Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی قوانین کے مطابق ہم وطنوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرینگے، سفیر پاکستان

تعلیمی اداروں کو بہتر بنانا اولین ترجیح ہے،مدینہ منورہ میں رواں سال کے آخر تک سب آفس کھل جائیگا،خان ہشام بن صدیق،اردونیوز کو پہلا انٹرویو
 * * * * * * * *
سعودی عرب کیلئے پاکستانی سفیر کی تعیناتی کا مسئلہ کافی دلچسپ رہا ۔ حتمی نام کے اعلان سے قبل میڈیا میں متعدد ناموں کا چرچہ رہا بالاخر انتخاب پاکستان بحریہ کے سابق ایڈمرل خان ہشام بن صدیق کا ہوا ۔ صدر پاکستان کی جانب سے منظوری کے بعد میڈیا کو انکا نام جاری کیا گیا جس کے ساتھ ہی مزید ناموں کی آمد کا سلسلہ از خودرک گیا ۔گزشتہ ماہ سفیر پاکستان خان ہشام مملکت پہنچے جہاں سب سے قبل انہوں نے عمرہ ادا کیا بعدازاں ریاض کیلئے روانہ ہوئے ۔ منصب سفارت سنبھالنے کے بعد انہوں نے مملکت میں مقیم ہم وطنوں سے ملاقاتوں کا خصوصی اہتمام کیا ۔ ماہ رمضان المبارک کی وجہ سے اگرچہ ملاقاتوں میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا اس کے باوجود انہوں نے ریاض کے بعد سب سے پہلے مکہ مکرمہ ریجن میں مقیم پاکبانوں سے ملاقات کے لئے قونصل جنرل سے کہا جنہو ں نے قونصلیٹ میں کمیونٹی سے ملاقات کے لئے خصوصی طور پر افطاری کا اہتمام کیا ۔ قونصلیٹ میں افطاری کا دعوت نامہ موصول ہوا ۔کیونکہ اس سے قبل ایسا کبھی نہیں ہو اتھا اس لئے اس بات کی یقین دہانی کیلئے شعبہ اطلاعات سے رجوع کیا جہاں سے یقین دلایا گیا کہ افطاری قونصلیٹ کے ہال میں ہی ہو گی اور بروقت پہنچ جائیں ۔
میری کوشش تھی کہ سفیر پاکستان سے خصوصی انٹرویو کیا جائے ۔ اپنی کوشش کو عملی جامہ پہنانے کیلئے جب میں نے پریس سیکشن کے سیکریٹری محمد اسلم سے ملاقات کی تو انہوں نے کہا کہ سفیرصاحب تو موجود ہیں اور وہ قونصلیٹ کے کمرشل سیکشن کا دورہ کر رہے ہیں ۔ ابھی ہم وہاں کھڑے اسی بارے میں گفتگو ہی کر رہے تھے کہ کمرشل سیکشن سے تمام افراد برآمدہوئے جن کے ہمراہ سفیر صاحب بھی تھے ۔ تعارف کے بعد میں نے اپنا مدعا انکے سامنے رکھا جسے سننے کے بعد انہو ںنے کہا ابھی تو ممکن نہیں البتہ کل صبح کا کوئی ٹائم ہوسکتا ہے ۔اسی دوران قونصل جنرل شہریار اکبر خان نے وضاحت کی کہ صبح بھی ممکن نہیں ہو گا کیونکہ صبح اسلامی ترقیاتی بینک اور او آئی سی کے دفتر جانا ہے ۔
ا س انکشاف پر سفیر صاحب نے کہا آئندہ ہفتے کا کوئی ٹائم رکھ لیتے ہیں ۔ میری کوشش تھی کہ انٹرویو ابھی ہو جائے تو بہتر ہے مگر ایسا لگ رہا تھا کہ وقت نہ مل سکے گا ۔ افطاری سے کچھ دیر قبل خان ہشام ( سفیر ) نے حاضرین سے خطاب کیا اور اپنے اہداف بتائے ۔ سفیر پاکستان سے پہلی سرسری ملاقات افطار پارٹی میں ہوئی مگر اس بات کا افسوس تھا کہ تفصیلی انٹرویو نہ کیا جاسکا ۔ دوسرے دن صبح موبائل فون پر پریس قونصلر ارشد منیر کی متعدد مس کالز تھیں جواب نہ ملنے پر انہو ں نے میسج کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر سفیر صاحب کا انٹرویو کرنا ہے تو ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے تک پہنچ جائیں ۔ میرے پاس صرف 15 منٹ تھے جبکہ گھر سے قونصلیٹ تک کی مسافت ہی 30 منٹ کی تھی ۔
پریس قونصلر سے رابطہ کیا تو انہو ںنے کہا کہ سفیر صاحب کی فلائٹ ایک بجے کی ہے اس لئے کوشش کریں کہ جلدی پہنچ جائیں ۔ بالاخر میں قونصلیٹ پہنچ گیا جب قونصل جنرل کے آفس کے سامنے سے گزر ہوا تو وہاں سفیر صاحب کو موجود پایا جو شاید میرے ہی منتظر تھے ۔ اسی دوران پریس قونصلر ارشد منیر بھی وہاںپہنچ گئے ۔ اس موقع پر لیا گیا انٹرویو اردو نیوز کے قارئین کیلئے پیش کیا جارہا ہے جو انتہائی مختصرو قت میں لیا جانے والا سفرپاکستان خان ہشام بن صدیق کا پہلا تفصیلی انٹرویو ہے ۔
- - - - -  - - - - - - - - - -  - - - -
انٹرویو: ارسلان ہاشمی
 - - - - - - - - - - - - -  - - - - - - -
سعودی عرب کا اسٹیشن انتہائی اہم ہے ۔ یہاں 20 لاکھ کے قریب پاکستانی مقیم ہیں علاوہ ازیں معتمرین اور عازمین کی بڑی تعداد ہر سال آتی ہے ۔ کمیونٹی کے مسائل سے بھی آپ کسی حد تک آگاہ ہو گئے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ مسائل کے حل کیلئے آپ کا لائحہ عمل کیا ہوگا ؟
٭٭ یہ بات بالکل درست ہے کہ سعودی عرب میں پاکستان کا سفارتی مشن کا شمار انتہائی اہم مشننز میں ہوتا ہے ۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات برادرانہ ہیں جن میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے ۔ میری سب سے پہلے کوشش یہ ہو گی کہ دو طرفہ تعلقات کو بہتر سے بہتر نہج پر پہنچاؤں کیونکہ دونوں برادرانہ ملکوں کے مابین جو مثالی تعلقات ہیں ان میں سب سے اہم اور مضبوط قدر مشترک دین حنیف ہے ۔ اسلام کے اٹوٹ رشتے نے ہمیں باہمی جوڑے رکھا ہے جو ابد تک رہے گا ۔ جہاں تک مملکت میں مقیم کمیونٹی کے مسائل کا تعلق ہے تو یہ واضح کر دوں کہ ہم وطنو ں کی خدمت اور انہیں درپیش مسائل کو حل کرنا سفارتی مشن کا اہم ترین مقصد ہوتا ہے ۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میری مملکت میں تعیناتی حال ہی میں ہوئی ہے ۔ تقریباایک ماہ ہی ہوا ہے اس عرصے میں میں نے ریاض ، جدہ اور دیگر شہروں میں کمیونٹی سے ملاقاتیں کی اور انہیں درپیش مسائل کے بارے میں معلومات حاصل کی تاکہ ان کا درست حل تلاش کیا جائے ۔
اس ضمن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مسائل کا حل انکی نوعیت کے مطابق ہو تا ہے جہاں تک آپ نے ذکر کیا تعلیمی مسائل کا تو اس بارے میں یہ کہوں گا کہ تعلیمی مسائل 2 طرح کے ہیں جن میں پہلا مسئلہ درس گاہوں کا بنیادی ڈھانچہ اور دوسرا تعلیمی معیار ۔ اس حوالے سے یہ واضح کرتا چلوں کہ ہم سعودی عرب کے قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے مختلف شہرو ں میں جہاں پاکستانی کمیونٹی اسکول کی عمارتیں اور انفراسٹرکچرر ناکافی ہے وہاں بہتر عمارتیں حاصل کی جائیں کیونکہ بہتر درسگاہوں کے لئے اچھی عمارتوں کی فراہمی انتہائی اہم ہے اس لئے ہماری یہ کوشش ہو گی کہ مملکت کے مختلف شہروں خاص کر ریاض ،جدہ ، دمام اور مدینہ منورہ کے علاوہ جہاں جہاں ممکن ہوا اسکول کے لئے اچھی عمارتیں حاصل کر کے بہتر سہولتوں سے مزین اسکول بنا نے کی کوشش کریں گے ۔
اسکے علاوہ دوسرے مسئلے کے حوالے سے یہ کہنا چاہوں گا کہ سعودی وزارت تعلیم کے قانون کے تحت کمیونٹی اسکولوں کے انتظام کی دیکھ بھال کیلئے اسکول مینجمنٹ کونسل قائم کی جاتی ہے جو ان تعلیمی اداروں کے معاملات کی دیکھ بھال کرتی ہے اس کونسل کے چیف پیٹرن اس ملک کا سفیر اور قونصل جنرل کو مقرر کیا جاتا ہے ۔ سعودی وزارت تعلیم کے قانون کے تحت کام کرتے ہوئے ہماری کوشش ہو گی کہ سفارت خانہ اپنی انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اسکول مینجمٹ کونسل کی بہتر انداز میں رہنمائی کرتے ہوئے ایس ایم سی کیلئے واضح سمت متعین کرے تاکہ کونسل مکمل طور پر تعلیمی و انتظامی معاملات کو بہتر انداز میں چلا سکے ۔ اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج کے طلباء ہمارا مستقبل ہیں اور ہم اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کیلئے ہر ممکن کو شش کریں گے کیونکہ آج کے بچوں کو کل ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے ۔
ہم اپنے کل کو بہتر بنانے کیلئے ہر ممکن سہولت اور رہنمائی کریں گے ۔ تعلیمی معاملات کے حوالے سے ایک اور اہم مسئلہ جو ان ادارو ںکو درپیش ہے ۔ میرے علم میں بھی آیا ہے وہ فیسوں کاحصول ہے۔ بہت بڑی تعداد ایسے والدین کی ہے جنکی ماہانہ آمدنی کم ہے اور وہ اپنے بچوں کی فیسیں بر وقت اد ا نہیں کر سکتے اس لئے اسکول کے معاملات میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ایسے طلباء کیلئے کمیونٹی کے تعاون سے فیسوں کی مد میں سہولت فراہم کر نے کیلئے جامع پروگرام مرتب کیا جارہا ہے تاکہ فیسوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے طلباء اپنا تعلیمی سلسلہ نہ روکیں اور ساتھ ہی اسکول کے معاملات بھی متاثر نہ ہوں ۔
٭کمیونٹی کے ضرورت مند افراد کی مدد کیلئے کیا طریقہ کار آپکے پیش نظر ہے ؟
٭٭میں پہلے بھی واضح کر چکا ہوں کہ مقامی قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں کام کرنا ہے ۔ سعودی عرب کے قوانین کا احترام سب کا فرض ہے اس لئے جہاں تک ہم وطنوں کو مدد فراہم کرنے کی بات ہے تو ویلفیئر فنڈ کے لئے قوانین مقرر ہیں اور ہماری کوشش ہو تی ہے کہ ضرورت مند افراد کی ہر ممکن حد تک مدد کی جاسکے ۔ اگر سفارت خانے میں فنڈ میسر نہ ہوں تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ضرورت مند کی فوری مدد کیلئے کمیونٹی فورمز کا تعاون حاصل کیاجائے ۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ کمیونٹی بہت زیادہ ہے جبکہ فنڈز محدود ۔ اس حوالے سے یہ بتاتا چلوں کہ ریاض میں پاکستان ڈاکٹر ز اور کلچرل گروپ کی جانب سے چند دن قبل افطار ڈنر کیا گیا جس میں 1.2 ملین ریال جمع ہوئے اس رقم سے سفارتخانے کے احاطے میں ایک ڈسپنسری چلائی جارہی ہے جہاں یومیہ 50 سے 60 مریضوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ مستحق طلباء کی فیسوں کی مد میں بھی 5 لاکھ ریال ادا کئے گئے ۔ اس طرح کے اشتراک و تعاون سے معاملات بہتر طور پر حل کئے جاسکتے ہیں۔
٭آپ نے ایک تقریب میں خطاب کے دوران مدینہ منورہ میں کمیونٹی اسکول کے قیام کی بات کی ، ا س حوالے سے کیا کوئی جامع منصوبہ مرتب کیا جا چکا ہے ؟
٭٭ یہ درست ہے کہ شہر مقدس میں بڑی تعداد میں پاکستانی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ مقیم ہیں اس حوالے سے یہ کہوں گا کہ حالات کا مکمل طور پر اور مختلف حوالوں سے جائزہ لیا جارہا ہے جن میں معاشی اور دیگر اسباب بھی شامل ہیں سب سے اہم نکتہ وہی ہے جس کا میں بار بارذکر کر تا رہا ہو ںیعنی سعودی قوانین کے مطابق ہمیں کام کرنا ہے ۔ سب سے پہلے اس بارے میں سعودی قوانین کاجائزہ لے کر ہم آگے بڑھیں گے کیونکہ مقامی قوانین کی پاسداری ہمارا اولین مقصد ہے جس کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہمیں کام کرنا ہے ۔
٭مدینہ منورہ میں پاکستان قونصلیٹ کے ذیلی آفس کے قیام کی باتیں کافی عرصے سے جاری ہیں ۔ معاملات کب تک حتمی شکل اختیار کریں گے؟
٭٭ یہ درست ہے کہ مدینہ منورہ انتہائی اہم شہر ہے وہاں بڑی تعداد میں پاکستانی کمیونٹی بھی موجود ہے جس کی ضروریات بھی ہیں ۔ وہاں ذیلی آفس قائم کرنے کیلئے کافی حد تک کام ہوا ہے ۔ ہماری کوشش ہے کہ جلدازجلد وہاں سب آفس قائم کر دیا جائے جس کیلئے معاملات آخری مراحل میں ہیں امید ہے کہ سال رواں کے آخر تک وہاں ذیلی آفس کھل جائے گا اس کے علاوہ دمام میں بھی سب آفس کھولنے کیلئے کوشش کر رہے ہیں ۔
٭کمیونٹی کے بعض مسائل کے حل کیلئے قانونی فرم کی خدمات حاصل کرنے کے بارے میں کیا کوئی منصوبہ زیر غور ہے ؟
٭٭سعودی عرب کے عدالتی نظام میں یہ امر واضح ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی وکیل پیش نہیں ہو سکتا البتہ زیادہ سے زیادہ ترجمان کی سہولت فراہم کرنے کی اجازت دی گئی ہے ا س امر کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے مشنز میں لا آفیسر ز رکھے ہیں جو شریعہ قانون سے بخوبی واقف ہیں وہ وکیلوں سے معاملات کو دیکھ کر کیس تیار کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے یہ کہوں گا کہ ہم سعودی قوانین کے مطابق ان افراد کی رہنمائی کیلئے جو ہم سے رجوع کرتے ہیں کے مقدمے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے انہیں ترجمان کی سہولت بھی مہیا کرتے ہیں اس کے علاوہ جو لاء آفیسر ز جو سفارتخانے میں ہیں وہ سائلین کو قانونی باریکیوں سے مطلع کر تے ہوئے ان کی بہتر طور پر رہنمائی کرتے ہیں ۔
٭حکومت سعودی عرب کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کیلئے 90 روزہ خصوصی مہلت کا اعلان کیا گیا ہے ۔ اس مہلت کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں ؟
٭٭ حکومت سعودی عرب کی جانب سے یہ بہت بہتر اقدام ہے اس سے وہ تارکین وطن جو غیر قانونی طور پر مملکت میں مقیم ہیں انہیں یہ سہولت ہو گی کہ وہ باعزت طریقے سے وطن جاسکیں گے اور ان پر کسی قسم کاجرمانہ یا سزا کا نفاذ بھی نہیں ہو گا ۔ یہ مہلت اس حوالے سے بھی مفید ہے کہ اس سے استفادہ کرنے والے دوبارہ کسی بھی ویزے پر مملکت آسکتے ہیں ان پر کوئی قانونی قدغن نہیں ہو گی اس لئے میں یہ کہوں گا کہ وہ ہم وطن جو قانون محنت یا اقامہ قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہیں وہ فوری طور پر ا س مہلت سے استفادہ کرتے ہوئے مقررہ وقت کے اند ر وطن روانہ ہو جائیں کیونکہ اقامہ قوانین کی خلا ف ورزی پر قانونی شکنی کے مرتکب افراد پر جرمانے کے علاوہ دیگر سزائیں بھی ہیں جن میں ایسے افراد کو مخصوص مدت کیلئے مملکت میں آنے کیلئے بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے جبکہ اس مہلت کے دوران جانے والے ہرقسم کے جرمانوں اور سزا سے بچ سکتے ہیں ۔ غیر قانونی تارکین کو دی جانے والی مہلت کے حوالے سے یہ بھی کہوں گا کہ ریاض سفارتخانے اور جدہ قونصلیٹ میں مہلت کے اعلان کے ساتھ ہی خصوصی ہیلپ ڈیسک قائم کئے گئے ہیں جہاں متعین عملہ آنے والے ہم وطنوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کر رہا ہے جن میں آوٹ پاس اور ہنگامی پاسپورٹ کی تجدید کا کام فوری طور پر ہو رہا ہے ۔ مہلت کے بارے میں یہ بھی کہوں گا کہ سعودی اعلی حکام سے ملاقات کی جس میں مفید امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ مہلت کا وقت بڑھانے کے بارے میں مقامی حکام کو تجویز پیش کی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں غیر قانونی تارکین اس مہلت سے مستفیض ہو سکیں ۔
٭ماضی میں قیدیو ں کے تبادلے کے حوالے سے اعلی سطح پر معاملات پر غور ہو ا تھا مگر بعد میں وہ سرد خانے کی نذر ہو گئے اس بارے میں آپ کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟
٭٭ ہماری کوشش ہے کہ وہ پاکستانی قیدی جو معمولی کیسوں میں قید ہیں اور انہوں نے اپنی مدت قید مکمل کر لی ہے انہیں جلد ا ز جلد وطن بھجوایا جائے اس بارے میں سفارتخانے اور قونصلیٹ کی ٹیمیں وقتا فوقتا متعلقہ اداروں سے رابطے میں ہیں اور بہتر انداز میں کام جاری ہے۔جہاں تک قیدیوں کے تبادلے کی بات ہے تو یہ بتاتا چلوں کہ ماضی میں اس پر کافی کام ہو اتھا مگر بعد میں رک گیا ۔ 2014 میں پاکستانی وزارت خارجہ اور سعودی وزرات کے مابین کافی پیش رفت ہوئی تھی اور مفاہمتی یاداشت بھی تیار کر لی گئی تھی جس پر دستخط ہو نے والے تھے مگر نہ ہو سکے تاہم اب ہماری کوشش ہو گی کہ قیدیوں کے تبادلے کا قانون دونوں جانب سے منظور ہوجائے جس کیلئے جامع انداز میں کام کیا جائیگا تاکہ اس کے مثبت اور ٹھوس نتائج سامنے آسکیں ۔اس بارے میں فریم ورک تیار ہے اور جلد از جلد اس پر بہتر انداز میں پیش رفت ہو گی ۔
٭سعودی عرب اور پاکستان کے مابین مثالی برادرانہ تعلقات کے باوجود ہماری باہمی تجارت وہ مقام حاصل نہیں کر سکی ۔ دو طرفہ تجارت کے فروغ کیلئے کیا اقدامات پیش نظر ہیں ؟
٭٭ پاک ، سعودی تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہوں گا کہ اس میں کوئی 2 رائے نہیں دو نوں ملکوں کے مابین مثالی برادرانہ تعلقات ہیں جن میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے ۔ میرے اہم اہداف میں دوطرفہ تجارت میں اضافہ بھی شامل ہے میری کوشش ہوگی کہ ا س بارے میں ٹھوس او رجامع اندا ز میں کام کیا جائے۔ سعودی عرب کیلئے ہماری ایکسپورٹ 4 سو ملین ڈالر کی ہیں جن میں زیادہ حصہ چاول اور گوشت کا ہے اور میرا خیال ہے کہ ان دو شعبوں میں پاکستانی تاجروں کو مملکت میں کافی مواقع ملیں گے جس کے لئے مزید کوشش کریں گے ان کے علاوہ دیگر پاکستانی زرعی اجناس بھی دنیا بھر میں معروف ہیں جن میں آم اور کینو شامل ہیں ۔ گزشتہ دنوں رائس ایکسپورٹر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے وفد نے مملکت کا دورہ کیا جو کافی کامیاب رہا ۔ پاکستانی تاجروں نے مقامی تاجروں سے ون ٹو ون ملاقاتیں بھی کیں جن کے نتائج جلد ہی سامنے آئیں گے جسے دیکھتے ہوئے یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ امسال پاکستانی چاول کی مملکت میں ایکسپورٹ میں غیر معمولی اضافہ ہو گا ۔ اسکے علاوہ گوشت کی صنعت کے حوالے سے بھی ہم جامع منصوبہ مرتب کر رہے ہیں تاکہ اس فیلڈ میں بھی بہتر ی لائی جائے ۔ اس حوالے سے ہماری کوشش ہے کہ گوشت کی صنعت سے منسلک پاکستانی تاجروں کو سعودی عرب میں گوشت ایکسپورٹ کے لئے مطلوبہ معیار کی سند دلوائی جائے تاکہ ہمارے مزید تاجر سعودی عرب کی مقامی منڈیوں میں خود کو رجسٹرکرواسکیں ۔ ٹیکسٹائل سیکٹر بھی انتہائی اہم ہے جبکہ اس میدان میں پاکستان کی مصنوعات دنیا بھر میں اعلی مقام رکھتی ہیں ہماری کوشش ہوگی کہ ٹیکسٹائل کے شعبہ میں بھی ایکسپورٹ کو بڑھانے کیلئے کام کیا جائے جس کیلئے جامع حکمت عملی مرتب کر کے بہتر طور پر سب کو ساتھ لیکر چلیں گے ۔سروس انڈسٹری کے میدان میں بھی ہمارے پاس کافی مواقع ہیں اس سیکٹر میں پاکستان کے پاس بہترین آئی ٹی ایکسپرٹس ہیں جو خدمات آئوٹ سورس کر سکتے ہیں ۔جو سعودی عرب کے مستقبل کے ویژن 2030 کے لئے بھی انتہائی مفید ثابت ہو گا ۔
٭دو طرفہ تجارت کے فروغ کیلئے کمرشل سیکشن انتہائی اہم ہوتا ہے ۔ اس شعبے کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کیلئے کیا اسٹاف میں اضافہ کیا جائے گا ؟
٭٭پاکستان کی وزارت تجارت نے بڑا بہترین سسٹم متعارف کروایا ہے جسے" بیلنس اسکور کارڈز " کا نام دیا گیا ہے ۔ اس سسٹم کے تحت بیرون ملک قائم ہر سفارتخانے اور قونصلیٹ میں قائم کمرشل سیکشن کی کارکردگی جانچنے کیلئے مذکورہ بالا سسٹم کے تحت ہر سیکشن کو K.P.I,s ( کی پرفارمنس انڈیکیٹرز ( دیئے ہیں جنہیں سامنے رکھتے ہوئے کمرشل سیکشن کی کارکردگی کو جانچا جاتا ہے اور اس کے مطابق کمرشل سیکشن کو مختلف مراعات جن میں عملے میں اضافہ یا دیگر مطالبات کی منظوری دی جاتی ہے ۔اس سسٹم کے تحت جسے بیلنس اسکور کارڈ کا نام دیا گیا ہے کی سالانہ کارکردگی کاجائزہ لینے کے بعد اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ عملے میں اضافہ کیاجائے یا نہیں ۔
٭ کیا سی پیک منصوبہ پاک ، سعودی تجارت کے لئے بھی سود مند ثابت ہو گا ؟
٭٭جی ہاں ، مجھے قوی امید ہے کہ جب سی پیک منصوبہ مکمل ہو جائے گا تواس سے جہاں دیگر ممالک سے ہماری تجارت کو فروغ ملے گا وہاں سعودی عرب سے بھی ہماری تجارت کا حجم بڑھے گا اور اس منصوبے کے مثبت اثرات سے ہر کوئی مستفیض ہو گا ۔ سی پیک قومی منصوبہ ہے جس کے دور رس اثرات سے ہر شخص بخوبی واقف ہے ۔منصوبہ مکمل ہونے کے بعد سعودی عرب سے تجارت مزید بہتر ہو گی اس منصوبے کیلئے مختلف ممالک خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں ۔
٭اردو نیوز کے ذریعے آپ کمیونٹی کو کیا پیغام دیں گے ؟
٭٭سب سے پہلے میں یہ کہوں گا آپ اس سرزمین پر مقیم ہیں جو کرہ ارض کا سب سے مقدس مقام ہے ۔ یہاں حرمین شریفین ہیں جن کے تقدس کا خیال رکھنا ہر مسلمان کا دینی تقاضہ ہے ۔ اسی طرح مملکت کے قوانین کا خیال رکھنا سب کافرض ہے ۔ ہر پاکستانی اپنی حیثیت میں وطن عزیز کا سفیر ہے ۔ اپنے عمل سے ثابت کریں کہ ہم ایک باشعور اور اعلی قوم ہیں ۔ ہر پاکستانی اپنی جگہ میرے لئے محترم اور قابل عزت ہے ۔ ایک عام محنت کش کا بھی میرے نزدیک وہی مقام ہے جو ایک اعلی عہد ے پر فائز ہم وطن کا ۔ میرے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے ہیں۔ ہر پاکستانی کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اپنے عمل سے پاک ، سعودی تعلقات میں مزید اضافہ کرنے میں اپنا کردار اد ا کرے۔ میری کوشش ہے کہ میں اپنے دور قیام میں ہم وطنوں کیلئے بہترسے بہتر مراعات حاصل کروںاور انہیں سہولتیں پہنچائوں جس کیلئے سفارتخانے اور قونصلیٹ کے اسٹاف کو خصوصی ہدایات جاری کی ہیں ۔ آپ کا بھی فرض ہے کہ سفارتخانے اور قونصلیٹ کے اہلکاروں کے ساتھ تعاون کریں کیونکہ یہ آپکی خدمت کیلئے ہی بیٹھے ہیں ۔

شیئر: