Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حوصلہ ہو توخدشات تنکوں کی طرح بہہ جاتے ہیں

توقع ہے کہ ہمارا ملک مزید ترقی کی منازل طے کرے گا لہٰذا ہمیں اپنے زور بازو پر یقین رکھنا چاہئے اور ترقی کی طرف گامزن رہنے کی کوشش کرنی چاہئے
* * *عنبرین فیض احمد ۔  کراچی* * *
کہتے ہیں کہ یہ دنیا طاقتوروں کی ہے جس نے دنیا میں طاقت کا مظاہرہ کیا وہ کامیابی کی منزل تک پہنچا اور جس میں ذرا بھی حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں اس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ترقی کرنی ہے، آگے بڑھنا ہے تو جواں مردی کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ طاقتور بازی مار لیتا ہے اور کمزوربے چارے کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔اس لئے اگر ہمیں حالات کے ساتھ چلنا ہے تو ہر لحاظ سے چاق و چوبند رہنا ضروری ہے۔ اسی میں ہماری بھلائی ہے ورنہ زندگی میں ہر لمحے ناکامی ونامرادی کا خدشہ ہوتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہمیشہ ہی کمزوروں کو کچل کرطاقتور آگے نکل جاتے ہیں یعنی طاقتور کی جیت ہوتی ہے۔
دھنک کے صفحے پر شائع شدہ تصویر میں بھی دکھایا گیا ہے کہ ایک صحتمند، بااختیار، تجربہ کار اور طاقتور مینا اپنی مرضی کا شکار کرکے لے جارہی ہے جبکہ وہیں پر باقی کمزور ، بے زبان ، ناتجربہ کار اور بے اختیار مینائیں حیران و پریشان ، حسرت و یاس کی تصویر بنی اس طاقتور مینا کو دیکھ رہی ہیں۔ ان میناؤں کو یہ معلوم ہے کہ اس طاقتور مینا سے اگرانہوں نے شکار چھیننے کی کوشش کی تو یقینا انہیں کافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ شکار کو چھیننے کی کوشش میں ان کی جان بھی جاسکتی ہے۔ مینا کی مثال ایک ایسی قوم کی طرح دی گئی ہے جو نہایت ہی کمزور اور مجبور ہے ، وقت اور حالات کے مطابق انسان کو اپنے اندر تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ وہ ہر قسم کے بدلتے حالات کا سامنا کرسکے۔ وہی دنیا میں ترقی کی سیڑھیوں پر چڑھ سکتا ہے اور وہی دنیا میں طاقتور کہلاتا ہے جو زمانے کے نشیب و فراز کے ساتھ چل سکے۔ جو خود میں تبدیلی نہیں لاسکتا وہ زمانے کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ اس میںکوئی دورائے نہیں کہ کمزور قوموں کا نام ونشان صفحۂ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ جو اپنے زور ِ بازو پر انحصار کرتاہے، اپنے اندر دشمن سے لڑنے اور مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے یعنی اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا ہے وہی دنیا میں جیتنے اور دوسروں کو زیر کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں طاقت کا بول بالا ہے۔ اس صورتحال کو اگر اقوام عالم کے حوالے سے دیکھا جائے تو بہت اچھی طرح اندازہ ہوگا کہ جو قومیں ترقی کرتی ہیں وہی دنیا میں زندہ رہ سکتی ہیں۔ تصویر میں بھی یہی دکھایاگیا ہے کہ جو مینا طاقتورتھی اس نے اپنے لئے شکار کیا اور اپنے راستے پر ہولی جبکہ باقی کمزور میناؤں میں اتنی صلاحیت نہیں تھی اس لئے وہ اسے دیکھتی ہی رہ گئیں۔
جو قومیں اقتصادی طور پر مضبوط ہوتی ہیں ، ان کی طاقت کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے، وہی آگے بڑھتی ہیں یعنی وہی وقت اور حالات کے ساتھ چلتی ہیں۔ اسی لئے کہتے ہیںکہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ زندگی میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کیلئے سب سے پہلے انسان کو اپنے اندر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ کھٹن اور تکلیف دہ حالات کا مقابلہ کرتے ہیں اور محنت و مشقت سے تعلیم حاصل کرتے ہیں ، وہی دنیا میں انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں لہٰذا زندگی میں کامیابی کیلئے دو صلاحیتوں کا ہونا نہایت ضروری ہے ایک کردار کی مضبوطی اور دوسرا خود اعتمادی۔ انسان اپنا مستقبل خود بناتا ہے۔ اس کی محنت کا پھل اللہ کریم اس کو عنایت فرماتا ہے۔ اس لئے محنت ،لازمی شرط ہے اورکسی نہ کسی مقصد کا ہونا ضروری ہے۔ بغیر مقصد کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ مقصد حاصل کرنے کیلئے جدوجہد ضروری ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ چند لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سمندر سے موتی نکالنے کیلئے بھی سخت جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ جو ان ہمت اور مضبوط ارادہ ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ مسلسل جدوجہد ہی ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے۔
انسان اپنی ایک بار کی ناکامی سے مایوس ہوجاتا ہے اور اسے اپنی قسمت قرار دینے لگتا ہے حالانکہ اس کی یہی ناکامی، کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔ اس لئے جو قومیں محنت کرتی ہیں وہ ہر میدان میں نمایاں حیثیت حاصل کرتی ہیں ۔انہیں دنیا میں منفرد مقام حاصل ہوتا ہے۔ دنیا ان کو رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ ان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے۔ دنیا کے نقشے پر ان جیسے ممالک کا نام بڑی شان سے چمک رہا ہوتا ہے ، انہیں ترقی یافتہ ممالک کہا جاتا ہے۔ اللہ کریم کا شکر ہے کہ وطن عزیز میں جہاں ایک طرف سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جدوجہد کی جارہی ہے وہیں ہمارا دنیا کے طاقتور ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے اور اس میں آگے بڑھنے کی کتنی صلاحیت ہے، یہ ہم سب کو معلوم ہے۔ توقع ہے کہ آئندہ چند برسوں میں ہمارا ملک مزید ترقی کی منازل طے کرے گا لہٰذا ہمیں اپنے زور بازو پر یقین رکھنا چاہئے اور ترقی کی طرف گامزن رہنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
ہم زندہ قوم ہیں اور زندہ ہونے کی نشانی یہی ہے کہ وہ دوسروں کے سہارے نہیں جیتی بلکہ خود پر یقین رکھ کر اپنے آپ کو مضبوط کرتی ہے۔ مینا تو ایک پرندہ ہے ۔ اس نے جدو جہد کر کے اپنے لئے شکار حاصل کرلیا۔ مینا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بحیثیت قوم اگر ہم متحد ہوجائیں اور حالات کا مقابلہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ملک سے ہر قسم کی دہشت گردی، رشوت اور دیگر برائیوں کا خاتمہ نہ ہوسکے اور ہمارا شمار دنیا کے ان ممالک کے ساتھ نہ ہو جنہیں ترقی یافتہ کہا جاتا ہے۔ مطلب حالات خواہ کیسے ہی کیو ں نہ ہوں، انسان کے اندر حوصلہ ہونا چاہئے ۔اگر حوصلہ اور ہمت ہو تو حالات خواہ کتنے ہی بد سے بدتر ہی کیوں نہ ہوں، جواں مردی سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ سارے مسائل و پریشانیاں اور خدشات تنکوں کی طرح بہہ جاتے ہیں۔

شیئر: