Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسکواش پرنصف صدی تک پاکستان کا راج

ہاشم خان ، جہانگیر خان اور جان شیر خان سے جڑ ے ناقابل فراموش عالمی ریکارڈ اور ماضی کی حسین یادیںجنہیں ہاکی کے بعد کرکٹ کے میدانوں کی چکا چوندنے چھپا دیا اورہمارے نوجوانوں نے بھلا دیا
ندیم ذکاءآغا۔جدہ
ہاکی بے شک پاکستان کا قومی کھیل ہے جبکہ کرکٹ انتہائی مشہور اور پسندیدہ کھیل مانا جاتا ہے۔ان میں پاکستان نے عالمی نمبر ون رہنے کے اعزازات بھی حاصل کر رکھے ہیں۔ کھیلوں کی دنیا میں ایک اور کھیل کا ستارہ جو پاکستان کے افق پر نصف صدی تک اپنی چمک دکھاتا رہا وہ اسکواش ہے۔اسکواش ا نتہائی خوبصورت کھیل ہے جو مضبوط اعصاب کے باوجود تھکا دیتاہے ۔ اس میں کھلاڑی 68 سنٹی میٹر لمبے اور 255گرام وزنی مضبوط ریکٹ سے گولف اور ٹیبل ٹینس سے بھی چھوٹی تقریباً ڈیڑھ انچ کی سخت ربڑ کی گیند کوپوری قوت سے کورٹ میں سامنے کی دیوار کی جانب اچھالتا ہے تو دوسرے کھلاڑی کو اپنی باری پر گیند کے ساتھ یہی سلوک کرنا ہوتا ہے۔ 9.75میٹر لمبے اور 6.4 میٹر کشادہ کورٹ میں سنگلز مقابلہ ہوتا ہے جبکہ اسی لمبائی مگر 8.4میٹر کشادگی میں ڈبلز کے ساتھ یہ میچ ہوتاہے۔ اس کھیل میں 5سیٹ ہوتے ہیں، 3سیٹ جیتنے والا فاتح قرار پاتا ہے۔ عموماً 11پوائنٹس کا سیٹ اگر 10-10پر برابر ہو جائے توکھیل 2 پوائنٹ مزید بڑھ جاتا ہے۔پاکستان میں یہ کھیل اب خواب لگتا ہے لیکن ایسا سہانا خواب جس کے بعد اس کھیل کے ساتھ جڑی ماضی کی حسین یادیں ہوا کے دوش پر دنیا بھر کی سیر کرا دیتی ہیں۔ نیوزی لینڈ کے راس نارمن، جان شیر خان، ہدایت خان، قمر زمان،مصر کے جمال عود،آسٹریلیا کے کرس ڈٹمار،آسٹریلیا کے جیف ہنٹ، آسٹریلیا کے روڈنی مارٹن،انگلینڈ کے پیٹر نکول نے اس میدان میں اپنے اپنے ملک کا نام روشن رکھا۔ پاکستان نے عرصہ دراز اس کھیل پر راج کیا اور دنیا کے کسی کھلاڑی کو اس کا تاج پہننے کا موقع نہیں دیا۔ 
اسکواش کی دنیامیں پاکستان نے 1950ءسے لے کر 1997ءتقریباً 5دہائیوں تک بلاشرکت غیرے حکمرانی کی ہے۔ 1980ءسے 1990ءکے عشرے میں تو پاکستان عالمی اسکواش کی شہرت کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔ جہاں پہلے تو جہانگیر خان اور اس کے بعد جان شیر خان نے سبز ہلالی پرچم کو افق کی بلندیوں پر لہرائے رکھا۔ ورلڈ اوپن 14مرتبہ اور برٹش اوپن 30مرتبہ جیت کا سہرا سجائے رکھنے والا پاکستان دیگر بہت سے اعزازات اپنے سینے پر سجائے ہوئے ہے۔اسکواش لیجنڈہاشم خان کو پاکستانی اسکواش کا بانی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ان کی اسکواش سے وابستگی اور جذباتی لگاﺅ کے سبب انہیں اسکواش کا حقیقی کھلاڑی مانا جاتا ہے۔ان کا نام اسکواش کی دنیا میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ قیام پاکستان سے قبل وہ برٹش آرمی کے اسکواش کوچ رہے اور قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پاکستان ائیرفورس کیلئے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ ہاشم خان کے اسکواش کورٹ میں اس کھیل سے عشق اور جنون کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیںبرٹش اوپن میں 1951میں اپنی بہترین صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا ، یہی صلاحیتیں ان کی شہرت کا باعث بنیں۔ ہاشم خان نے 4مرتبہ کامیابی حاصل کرنے والے مصرکے محمود کریم کو اسٹریٹ سیٹ میں ہرایااور 1958ءتک 7بار برٹش اوپن کا گولڈ میڈل اپنے گلے سے نہیں اترنے دیا۔
جہانگیر خان کے والد روشن خان نے 1957ءمیں برٹش اوپن کا ٹائٹل جیتا۔ جہانگیر خان کی کوچنگ ان کے والدہی کرتے رہے۔ 10دسمبر 1963ءکو کراچی میں پیدا ہونے والے جہانگیر خان بچپن میں جسمانی لحاظ سے کافی کمزور تھے اور ڈاکٹرو ں نے انہیں کسی بھی جسمانی کھیل پر توجہ مرکوز کرنے سے منع کر رکھا تھا۔ اسی اثناءمیں جہانگیر خان کو ہرنیا کا آپریشن بھی کرانا پڑا۔ خاندانی کھیل اسکواش سے ان کے لگاﺅکو دیکھتے ہوئے روشن خان انہیں اس کھیل کی جانب آنے سے نہ روک سکے۔1979ءمیں سلیکٹرز نے آسٹریلیا میں ورلڈ چیمپیئن شپ کیلئے جہانگیر خان کو جسمانی کمزوری کے باعث سلیکٹ نہیں کیا۔جہانگیر خان کے بڑے بھائی طورخم خان کا 1970ء میں انٹرنیشنل اسکواش کے صف اول کے کھلاڑیوں میں شمار تھا جب آسٹریلیا میں ٹورنامنٹ کے ایک میچ کے دوران دل کا دورہ پڑنے کے سبب طورخم خان کے اچانک انتقال کے بعد جہانگیر نے اسکا گہرا اثر لیا اور اسکواش چھوڑنے پر غور کیا لیکن بڑے بھائی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے کھیل کو جاری رکھنے کا عزم کیا۔ جہانگیر خان نے نومبر1979ءمیں ورلڈ ایمیجور چیمپیئن شپ میں شمولیت کی اور 15سال کی کم ترین عمر میں چیمپیئن کا اعزاز حاصل کر لیا جب انہوں نے آسٹریلین حریف جیف ہنٹ کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔اس کے بعد جہانگیرخان نے عرصہ دراز تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے 555فتوحات سمیٹیں۔ 1981میں کم عمر ترین ورلڈ اوپن چیمپیئن کا اعزاز حاصل کیا۔ 1985ءتک لگاتار 5بار ورلڈ اوپن کے تاج کو اپنے سر پر سجائے رکھا۔ چھٹی بار 1988ءمیں یہ اعزاز جیتا۔ لگاتار کامیابیوں پر جہانگیر خان کا کہنا تھا کہ میرا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ یہ اعزاز برقرار رکھوں لیکن میں مسلسل محنت کرتا رہا اور ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے رہے۔ جب تک راس نارمن نے مجھے نہیں ہرایا۔ فرانس میں 1986ءکے ورلڈ اوپن میں نیوزی لینڈ کے حریف راس نارمن نے فائنل جیتنے کے بعد کہا کہ سوچتا تھا کہ ایک دن جہانگیر سے یہ اعزاز گرے گا اور میں اٹھا لوں گا۔
جان شیر خان 15جون 1969ءکو پشاور میں پیدا ہوئے۔اپنے کیریئر میں انہوں نے 1987ءسے 1996ءتک 8 مرتبہ ورلڈ اوپن اور 1992سے 1997ءتک 6بار برٹش اوپن کا فائنل مقابلہ جیتا۔ جان شیر نے 99بار مختلف اعزاز جیتے اور 10سال تک عالمی نمبر ون کا رینک اپنے پاس رکھا۔ انہوں نے عالمی نمبر ون جہانگیر خان کو ورلڈ اوپن میں ہرا کر اسی ٹورنامنٹ میں اپنی گزشتہ ہا ر کا بدلہ بھی لیا۔جان شیر اپنے عروج کے دور میں مختلف تنازعات میں الجھے رہے لیکن اسکواش میں اقتدار کا ہما اپنے سر پر ہی سجائے رکھا۔ انہوں نے 2002ءمیں اسکواش سے ریٹائرمنٹ لے لی۔جس کے بعد پاکستان میں اسکواش کے کھیل پر 50سالہ سنہری دور کا سورج ڈوبنے لگا اور اس کھیل کا باب ہی بند ہوگیا۔ جان شیر نے اپنے بیٹے کامران خان کو اسکواش کی تربیت دی اور انہیں پیشہ ورانہ کھلاڑی بننے کی جانب رغبت دلائی لیکن جان شیر کی ملائیشین بیوی طلاق کے بعد کامران خان کو اپنے ساتھ ملائیشیا لے گئیں۔ اب کامران خان ملائیشین شہری ہیں۔ وہ عالمی اسکواش میں نام پیدا نہیں کرسکے۔ 2011 ءمیں جان شیر کو رعشہ کی بیماری لاحق ہوگئی جس کے بعدوہ اس کھیل یا اس کی خبروں میں بھی کم کم ہی رہے۔
جان شیر کے بعد انگلینڈ کے پیٹر نکول 2006ءتک اس کھیل پر چھائے رہے۔ بعد ازاں مصر کے عمرو شبانہ نے 2003ءسے 2009ءتک لگاتار 4بار ورلڈ اوپن کا اعزاز حاصل کیااور 2009ءاور 2011ءمیں یوایس اوپن میں بھی کامیابی سمیٹی ۔رامی عاشور نے 3بار ورلڈ اوپن اور ایک بار برٹش اوپن جیت کر 2014ءتک اسکواش میں اپنا نام زندہ رکھا جبکہ ان دنوں بھی مصر کے ہی کریم عبدالجواد نے ہموطن رامی عاشور کو ہرا کرورلڈ اوپن کا اعزاز حاصل کر رکھا ہے۔جان شیر کے بعد کوئی پاکستانی کھلاڑی اس کھیل میں اپنی پہچان نہیںبنا سکا۔ ایسالگتا ہے کہ کسی نے ہماری یہ شناخت بھی زبردستی چھین لی ہے۔ ہاشم خان ا سکواش کمپلیکس پشاور،مصحف علی میر اسکواش کلب اسلام آباد،پنجاب اسکواش کمپلیکس لاہور،جہانگیر خان اسکواش کمپلیکس کراچی میں موجود ہیں اور وہاں اس کھیل سے پیار کرنے والے اپنی حد تک کوشش بھی جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن آنے والے دنوں بھی یہ اسکواش کورٹس اداروں سے بڑھ کر قومی سطح کے کسی کھلاڑی کی آمد کا بگل نہیں بجا رہے جس میں ورلڈ کلاس کھلاڑی جیسی خوبیاں نظر آ رہی ہوں۔

******

شیئر: