Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپنے ، پرائے ہوگئے، اس نے وطن نہ لوٹنے کا فیصلہ کرلیا

فہیم اب ہمیشہ کیلئے دبئی کا ہو چکا ہے ۔ وہ اکثر وبیشتر جب اپنی ڈائری کھولتا ہے تو یہی لکھتا ہے کہ ’’بڑا بھائی اور بڑا بیٹا ہونا شاید سنگین جرم ہے؟
 
مصطفی حبیب صدیقی
’’ارے فہیم کہاں جاکے بیٹھا ہے ،سن رہا ہے میری بات،آواز آرہی ہے تیرے کو کہ نہیں؟‘‘شریفہ بی بی حسب روایت اپنے بڑے بیٹے فہیم کا نام لے کر بڑبڑائے جارہی تھیں۔فہیم کے والد ریاض ، سرکاری ملازم تھے۔انہوں نے ایماندار ی سے پوری زندگی گزاردی تھی۔3بیٹیاں جوان ہورہی تھیں۔فہیم سے بڑی بہن بھی ماسٹرز کرکے محلے کے اسکول میں استانی لگ چکی تھی۔شاہد سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے کافی لاڈلا تھا۔لے دے کر سب ذمہ داری فہیم پر ہی آتی تھی۔ ’’جی امی !کیا ہوا ،ابھی تو دفتر سے آکے کمرے میں گیاتھا،آپ تو جانتی ہی ہیں صبح یونیورسٹی اور شام میں نوکری کے بعد تو کسی سے بات کرنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔کچھ دیر تنہائی میں بیٹھنا چاہتا تھا، وہ بھی نہیں بیٹھنے دیا ،ہاں بولیں کیا ہوا؟‘‘فہیم کمرے سے نکلتے ہوئے کچھ ناراضی کے ساتھ بولا۔ ’’بھئی میں کب سے کہے جارہی ہوں کہ وہ محلے کے نور چاچا ہیں نا ں،ان کے پاس جاؤ،وہ کتنے ہی چھوکروں کو پاکستان سے باہر کام کیلئے بھیج چکے ہیں ،تو بھی بات کر جاکر ،دیکھ گھر کی کیا حالت ہوگئی ہے ۔بہنیں سر پر بیٹھی ہیں، تجھے ذرا خیال نہیں۔‘‘
شریفہ بی بی اپنی پرانی رٹ لگائے ہوئے تھیں جبکہ فہیم باہر نہیں جانا چاہتا تھا۔ وہ اپنے ملک میں رہ کرہی کچھ کرنا چاہتا تھا مگر گھر کی ذمہ داریاں اور بڑے ہونے کا بوجھ اسے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دے رہا تھا۔آخر فہیم نورچاچا کے پاس چلا ہی گیا۔ ’’السلام علیکم چاچا‘‘،فہیم نے گلی کے نکڑ پر چبوترے پر بیٹھ کر حقہ پیتے نور چاچا کو دور سے ہی سلام کیا اور قریب آکر بیٹھ گیا۔ ’’ہاں پتر!بیٹھ بیٹھ ،کیسا ہے تو؟خیریت ہے آج تجھے محلے میں بیٹھنے کا وقت کیسے مل گیا ،تیرے پاس تو وقت ہی نہیں ہوتا،سارا دن مصروف رہتا ہے۔‘‘نور چاچا نے فہیم کو قریب بٹھاتے ہوئے پیار بھرے انداز میں چند الفاظ بولے۔
’’بس چاچا اپنا کام پڑے تو وقت نکل ہی آتا ہے ،بس یوں سمجھو کہ آج فہیم کو اپنے چاچا سے کام پڑگیا ۔‘‘ ’’ہا ں ہاں بول بیٹا کیا کام ہے‘‘چاچا نے چمکارتے ہوئے کہا۔ فہیم اب اپنے آنے کا مقصد بتانے لگا’’بس چاچا ،یہاں ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں،بہنیں جوان ہوگئیں،ان کی شادیاں بھی کرنی ہیں اور شاہد ابھی پڑھ رہا ہے، اس کا بھی خرچہ ہے جبکہ تم تو جانتے ہو،ابو کی تنخواہ ہی کیا ہے۔بس اسی لئے آیا ہوں، مجھے بھی باہر بھجوادو۔‘‘ ’’باہر اور تو؟نہیں بیٹا تو تو پڑھا لکھا ہے ،تیرے پاس تو یہاں بھی اچھا کا م کاج ہے ،وہاں تو مزدور اور ان پڑھ لوگ بھجواتا ہوں، وہاں تو سخت محنت ہوتی ہے بیٹا‘‘نور چاچا نے فہیم کو سمجھایامگر فہیم کا اصرار جاری رہااور پھر ایک دن فہیم کا ویزا آگیا۔گھر میں تو جیسے جشن کا سماں تھا،بہنیں نہال تھیں،ماں واری تھی،باپ کو بھی اپنے کندھے کچھ اٹھتے محسوس ہورہے تھے جبکہ بھائی کو بھی اپنا مستقبل روشن نظر آنے لگا تھا مگر فہیم کا دل افسردہ تھا۔وہ محلہ ،گلی ،چبوترا،محلے کی مسجد کے نمازی،بچپن کے دوست احباب سب کو چھوڑتے ہوئے نہایت کٹھن مرحلے سے گزررہا تھا۔باہر بچپن کے دوست بھی جمع تھے جن کی آنکھیں ابھی سے نم تھیں مگر فہیم کو اپنے گھر کی ذمہ داروں نے بڑا فیصلہ کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ وقت گزرتا گیا،فہیم کودبئی گئے ہوئے ایک سال ہوگیا،گھر میں ہر آسائش موجود تھی،بڑی بہن فرزانہ کا رشتہ بہت اچھی جگہ سے آیااور وہ بیا ہی گئی مگر بھائی، اپنی بہن کی شادی میں شریک نہ ہوسکا کیونکہ اسے بہن کا جہیز تیار کرنا تھا۔2سال بعد فہیم چھٹی پر وطن لوٹا تو گھر کی بدلی حالت دیکھ کر خوش ہوتا رہا مگر بہن کی خوشی میںشریک نہ ہونے کا غم اپنی جگہ تھا۔
وہ اپنی ماں کیلئے سونے کی بالیاں،باپ کیلئے گھڑی، بہنوں کیلئے سونے کی چوڑیاں اور بھائی کیلئے پلے اسٹیشن لایا تھا۔سب ہی بہت خوش تھے مگر کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ تم وہاں2سال کیسے رہے ؟ ’’فہیم کیسے ہو،میں خاص طور پر تم سے ملنے آئی ہوں،یہ تمہارا بھانجاشہریر ہے۔ جاؤ بیٹا! ماموں کی گود میں جائو‘‘فرزانہ نے گھر میں گھستے اوربھائی کو دیکھتے ہوئے کہا۔فہیم نے بھی آگے بڑھ کر بہن کا استقبال کیا ،سرپر ہاتھ پھیرا اور بھانجے کو گود میں اٹھالیا۔ ’’وہ تمہارے شوہر نہیں آئے کہاں ہیں ‘‘فہیم کے پوچھنے پر فرزانہ نے بتایا کہ وہ ڈرائنگ روم میںہیں ۔ ’’فہیم نے اپنا بیگ کھولا اور بہن کیلئے سونے کا سیٹ ،بہنوئی کیلئے طلائی گھڑی اور بھانجے کیلئے کھلونے بہن کے حوالے کئے‘‘۔ فہیم کو واپس لوٹے پھر2سال بیت گئے،یہاں سلطانہ کا رشتہ آیا ،والدین نے بات پکی کردی۔شادی کی تاریخ طے ہوگئی۔ ’’امی! میں شادی میں آئوںگا ،ٹکٹ بُک کرارہا ہوں‘‘فہیم نے فون پر اطلاع دی ،ماں نے بھی خوشی کا اظہار کیا، ساتھ ہی لمبی فہرست بھی گنوادی کہ یہ چیزیں بہن کو باہر سے لاکر دینی ہیں۔ ’’مگر امی میں تو ہر چیز بھیج چکا ہوں،اب تو صرف ٹکٹ کے پیسے بچے ہیںتاکہ میں شادی میں شریک ہوجائوں‘‘فہیم نے بے بسی سے جواب دیا۔ ’’بیٹا تیری شرکت اتنی ضروری نہیں جتنا بہن کا جہیز ضروری ہے۔تو جانتا ہے کہ آج کل دنیا والے کتنے لالچی ہیں،جتنا بھی دے دو کم ہی لگتا ہے،تو ایسا کرکہ سلطانہ کی شادی میں رہنے دے، رخسانہ کی شادی میں آجانا ،ابھی تویہاں پیسے چاہئیں‘‘۔ماں نے فہیم کے سارے ارمان چکنا چورکر دیئے ،نجانے وہ حالات سے خوفزدہ تھیں یا انہیں بھی زمانے کی ہوا لگ چکی تھی۔
فہیم نے افسردگی کساتھ موبائل سے فون کی لائن کاٹی اور کمرے کے ایک کونے میں تکئے پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔کمرے کی چھت پر گردش کرتے پنکھے کو تکتے فہیم کی سوچوں کا محور نجانے کیا تھا کیونکہ وہ اب اپنی زندگی کھوتا جارہا تھا۔ فہیم کو دبئی گئے ہوئے 5سال ہوگئے تھے۔رخسانہ کی شادی کا وقت بھی آگیااور وہ پیا دیس سدھار گئی۔فہیم کو بے دلی کے ساتھ بلایاگیا مگر اس نے سب سے اہم چیز ’’پیسے ‘‘بھیج دیئے اور شادی میں شریک نہیں ہوا۔کسی نے فون کرکے اصرار بھی نہیں کیا ۔شاید سب کی یہی خواہش تھی۔ شاہد یونیورسٹی میںپہنچ چکاتھا،بھائی کے پیسوں سے بائیک پر نئے نئے چشمے لگاکر یونیورسٹی میں خوب دوستیاں کرتا اور شیخیاں بگھارتا،وقت دھول کی مانند اڑتا چلاگیااور فہیم 40سال کا ہوگیا۔ایک دن اُس نے فون پر اپنی ماں سے کہا کہ : ’’امی! میں واپس آنا چاہتا ہوں،مجھے شادی کرنی ہے ۔آپ میرے لئے کوئی لڑکی دیکھیں‘‘فہیم نے اپنی ماں سے واپسی کاعزم ظاہر کیا ۔ ’’ہاں ہاں بیٹا !تو آجا ،میں تیرے لئے لڑکی دیکھتی ہوں،‘‘ماں نے بھی خوشی سے آنے کی تلقین کی مگر اگلے ہی لمحے ریاض صاحب نے ماں بیٹے کی گفتگو سنی تو جھپٹ کر فون تھام لیااور گویا ہوئے کہ ’’بیٹا فہیم!کچھ عرصے اور رک جا،ہم تیرے لئے یہاں لڑکی دیکھ کر رکھتے ہیں۔بس شاہد ذراانگلینڈچلاجائے ،وہ آگے پڑھنا چاہتا ہے۔اب تو تو جانتا ہے اس کا ذہن تیری طرح تو ہے نہیں کہ وہ نوکری بھی کرے اور پڑھ بھی لے۔انگلینڈ سے وہ اپنی ڈگری مکمل کر کے جیسے ہی آئے گا، تو واپس آجانا، پھر شاید نوکری کرے گا۔اب تو میں بھی ریٹائر ہوگیا ہوں۔
ساری ذمہ داری تیرے کاندھوں پر ہے۔‘‘ آج ماں نے فہیم کو واپس آنے کی اجازت دی تو باپ نے اسے ذمہ داریاں گنواکر ایک بار پھر وطن واپسی سے روک دیا۔ شاہد انگلینڈ جاکر پڑھنے لگا مگر واپس نہیں آیا ،وہ وہیں کا ہوگیا۔اسے وہیں ملازمت مل گئی۔اس نے ایک مقامی لڑکی سے شادی بھی کرلی۔ انجام کارفہیم واپس نہیں آسکا۔5سال مزید بیت گئے۔اب بوڑھے ماں باپ گھر میں اکیلے رہ گئے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ فہیم واپس آجائے مگر اب فہیم کچھ اور ہی فیصلہ کرچکاتھا۔اس کے سرمیں بھی چاندی چمکنے لگی تھی۔یہ چاندی صرف لڑکیوںکا مقدرنہیں ہوتی بلکہ کبھی کبھار لڑکوںکی مانگ میں بھی چمکنے لگتی ہے۔ فہیم کی شادی کا وقت تو گزر ہی چکا تھا چنانچہ اس نے کبھی پاکستان نہ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ماں باپ اسے بلاتے رہے مگر وہ نہ گیا۔ اب وہ صرف پیسے بھیجتا ہے،بہنوںکے بچوں کیلئے کھلونے بھیجتا ہے،چاکلیٹس بھیجتا ہے،بہن ،بہنوئی کو ہر عید، بقرعید پر عیدی بھی روانہ کرتا ہے،ماں باپ کیلئے بھی چیزیں بھیجتا ہے مگر خودوطن نہیں آتا۔سوچتا ہے کہ واپس جا کر کیا کرے گا۔ اب وہاں اپنا کون ہے ،جو اپنے تھے وہ بھی پرائے ہوگئے۔ حد یہ کہ ماںباپ بھی بدل گئے یا شاید ان کی ذمہ داریوںنے انہیں خودغرض بنادیا۔ بہرحال فہیم اب ہمیشہ کیلئے دبئی کا ہو چکا ہے ۔ وہ اکثر وبیشتر جب اپنی ڈائری کھولتا ہے تو یہی لکھتا ہے کہ ’’بڑا بھائی اور بڑا بیٹا ہونا شاید سنگین جرم ہے؟

محترم قارئین ! اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کی کہانیوں کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے۔اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔،آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ،ہم دنیا کو بتائیں گے،ہم بتائیں گے کہ آپ نے کتنی قربانی دی ہے ۔اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کا نام شائع نہ ہو تو ہم نام تبدیل کردینگے،مگر آپ کی کہانی سچی ہونے چا ہیے۔ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔۔

اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے جس کے لئے ایم ایس ورڈ اور ان پیج سوفٹ ویئر پر کام کیاجاسکتا ہے کمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔۔

ہم سے فون نمبر 0966122836200 ext: 3428پر بھی رابطہ کیاجاسکتا ہے۔

آپ کی کہانی اردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔۔ ای میل:[email protected]

شیئر: