخی اعتبار سے حساس رہا ہے لہذا فرقہ وارانہ تنظیموں کو ان علاقوں میں مقبول رہنے کے لئے یہ ایک معقول حربہ دکھائی دیتا ہے۔ شمال مشرقی اور جنوبی ریاستوں میں چونکہ یہ ووٹ گھیرو جذباتی موضوع نہیں لہذا بی جے پی اور وشو ہندو پریشد جیسی تنظیمیں ان ریاستوں میں بیف کے مسئلے پر زیادہ متشدد بھی نہیں۔ ہند اس وقت بیف کا سب سے بڑا عالمی ایکسپورٹر ہے ( برازیل دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر ہے )۔سالانہ 5 ارب ڈالر کا بیف بھینس کا گوشت کہہ کر بیرونِ ملک بھیجا جاتا ہے مگر اس میں گائے اور بیل کا گوشت کتنا ہے کوئی نہیں جانتا۔اسی لئے اب حکومت نے ممبئی پورٹ پر ایک میٹ لیبارٹری قائم کی ہے تاکہ بھینس کے پردے میں گائے کے گوشت کی برآمد روکی جاسکے۔ملک میں پالتو مویشیوں کی جتنی تعداد ہے اس میں بھینسوں کا تناسب 36 فیصد کے لگ بھگ ہے۔
کچھ سرکردہ معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ 29 میں سے20 ریاستوں میں گائے اور بیل کے کاٹنے پر کلی و جزوی پابندی کے سبب بھینسوں کے گوشت کی اندرون و بیرون ملک مانگ بڑھنے سے بھینسوں کا تناسب کم ہوتا جائے گا۔یوں ڈیری مصنوعات کی پیداوار بھی رفتہ رفتہ کم اور مہنگی ہوتی جائے گی جبکہ افزائش نسل کے جدید طریقے عام ہونے کے سبب بیلوں کی واحد اہمیت بھی مسلسل کم ہورہی ہے۔ بیل بے چارہ افزائش نسل میں مددگاری کے سوا نہ دودھ دیتا ہے نہ اس کا گوشت کچھ بڑی ریاستوں میں کھایا جاسکتا ہے اور گائے کی دودھ دینے اور افزائش نسل کی صلاحیت جوں جوں کم ہوتی چلی جاتی ہے تو وہ بھی مفت کا چارا توڑتے توڑتے ماتا ہونے کے باوجود کسان پر بوجھ بن جاتی ہے۔ملک میں موجود گئو شالاؤں میں اتنی گنجائش نہیں کہ وہ کروڑوں گائیوں کی تاحیات دیکھ بھال کرسکیں چنانچہ بے شمار گائیں اور بیل شہروں اور قصبات کی شاہراہوں اور گلی کوچوں میں پھیلے کچرے پر گزارہ کرتی ہیں۔
قوانین جیسے جیسے سخت اور متشدد ہوتے جائیں گے کسانوں اور گھوسیوں کی گائے پالنے سے دلچسپی بھی معاشی افادیت کم ہونے کے سبب گھٹتی چلی جائے گی۔ان اسباب کے نتیجے میں جو اقتصادی بحران دیہی معیشت میں چند برس بعد آ سکتا ہے اس جانب توجہ دینے کی فی الحال نہ تو کسی میں جرأت ہے نہ صلاحیت۔ابھی تو گئو رکھشا ایک موثر سیاسی ترشول کے طور پر استعمال ہو رہا ہے مگر اس ترشول کا رخ بھی گائے اور بیل کا گوشت کھانے والے سب طبقات کی طرف نہیں بلکہ شیڈول کاسٹ اور مسلمانوں کی جانب ہے۔تمام تر جذباتی فضا کے باوجود مرکزی حکومت اتنی سیانی ضرور ہے کہ پورے ہندکی سطح پر کوئی جامع قانون سازی نہیں کی گئی اور بیف کھانے نہ کھانے کا قانونی اختیار ریاستوں کو دیا گیا ہے۔ ملک گیر سطح پر یہاں سے وہاں تک اگر ایک قانون نافذ ہوجائے کہ آج کے بعد نہ بیف کھایا جائے گا نہ ایکسپورٹ ہوگا تو ریاستوں ، مذاہب ، نسلوں اور تاجروں کے بیچ ایسی ٹھنا ٹھنی ہوگی کہ ہند ایکتا شائد اس وقت اس کی متحمل نہ ہوسکے مگر اس پورے شخشخے کے بیچ اصل فریق قطعاً لاتعلق ہے یعنی گائے۔

شیئر: