Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حالات نے اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ ماں سے رابطہ کرسکتا

لوگ بڑے سنگدل ، خودغرض اور طوطا چشم ہی، رحمدلی صرف کتابوں میں رہ گئی ہے، اب میں نے رب کی رحمت کے دامن میں پناہ لے لی
( نوٹ: آپ بیتی کے نام اور مقام سب فرضی ہیں)
* * * * ڈاکٹر شگفتہ نقوی۔ آسٹریلیا* * * * *
(چوتھی قسط)
میرے دل کو انجانی سی راحت محسوس ہوئی جیسے میرا اپنا کھویا ہوا بیٹا مل گیا ہو۔
 میں نے پوچھا، باسم میں تمہاری امی محمودہ سے مل کر آرہی ہوں تم کیسے ہو، تمہارے لئے ایک پیغام ہے۔
 میں بہت شرمندہ ہوں، مجھے حالات نے اس قابل ہی نہ چھوڑا کہ میں امی سے رابطہ کرسکتا
 میری ا ماں ٹھیک ہے نا؟
 تمہاری واپسی کی امید اور دیدار کا شوق اسے زندہ رکھے ہوئے ہے ورنہ اسکی زندگی میں جینے کی کوئی رمق باقی نہیں۔
 وہ روپڑا۔۔۔معصوم بچے کی طرح سسکیاں لیتے ہوئے بولا کاش میں یہاں نہ آیا ہوتا
 میں نے ماں کی جائداد سے اپنی زمین سے جدائی گوارا کی اور یہاں ایسے بھنور میں پھنسا ہوں کہ کوئی کنارہ نظر نہیں آتا
 اچھا اب تم رونا بند کرو ، بہادر ہو اور واپس جانے کی تیاری کرو
  اس سے پہلے کہ تمہاری ماں کی آنکھیں روتے روتے بے نور ہوجائیں اسے جاکر مل لو۔
 آپ اپنا تعارف تو کرائیں، اپنا ایڈریس اور ای میل دیں۔
 میں ایک جاب کے سلسلے میں میلبورن آرہا ہوں آپ سے ملوں گا۔
 چند دنوں بعد وہ سچ مچ آگیا۔ میں نے اسکی رہنمائی کی کہ 19 نمبرٹرام لے کر آخری اسٹاپ پر اتر جانا بس دو منٹ کی واک پر
میرا گھر ہے۔
 معمولی سے لباس میں چہرے پر پردیس میں کھائی جانے والی ٹھوکروں کی بے مروتی ، جگراتے، بے وفائی، خودغرضی کی تحریر لکھی تھی
 اس نے اپنی کہانی سنائی۔
 میں نے یہاں آتے ہی 3 ماہ کیلئے انگلش سیکھنے کے کورس میں داخل لیا۔ اسکی کامیابی پر میرے داخلے کا انحصار تھا۔کھانا پینا، کمرے کا کرایہ ، موبائل کیلئے کارڈ ، بس اور ٹرین کا کرایہ۔اسکے لئے کم ازکم ایک ہزار ڈالر ہر ماہ کا خرچ تھا۔ جن لڑکوں کے پاس ٹھہرا تھا انہو ںنے کہا بیکری ، دکانیں، صفائی، برتن دھونے کوئی بھی کام مل جائے توپکڑ لو۔اتنے ڈالر آجائیں گے کہ گزارا ہوجائے ۔ ورنہ یہ کمرہ بھی خالی کرناپڑے گا۔ ہم سے ہر ماہ لینڈ لیڈی مہینے کے آخر میں کرایہ لینے آجاتی ہے۔
 میں کام ڈھونڈتا رہا ۔لوگ وعدہ کرتے مگر کام نہ ملتا۔میں سارے لڑکوں کیلئے کھانا پکاتا، برتن دھوتا، جھاڑو دیتا، استری کرتا ، سارے گھر کی صفائی کرتا حتیٰ کہ ٹائلٹ تک دھوتا کہ یہ مجھے نکال نہ دیں۔ایک دن بیکری میں کام کیا۔تو اس کا مالک کہنے لگا کہ تمہارا کام مجھے پسند نہیں آیا کل سے مت آنا ۔میں نے کہاآج کے پیسے دیدیں ، میں نے 8 گھٹنے کام کیا ہے پلیز
 اس نے کہا دفع ہوجاؤ، یہ تو میںنے تمہارا ٹیسٹ لیا تھا، تم فیل ہوگئے۔میں روتا ہوا واپس آگیا
  ون وے ٹکٹ لیا تھا، رفتہ رفتہ پیسے ختم ہورہے تھے۔ لڑکوں کو پتہ تھا کہ مجھے کام نہیں مل رہا لیکن مہینے کے آخر میں وہ مجھ سے ایک ہزار ڈالر لے لیتے ذرا بھی لحاظ نہ کرتے حالانکہ سب کام کررہے تھے، بعض تو صر ف کالج میں فیس دیتے، حاضریاں لگتی رہتیں اور وہ7 دن کام کرتے۔ڈے اینڈ نائٹ۔بس 4یا 5 گھنٹے سے زیادہ نیند بھی نہیں پوری ہوتی تھی۔
 ایک ملازمت سے آتے او ر دوسری کی طرف چل دیتے۔ پھر مجھے ایک قصائی کی جاب مل گئی۔ میں نے زندگی بھر چڑیا بھی نہیں ماری تھی، میں نے خون دیکھا تو میرا دل خراب ہوگیا۔پھر ایک ہوٹل میں برتن دھونے کی جاب ملی ۔صرف ہفتہ اتوار رات کی شفٹ۔ 3 بجے فارغ ہوکر گھر آتا۔ کوئی بس نہ ملتی پیدل چل چل کر حشر ہوجاتا۔نتیجہ یہ ہوا کہ میں امتحان میں فیل ہوگیا۔ اب ویزا خطرے میں پڑگیا۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ انڈر گراؤنڈ ہوجاؤ۔ بہت لوگ ایسے رہتے ہیں۔ پیسے اکٹھے کرلو، ٹکٹ خریدو اور واپس چلے جانا۔
  میں نے ڈرائیونگ سیکھی، دوستوں نے بتایا کہ ٹیکسی چلانا سب سے سے آسان ہے۔پیسے بھی زیادہ اور ٹیکسی کی بھی بچت ہوتی ہے۔ میں بھی لالچ میں آگیا لیکن مقدر کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے ٹیکسی کا ڈرائیونگ لائسنس بڑی مشکل سے ملتا ہے جو پیسے کماتا وہ فیس میں دے دیتالیکن2مرتبہ امتحان دیا، فیل ہوگیا جس کے برتن دھوتا وہاں سے جھوٹا کھانا مل جاتا تو زہر ما ر کر کھا لیتا تاکہ کھانے کا خرچ کم ہو کبھی کبھی ماں کے ہاتھ کے پراٹھے اور لسی یاد آتی ۔ پاکستان یا دآتا تو یوں لگتا کہ وہ ایک جنت تھی جسے میں چھوڑ آیا ۔
 واپس کس منہ سے جاؤنگا۔گھر بیچ دیا، زمین فروخت کردی، اب ماں کو کیسا بے سہارا کردیا۔ ہر دروازہ بند ملتا ہے۔
 آخر کار میںنے فیصلہ کیا کہ واپس چلا جاؤنگا محنت مزدوری کرلوں گا۔ماں تو پاس ہوگی۔ مل جل کر گزارہ کرلیں گے۔ لوگ بڑے سنگدل خود غرض اور طوطا چشم ہیں یہاں بھی اور وہاں بھی، رحمدلی صرف کتابوں میں رہ گئی ہے۔
 تیسرے دفعہ میں لائسنس کیلئے امتحان پاس ہوگیا۔ کسی کی ضمانت پر ٹیکسی مل گئی۔میں نے لالچ کی ۔ جب ڈالر ہاتھ میں آئے تو
ساری تکلیفیں بھول گیا۔سوچا ویزا اپلائی کرتا ہوں۔ فیس کے پیسے جمع ہوگئے ہیں۔ پڑھونگا اور ڈگری لے کر واپس جاؤں گا۔بس قسمت کی خرابی، دن رات ٹیکسی چلائی، نیند پوری نہیں ہوئی۔ایکسیڈنٹ ہوگیا، سر پر چوٹ آئی۔پولیس آئی۔ میرے کاغذات چیک ہوئے تو میرا ویزا نہیں تھا۔ پہلے اسپتال میں علاج ہوا، کچھ پیسہ وہاں لگ گیا۔اسکے بعد مجھے جیل ہوگئی۔وہاںجاکر میں نے سوچاکہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ کیوں ہورہا ہے۔میں دنیا کے پیچھے دوڑ رہا ہوں اور میں نے اپنے پروردگار کو بھلا رکھاہے۔
 چنانچہ پہلے تو بہ کی۔ گڑگڑا کر معافی مانگی۔پھر نماز یں شروع کیں، جو سورتیں زبانی یاد تھیں ان کی تلاوت کی۔اسلامک فیڈریشن والے ہر اتوار کو جیل کا وزٹ کرتے۔انہوں نے مجھے قرآن پاک دیا۔ میںنے ترجمہ کے ساتھ زندگی میں پہلی بار قرآن پاک پڑھا۔ میری آنکھیں کھل گئیں۔بہت رویا، بہت ہی روتا رہا۔ شروع سے ہی میں غلطی پر تھا، ماں کی یاد بہت آتی، لیکن میں رابطہ نہیں کرسکتاتھا۔ ساری مصیبتوں کے بعد سب سے بڑی مصیبت تھی لیکن شاید یہ آخری ہو۔میں نے رب کی رحمت کے دامن میں پناہ لے لی۔چند دن پہلے میں جیل سے آیا ہوں کہ آپ کافون آگیا اور اپنی ماں کی خیریت کی اطلاع بھی مل گئی۔اب آپ بتائیں ، ماں نے کیا پیغام دیا ہے * تمہاری ماں نے بس ایک جملہ کہا ہے۔۔باسم آجاؤ، مجھے تیری ضرورت ہے
 وہ یہ سن کر آبدیدہ ہوگیا۔
 میں نے تسلی دی، کھانا کھلایا، کتابیں دیں او رپوچھا کہ کرایہ ہے؟پاکستانی ٹریول ایجنٹ سے کہہ کر ڈالر کم کروائے ٹکٹ کا انتظام کیاایک خط لکھ کر محمودہ کیلئے اور چند تحائف ، ایک سوئٹر اور ایک پرس بھجوایا۔میرا بیٹا اسے ایئرپورٹ چھوڑ آیا۔میں نے اسے تاکید کی کہ یہ ایک ہزار ڈالر ساتھ لیجاؤ۔ یہ تمہاری حق حلال کی کمائی ہے۔ یہ ایک لاکھ روپے پاکستانی بنتے ہیں۔ماں کو جاکر دینا۔مائیں تو ہمیشہ معاف کردیتی ہیں، وہ بہت خوش ہوگی۔اسکی خدمت کرنا، کہناماننا، اسکے آگے اُف نہ کرنا۔اسے تنہا نہ چھوڑنا۔مجھ سے رابطہ رکھنا، میں ان شاء اللہ اگلے سال پاکستان آئی تو ضرور ملنے آؤنگی۔جہاز فضا کی بلندیوں میں پرواز کرگیا۔۔

شیئر: