Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جے آئی ٹی ارکان پر حکومتی تحفظات

عدالت عظمیٰ کو اپنی ذمے داریوں کا بخوبی احساس ہے، ٹربیونل منصفانہ طور پر اپنے فرض منصبی سے عہدہ برآہوتا نظر آتا ہے
****صلاح الدین حیدر***
انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ Trouble don't come alone, they come in store۔ لگتا ہے کہ نواز شریف اب اس کے چنگل میں پوری طرح پھنس چکے ہیں۔جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اپنی پہلی15 روزہ رپورٹ عدالتِ عظمیٰ کو پیش کردی ہے، اسے سراہا گیا۔ تینوں ججوں نے جے آئی ٹی کے کام کی تعریف کی اور یہ بھی صاف طور پر کہہ دیا کہ تفتیش مقرر کیے گئے 60 روز کے اندر مکمل ہونا ہے۔ اس میں توسیع نہیں ہوگی۔ عدالت عظمیٰ کو اپنی ذمے داریوں کا بخوبی احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 3 ججوں کا بنایا ہوا ٹریبونل بہت ہوشیاری اور منصفانہ طور پر اپنے اس فرض منصبی سے عہدہ برآ ہوتا نظر آتا ہے۔ رپورٹ میں کیا ہے، اب تک کیا کچھ کیا گیا یہ تو بتایا نہیں گیابلکہ تحریک انصاف اور عمران خان کی طرف سے اس رپورٹ کے حصّے دِکھانے کی عرض داشت بھی ردّ کردی گئی۔ ٹھیک فیصلہ تھا۔ اگر روز روز قسطوں میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کو عام کیا جاتا رہا تو انتشار کی صورت پیدا ہوسکتی ہے جو کسی کے مفاد میں نہیں، لیکن صاف ظاہر ہے کہ تحقیقات کی پہلی قسط میں کچھ نہ کچھ تو نواز شریف اور اُن کے خاندان کے بارے میں ضرور سامنے آیا ہے۔ اس کا اندازہ اسی بات سے لگالیجیے کہ نواز شریف کی انڈر 19 کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی طلال چوہدری نے فوراً ہی ایک لیکچر دے ڈالا کہ ہمیں یعنی برسراقتدار (ن) لیگ کو جے آئی ٹی کے ارکان پر تحفظات ہیں۔طلال چوہدری نے تو صرف یہیں تک کہا کہ ہم نے اپنے تحفظات سپریم کورٹ کو پیش کردیے ہیں، لیکن نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز نے معاملہ اور بھی آسان کردیا۔ انہوں نے 5 میں سے 2، یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے ارکان کی تبدیلی کا علی الاعلان مطالبہ کردیا۔ اسٹیٹ بینک بیرونی ذرائع آمدن پر کڑی نظر رکھتا ہے اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن (SECP) پاکستانیوں کی بنائی ہوئی کمپنیوں (اندرون ملک ہوں یا بیرون ملک) کے حالات پر نظر ہی نہیں رکھتا بلکہ اُن کے حسابات تک مانگ سکتا ہے۔ حسن نواز کا یہ کہناکہ اسٹیٹ بینک کا کوئی دوسرا نمائندہ نامزد کیا جائے، گھبراہٹ کی علامت ہے۔
طلال چوہدری کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔حسن اور طلال کی باتوں کا ایک اور زاویے سے جائزہ لیتے ہیں۔موجودہ اسٹیٹ بینک گورنر نے تھوڑی آزادی دِکھانا شروع کی ہے، اُن پر حواریوں میں شامل ہونے کا الزام لگ چکا ہے، اُن کے ڈپٹی گورنر سعید احمد کو عہدے سے ہٹا کر نیشنل بینک کا صدر بنادیا گیاہے۔ نیشنل بینک آف پاکستان Treasury بینک ہے۔ ملکی دولت اور بیرونی تجارت کا لین دین اس کے ذریعے ہوتا ہے۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تو کھلم کھلا مطالبہ کردیا کہ سعید احمد کو فوری طور پر عہدے سے ہٹایا جائے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ سعید احمد نے ہی نواز شریف کی دولت پاکستان سے بیرون ملک بھیجنے میں مدد کی تھی اور اس طرح وہ قومی مجرم ہیں۔
اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی نے اپنے نمائندوں کی فہرست پہلے سپریم کورٹ کو پیش کی تھی، اُسے یکسر معزز ججوں نے مسترد کرتے ہوئے ایک لمبی چوڑی افسران کی فہرست مانگ لی تھی۔اُن کے کوائف کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد سپریم کورٹ ٹریبونل نے اپنے نمائندہ اُس فہرست میں سے چُنے اور اُنہیں اختیار دیا کہ جس سے چاہیں تفتیش کریں۔ ایک بار پھر 22 مئی کو جب پہلی رپورٹ پیش کی گئی تو ججوں نے بلاجھجک حکم دیا کہ جے آئی ٹی آزاد ہے اپنے کام میں، کسی قسم کا دبائو قبول نہ کرے اور اگر کوئی حکومتی ادارہ یا شعبہ تعاون نہیں کرتا تو اُنہیں بتلائے، وہ حکم جاری کریں گے کہ جے آئی ٹی سے پوری طرح تعاون کیا جائے، ایسا نہ کرنے والوں کو ظاہر ہے سزا تک ہوسکتی ہے۔ اسٹیٹ بینک اور SECP کے نئے نمائندے، لگتا تو ایسے ہی ہے نواز شریف کے اہل خانہ اپنی مرضی سے لگوانا چاہتے ہیں لیکن جج صاحبان کسی اور موڈ میں نظر آتے ہیں، اُن کی اپنی شہرت پر حرف نہیں آنا چاہیے ورنہ عوام النّاس کا اعتبار ملک کے نظامِ انصاف سے اُٹھ جائے گا لیکن حسن نواز کے بیان سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ شریف خاندان کچھ تکلیف میں ہے۔ اُنہیں اب خدشہ ہوچلا ہے کہ کہیں اقتدار کی نیّا ہچکولے نہ کھانے لگے۔2 مہینے اور ہیں، دیکھئے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔ دُنیا تو بازیچۂ اطفال ہے، لیکن آج کی آپ کی اور ہماری دُنیا تو بدمعاشوں، بدمست ہاتھیوں کا جنگل ہے جہاں لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔
انصاف مہنگا ہی نہیں، ملک چین سے بھی دُور، بلکہ ایک ڈرائونا خواب بن کر رہ گیا ہے۔ یہ تو تھا حال پانامہ لیکس کا، لیکن نواز شریف پر چاروں طرف سے الزامات کی بوچھاڑ ہے۔ اُن کے بارے میں یہ عام طور پر کہا جارہا ہے کہ جس سربراہ کانفرنس میں وہ گئے تھے، وہاں کشمیر کا ذکر کیوں نہیں ہوا ۔ ہم اس تفصیل میں مزید جانا نہیں چاہتے، صرف یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ نواز شریف پر بُرا وقت (لگتا ہے) آن پہنچا ہے۔ اُن کی خارجہ پالیسی مستقلاً تنقید کی زد میں ہے۔ایک اور بات جس کی طرف میں قارئین کی توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ ہے وزیر داخلہ کی حالیہ پریس کانفرنس جس میں اُنہوں نے سوشل میڈیا پر تنقید کی اور صاف طور پر کہہ دیا کہ فوج یا عدلیہ کے خلاف کچھ بھی لکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہی صحیح ہے کہ ملکی آئین نے فوج اور عدلیہ پر تنقید سے منع کیا ہے۔ غالب نے کہا تھا کہ:
  لکھتے رہے جنوں کی حکایت خونچکاں
 ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
 تو دیکھئے آگے آگے ہوتا کیا ہے۔ نواز شریف بچتے ہیں یا نکل جاتے ہیں، معاملات بہت غور طلب ہیں۔

شیئر: