Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بڑھاپا زاروزار رویا ۔ نوجوانی کھکھلا کر ہنسی

* * * * * *بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کیلئے جانے والے نوجوانوں کیلئے عبرت آموز تحریر* * * * * * *
( نوٹ: آپ بیتی کے نام اور مقام سب فرضی ہیں)
* * * * ڈاکٹر شگفتہ نقوی۔ آسٹریلیا* *
(تیسری قسط)
زمین او رمکان کے بعد میں بے گھر اور بے درہوگئی۔ بھابھی زمرد کے برآمدے میں چارپائی ڈال لی تھی۔ اسکے پاس 2 کمرے تھے۔ ایک میں میاں بیوی ، دوسرے میں 4 بچے۔ میری چارپائی کی جگہ نہیں تھی۔نوکری کی ہمت نہ رہی۔ اسکول میں بچوں کو ٹافیاں اور کاپیاں پنسل فروخت کرنے لگی اور شام کو گھر پر جاکر قران پاک پڑھنے اور ٹیوشن کرنے لگے۔ رب قدیر کا شکر ہے کہ علم کی دولت پاس تھی، کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑاجو بچیاں خرید نہیں سکتیں، ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے ہیں ا ن کووہ چیز مفت میں دے دیتی ہوں۔ اب زندگی میں اس خوشی کے علاوہ کچھ نہیں بچا۔ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے ہمیشہ اونچا، اعلیٰ خوش نصیب، بابر کت ہوتا ہے۔ یوں جائداد بھی گئی اور اولاد بھی گئی۔
لوگ، رشتہ دار ،خاندا ن والے طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں کہ میں نے نادانی کی۔کہاں باسم جیسا بچہ جس کے سر پر باپ نہیں اور کہاں آسٹریلیا جاکر تعلیم حاصل کرنے کا خواب وہ تو بچہ تھا، میں نے جائداد کیوں فروخت کی۔ مزے کی بات ہے کہ تسلی کے دو بول اور ایک وقت کا کھانا یا لباس تو ندارد ہے لیکن لعن طعن ، تنقید، تبصرہ اور طنز کے تیروں سے سب کی زنبیل بھری ہوئی ہے۔ جیسے راہ چلتے لوگ جاتے جاتے بیری کو دو پتھر مار دیں۔صحن کی بیری کو بھی لوگ نہیں چھوڑتے۔ بھلا جس کے گرد چار دیواری نہ ہو، اس کو کیسے بھول سکتے ہیں۔مجھے یہ بتائیں ، یہ دنیا ایسی کیوں ہے۔آزمائش تو آنی ہے۔اسکو صبر کے ساتھ سہنا ہوتا ہے لیکن لوگ اس آگ پر ہر وقت تیل چھڑکنے کو تیار ہوتے ہیں۔
فالتو وقت ، زعم، دانائی کا غرور، حسد اور تکبر انہوں نے انسانیت کو جہنم رسید کردیا ہے۔ رات کے2 بج رہے تھے۔تھوڑی دیر بعد سحری کے لئے اٹھ جانا تھا۔ پہلے سوچا سو جائیں لیکن یہ دھڑکا کہ آنکھ نہ کھلے تو؟ چنانچہ سحری کھائی۔ فجر پڑھی اور سو گئے۔ 9 بجے آنکھ کھلی۔میں نے کہا محمودہ مجھے بتاؤ ، میں تمہارے لئے کیا کرسکتی ہوں؟ کہنے لگی میں گھر جارہی ہوں، شام کو افطاری سے پہلے آؤنگی۔ میں سارا دن مریضوں میں مصروف رہی لیکن سوچوں پر محمودہ کی آنکھیں ،اسکے چہرے پر پھیلے ہوئے غم کی دھند ، چہرے کی سلوٹوں میں زمانے بھر کی تلخیوں کی آمیزش، تھکا تھکا لہجہ اور موتیوں کی طرح آبدار الفاظ چھائے رہے۔ میں انصاف نہ کرسکی۔ مریض تھے ، میں ایک بجے فارغ ہوکر آگئی اور نماز کے بعد سو گئی۔رات جاگنے کی وجہ سے جو اضطراب اور پژمردگی تھی دور ہوگئی۔ شام محمودہ آگئی۔
کہنے لگی ،میرا بیٹا باسم سڈنی میں ہے، لیکن پچھلے 2 سال سے میرا رابطہ نہیں۔میں دن رات دعائیں کرتی ہوں کہ یا اللہ وہ خیریت سے ہو، مجھے اسکی کوئی خبر مل جائے ۔ آپ حضرت یعقوب ؑ کی اپنے بیٹے سے جدائی یاد کریں۔رو رو کر ان کی بینائی جاتی رہی وہ جب سے گیا ہے میری دنیا کی ہر خوشی اور رونق ساتھ لے گیا ہے۔ نہ جانے وہ کس مشکل میں ہوگا۔نہ کھانے میں مزہ ہے نہ سکون کی نیند آتی ہے۔ لوگ بھی مجھے ہی الزام دیتے ہیںکہ میں نے اسے جانے کیوں دیا۔ زندگی تو پہلے ہی کسی پہاڑ سے کم نہ تھی اب تو ہر طرف تاریکی ہے۔ تمہارے پاس کوئی کنٹیکٹ نمبر ہے تو مجھے دو ۔ میں وعدہ تو نہیں کرتی لیکن کوشش ضرور کرونگی۔میں نے اسکا ایڈریس موبائل نمبر اسکے دوستوں کے نام اور ایک کا موبائل نمبر لے لیا۔ واپسی کی تاریخ پر ہم لوگ میلبورن آگئے۔ چند دن تو تھکن اور ملنے ملانے میں گزر گئے حتیٰ کہ میں باسم کے بارے میں تقریباً بھول گئی اور ایک روز اپنی ڈائری میں سے کوئی نمبر دیکھنا تھا تو محمودہ او رباسم کا نام نظر آتے ہی ساری کہانی یاد آگئی۔دوچار لوگوں سے تذکرہ کیا۔ فون پر جواب ملا کہ یہ نمبر ڈس کنیکٹ ہوگیا ہے یعنی بند ہوچکا ہے۔اس ایڈریس پر ایک خط لکھا کہ مجھے اس نمبر پر فون کرے۔اس کے دوست رضوا ن کا نمبر ایک دن اتفاقاً مل گیا۔ میں نے فون کیا اور پوچھا ! تم رضوان ہو جی، آپ کون ہیں آپ مجھے نہیں جانتے، میرا نام ڈاکٹر نقوی ہے۔ مجھے باسم کے بارے میں معلومات لینی ہیں۔ باسم کا نام سنتے ہی وہ خاموش ہوگیا ہیلو، ہیلو، رضوان فون بند نہ کرنا، پلیزمجھ سے بات کرو۔ باسم کی ماں رو رو کر اپنی جان دے دے گی۔ اگر تم اسکے بارے میں کچھ جانتے ہو تو مجھے بتاؤ یا اسکا نمبر دو۔ ہیلو، ہیلو۔ سن رہے ہو نا، پلیز ہیلو۔۔۔ جی وہ لائن میں کچھ خرابی تھی۔ آواز آنا بند ہوگئی تھی باسم سے ایک حادثہ ہوگیا تھا۔6 ماہ جیل میں رہ کر آیا ہے، میں اسکا نیا نمبر آپ کو دیتا ہوں کیا وہ کوئی جاب کررہا ہے، پڑھائی مکمل کرلی؟ بیمار تو نہیں ہے یہ سارے سوال آپ اس سے خود ہی پوچھ لیں۔۔۔ فون پر باسم مل گیا

شیئر: