Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قلم جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے،ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

شا عری میں پنا ہ ڈھو نڈ تی ہوں، گھبرا تی ہو ں تو شاعری مجھ سے سر گو شی کر تی ہے، کہتی ہے کہ ’’ میں ہو ں ناں‘‘
* * * تسنیم امجد۔ریا ض* * * *
حیات و کائنات باہمی ربط و ارتباط کا اک لامحدود سلسلہ ہے ۔ ان میں بعض روابط وجودِ انسانی کی شان ہوتے ہیں، بعض اس کا مان ہوتے ہیں، بعض محض احسان ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض روابط پاؤں کی زنجیرہوتے ہیں، بعض مجبوری کی تصویر ہوتے ہیں اور بعض انتہائی ناگزیر ہوتے ہیں اور ناگزیر بھی یوں جیسے زندگی کے لئے سانس اوردرد کے لئے پھانس ،اسی طرح جیسے بے صبری کے لئے پیاس ضروری ہے ، جینے کے لئے آس ضروری ہے ،تخئیل کے لئے احساس ضروری ہے اور قلم کے لئے قرطاس ضروری ہے ۔ قرطاس و قلم کا رشتہ اس حوالے سے منفرد ہے کہ اسے نبھانے کے لئے اک ’’رشتہ دار‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے جسے ’’قلمکار‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ قلمکار اپنے احساسات کو لفظوں میں ڈھال کر زبانِ قلم کو سونپ دیتا ہے جو اسے قرطاس پربکھیردیتی ہے ۔یوں دنیائے ادب میں ایک باب رقم ہوتا ہے ،جب لوگ اس کی تجسیم کرتے ہیں تو منصۂ شہود پر ایک تہذیب نمودار ہوتی ہے۔
اس ناتے سے قلم کاردرحقیقت تہذیب کے علمبردار ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر عمرانہ مشتاق بھی ایک ایسی ہی حساس شخصیت ہیں جوقرطاس و قلم سے رشتہ نبھا رہی ہیں۔اس ہفتے ’’ہوا کے دوش پر‘‘یا ’’دیس پردیس‘‘ میں وہی ہماری مہمان ہیں۔ تا ریخ کے اوراق معا شر تی تبدیلی کا پتہ دیتے ہیں اور تبدیلی کے اس شوق میں ہم ان اوراق کو تیزی سے پلٹتے جا تے ہیں۔ تبدیلیاں ہمیں بھا تی ہیں اور ہم قومو ں کی او نچ نیچ کا جائزہ لیتے ہوئے پڑ ھتے چلے جا تے ہیں۔
اردو نیو ز کا سلسلہ دیس پر دیس بھی اپنے اندر ایک تا ریخ سمو ئے ہو ئے ہے۔تجسس اور انتظارسے معمور یہ سلسلہ اہلِ اردویا شناشانِ ریختہ کی نظر میں قدرو منزلت کاحامل ہے کیونکہ یہ ایسا آئینہ ہے کہ جب بھی اس میں دیکھیں تو اپنا ہی چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ بہر حال اس سلسلے نے بھی کر وٹ لی اورمملکت کی جغرا فیا ئی حدود کو پار کر تا ہوا ’’ہوا کے دوش پر‘‘ہمارے سامنے آکھڑا ہوا ۔آج لکھنے بیٹھے تو یو ں لگا:
تجھ کو لکھو ں تو ایسا لگتا ہے
 جیسے خو شبو میں رنگ ملتے ہیں
 جیسے صحرا میں آ گ لگتی ہے
جیسے با رش میں پھو ل کھلتے ہیں
آج ہم دخترِ مشرق’’ڈاکٹرعمرانہ مشتاق‘‘سے آغاز تکلم کر نے والے ہیں ۔وہ دیس سے تشریف لا ئی ہیں اورپردیس میں ہمارے سامنے براجمان ہیں۔ان کا ’’نِک نیم‘‘ مانی ہے۔ گو پردیس میں ان کا آناجانا ہے مگر لاہور مستقل ٹھکانہ ہے۔ وطن کی فضائوں میں ان کی شاعری کی خو شبو بآ سا نی محسوس کی جا سکتی ہے ۔زندگی کی قدرو قیمت اور منز ل مراد تک رسائی یا عدم رسائی ایسے مو ضو عات ہیں ِ جنہیں وہ با ر بار دہرانا پسند کر تی ہیں۔
اس ہمہ جہت و ہمہ صفت خا تو ن سے گفتگوکر کے ان کی خوش مزاجی و خوش ذوقی کا احساس ہو جا تا ہے۔
اردو نیوز کاسن کر بہت خوش ہو ئیں اوربے اختیار گویا ہو ئیں کہ:
 نیا دیار ، نئے لوگ، اچھے لگتے ہیں
 یہ دل کے پیار سے سنجو گ، اچھے لگتے ہیں
جنہوں نے دنیا سمیٹی وہ لوگ اور ہی تھے
لیا جنہوں نے کبھی جوگ اچھے لگتے ہیں
 جفا و جور تو ہو تے ہیں ہر زما نے میں
 جو لیں گے ہنس کے انہیں بھو گ اچھے لگتے ہیں
قرینے پیار کے کتنے عجیب ہیں ما نی
جدا ئیو ں کے سبھی رو گ اچھے لگتے ہیں
ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کہنے لگیں کہ اردو ادب تو وراثت میں ملا ہے ۔ میری والدہ سیدہ سکینہ فرحت شا عرہ ، حا فظہ اور قار یہ تھیں۔آنکھ کھولتے ہی میں نے اپنے گرد کتا بیں ،قلم اور اوراق دیکھے ۔وہ اکثر کچھ نہ کچھ لکھتی ہی نظر آتیں۔ہم پو چھتے تو کہتیں بٹیا جا نی ! جب بھی کو ئی آمد ہو تی ہے یا کو ئی سو چ آتی ہے فو ری نو ٹ کر لیتی ہو ںمبا دا بھو ل جاؤں ۔ والد سید مشتا ق حسین پو لیس افسر ہو نے کے ناتے بہت مصروف رہتے تھے۔ ان کی پو سٹنگ مختلف شہرو ں میں ہو تی رہی۔اس طرح ہم بھی ان کے ساتھ ہی گھو متے رہے۔ہم9بہن بھا ئی ہیں، ما شاء اللہ ۔ایک بڑے بھا ئی حال ہی میں فوت ہو گئے ۔
اللہ تعا لیٰ انہیں جنت ا لفر دوس میں جگہ عطا فرمائے ،آمین۔میری والدہ تعلیم یا فتہ اور با ہمت خا تون تھیں۔گھر گر ہستی اور اولاد کی تر بیت پر اپنا آرام و سکون نچھا ور کئے رکھتی تھیں۔آج جب اپنی ذمہ داریو ں اور مصروفیات کا ان سے موازنہ کر تی ہو ں تو سو چتی ہو ںکہ نہ جا نے ما ں سو تی کب تھیں ؟ ہم6بہنیں ہیں۔ سبھی اعلیٰ تعلیم یا فتہ ہیں۔ تیسرے نمبر کی بہن’’گائناکالوجسٹ‘‘ ہیں اور فوج میں بریگیڈ یئر ڈاکٹر ہیں۔باقی مجھ سمیت سب کے سب ایجوکیشنسٹ ہیں۔2 بہنیں آجکل کینیڈا میں ہیں۔ بھا ئیوں میں 2 ماہر قانون ہیں ،سید نعیم ا لحسن شیرازی اور سید عمران ا لحسن شیرازی جبکی تیسرا بھائی ڈاکٹر محمد اویس شیرازی ، آر تھو پیڈک سرجن ہیں اور آجکل پنجاب یو نیور سٹی کے میڈ یکل کالج کے ڈ ین ہیں ۔ گریجویشن تک میں نے گو جر نوالہ میں تعلیم حاصل کی ۔ اس کے بعد ایم ایس سی ، ا یم فل اور ڈاکٹریٹ، پنجاب یو نیو ر سٹی سے مکمل کی۔
تعلیمی کریئر بہت اعلیٰ رہا ۔ادبی پرو گرا مو ں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جغرا فیہ جیسے ادق مضمون کو پڑ ھنا اور پڑ ھا نا مجھے پسند ہے جبکہ اکثر لوگ اسے خشک اوربور کہہ کر منہ بنا لیتے ہیں ۔ آج کل میں گو رنمنٹ کا لج یو نیورسٹی میں تد ریسی فرا ئض ادا کر رہی ہو ں ۔ ادب و شاعری کے حوالے سے ہمارے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عمرانہ مشتاق نے کہا کہ میں ا سکول کے زمانے سے ہی شاعری کرنے لگی تھی ۔والدہ سے اشعار کی تصحیح کرا لیتی تھی۔اس طرح منجھتی گئی۔حقیقت تو یہ ہے کہ شا عری ایک ایسا ہنر ہے جسے حا صل کرنے کا خیا ل آناسطحی انداز نظر رکھنے والے کی نیت میں فتور کا نتیجہ ہو سکتا ہے ورنہ شاعری توقدرت کی ودیعت ہے۔
دوسر ے لفظوں میں یو ں کہنا چاہئے کہ یہ قوت درحقیقت تخلیق کا استعا رہ ہے اور اس کا تعلق شعور کی رفعت نا دیدہ سے ہے۔یہا ں ڈاکٹر عمرانہ کچھ لمحے کے لئے رُک گئیں پھر ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہنے لگیں کہ والدین کو بیٹیوں کو رخصت کر نے کی بھی فکر لگ جا تی ہے چنا نچہ ہم نے یہ فر ض بھی نبھایا۔ ڈاکٹر عمرانہ مشتاق نے اپنی ازدواجی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر سید غلام محمد میری زندگی میں بہار بن کر آئے۔ماہ و سال گز ر تے چلے گئے۔بیٹے سید محمد احمد اور فا طمہ احمد نے ہماری ذمہ دار یو ں کا رخ مو ڑ دیا ۔
میں نے والدہ کی طرح لکھنا لکھا نا جا ری رکھا۔میری بیٹی فاطمہ اکثرمجھ سے وہی سوال کر تی تھی جو میں اپنی امی سے کر تی تھی۔پھراس نے بھی لکھنا شروع کر دیا۔تب مجھے یقین ہو گیاکہ بیٹیا ں ما ئو ں کا عکس ہو تی ہیں۔بیٹے نے انجینیئرنگ مکمل کر لی۔ ہم میاں بیوی اپنے اپنے شعبوں میں تند ہی سے مصروف رہتے تھے۔خوب سے خوب تر کے متلاشی دونوں ہی تھے ۔کا میا بیو ں کے سفر میں جب ہم سفر اچا نک ساتھ چھو ڑ جا ئے تو یقین جانئے ، بہت ہی عجیب لگتا ہے۔2009ء میری ازدواجی زندگی میں ایک طو فا ن کی مانند آیا جب میرے شوہر مجھے تنہا ئیو ں کے سپرد کر کے سفر آ خرت پرروانہ ہو گئے۔
ڈاکٹر عمرانہ گہری سانس لیتے ہوئے بو لیں:
میں اکثر پو چھتی رہتی ہو ں خود سے
یہا ں سب کچھ ہے لیکن تم کہا ں ہو
٭٭٭
مو سم ِگل میں جو یا دو ں کی ہوا چلتی ہے
 پھو ل بن جا تے ہیں سب زخم پرا نے والے
جن دنوں میرے شوہر نے مجھے تنہا ئی سونپی، ان دنو ں میں پہلے ہی 2 صد مو ں سے نڈ ھا ل تھی۔2003ء میں والدہ اور 2006ء میں میرے والد نے رخت سفر با ندھ لیا تھا ۔اس اداس ماحول سے سمجھو تہ کچھ آسان نہیں تھا ۔ایسے میں میرے سامنے ایک ہی شاعری کا ایک ہی راستہ تھاچنانچہ یہ شاعری میری آخری سہیلی اور تنہا ئیو ں کی سا تھی کی صورت میں میرے ہمقد م ہو ئی اور وہ دکھ اور باتیں جو میں نے خود سے بھی پو شیدہ رکھی تھیں،شا عری میں بیا ن کر ڈالیں۔مجھ پر یہ راز کھلا کہ قلم انسان کو حو صلہ عطا کرتا ہے اور جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔
مجھے اکثر اپنے گرد کے لو گوں اور چیز و ں سے وحشت ہو تی ہے۔میں شا عری میں پنا ہ ڈھو نڈ تی ہوں۔جب گھبرا تی ہو ں تو شاعری مجھ سے سر گو شی کر تی ہے اور کہتی ہے کہ ’’ میں ہو ں ناں۔‘‘ ہم نے عمرانہ کے لئے کا فی منگوا لی۔وہ گرم سپ لیتے ہو ئے بو لیں،شکر یہ،یہ تو بہت اچھا کیا ،اس کی ضرورت میں محسوس کر رہی تھی۔قلمکا ر احساسات اور چہرے کے تا ثرات جاننے کے فن سے بخوبی وا قف ہو تے ہیں۔
گفتگو کا سلسلہ پھر شروع ہوا ۔ما حول خالص ادبی ہو رہا تھا ۔ ڈاکٹر عمرانہ کہنے لگیں کہ میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہو ں تو دن، مہینے، سال خشک پتو ں کی طرح ز ند گی کی شا ہراہ پراڑ تے ہو ئے نظر آتے ہیں،اس سے کسی حد تک مطمئن بھی ہوں۔میںنے سچ کا آ نچل اپنے سر سے سر کنے نہیں دیا ۔اپنی ذ مہ دار یو ں کو ایما ندا ری اور اعتماد کے ساتھ ادا کیا۔ادبی سفر کو خوب سے خوب تر سے ہمکنا ر کر نے کی ہر لمحہ جستجو ہے۔
اب تک میری 10تخلیقات منظر عام پر آ چکی ہیںجس کے لئے میں اللہ تعالیٰ کی شکر گزار ہو ں۔شا عری کے 5 مجموعے ،’’ ہجر کا عذاب، اماوس، کر ب ِ جاں ،سمندر میں ستارہ ،لیکھا ں دی پھلواری‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ان کے علاوہ کالموں کا مجمو عہ’’دل کی بات‘‘،’’اس شکل کو میںنے بھلا دیا ‘‘منیر نیا زی ،یا دیں اور باتیں ،ناول ’’وقتو ں کی پستی میں ‘‘ اورسفر نامہ ’’ با ڑ ھ میں پھول‘‘ بھی میری تصانیف ہیں۔میں منفی رویوں پر یقین نہیں رکھتی ۔میرا کسی کے ساتھ کو ئی مقا بلہ نہیں ،خود آ نے والے کل کے لئے کو شا ں رہتی ہو ں۔عمرانہ مشتاق نے اپنی شاعری بہت ہی خوبصورت انداز میں سنا ئی۔اقتباس آپ کی نذر:
جیسے جیسے میری ہر سو شہرتیں بڑ ھتی گئیں
 دوست حاسد بن گئے اور سا ز شیں بڑھتی گئیں
راستہ آسان سے آسان تر ہو تا گیا
جو رکا وٹ تھے ،انہی کی مشکلیں بڑ ھتی گئیں
 رفتہ رفتہ دوستوں کے روپ جب کھلنے لگے
میں تو گم صم ہی رہی ،پر حیر تیں بڑ ھتی گئیں
میری آنکھوں نے نمی کی رت کبھی دیکھی نہ تھی
اس نے جا نے کیا کہا ، جو با ر شیں بڑ ھتی گئیں
میں تو عمرانہ ہو ئی ،خود میں اکیلی روز و شب
اور میرے چار جا نب صور تیں بڑ ھتی گئیں
ڈاکٹر عمرانہ مشتا ق بہت کم دنو ں کے لئے مملکت آئی ہیں۔رمضان کر یم کے بعد کچھ تنظیمیں منتظر ہیں کہ ان کی شا عری سے محظوظ ہوا جا ئے۔ان کی بیٹی فاطمہ احمد اور داماد ڈاکٹر کا شف رفیق مملکت میں ہی مقیم ہیں۔ان سے بھی ملا قات رہی ۔فا طمہ احمد نے کہا کہ ماما کی قربت میں جہاں میں نے بیٹی ہونے کے ناتے تر بیتی مرا حل طے کئے وہاں ادب شناس بھی ہو تی چلی گئی ۔گھر کے ما حول نے مجھ میں نکھار پیدا کیا ۔وہ صحافی ،کالم نگار ،اینکر پر سن،شاعر اور ادیبہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے مضمو ن کی بہترین پرو فیسر تسلیم کی جا تی ہیں۔طلباء و طالبات میں ہر دلعزیز ہیں ۔یو ایم ٹی، پریس فورم کی کنو ینر ،پا ئین ا ادبی فورم کی میڈ یا کوآر ڈ ینیٹر ، انٹر نیشنل را ئیٹرز کو نسل کی چیئر پر سن ، تفکر ڈاٹ کام ویب سائٹ کی مد یر اعلیٰ اور میڈ یا را ئٹرز کو نسل کی ایگز یکٹو ممبر ہو نے کے باعث ماما خاصی مصروف رہتی ہیں ۔انہیں کئی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔
ما سٹرز کے طلباء نے ماما کی شاعری پر تھیسس بھی لکھا ۔ماما زیادہ تر اپنی وکٹ ، یعنی سیف زون پر کھیلتی ہیں اور اپنی بنا ئی ہو ئی دنیا میں خوش رہتی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ما حول انسان کی پر ورش کر تا ہے۔ مجھے بھی ماحول نے اینکر اورمصنفہ بنا دیا ۔ ڈاکٹر کا شف رفیق نے اپنی بیگم کی بات اُچکتے ہو ئے کہاکہ فاطمہ کی2 تصانیف ’’میری دعا تم ہو‘‘ اور’’ لو گ اس کا جواب کیا دیں گے‘‘منظر عام پر آ چکی ہیں۔انہو ں نے کالم بھی لکھے اوربطور صحا فی و اینکر اپنا لو ہا منوایا۔میری اہلیہ گھر گر ہستی کو نہایت سلیقے اورجدید انداز میں سنبھالتی ہیں جس پر میں ماما عمرانہ کا مشکور ہو ں جنہوں نے بیٹی کی اس نہج پر تر بیت کی کہ آج وہ میری بیوی بن کر ہوم سویٹ ہوم کا خواب پو را کر رہی ہیں ۔ فاطمہ احمد ، اپنے شو ہر کی زبان سے تعریف سنکر محظوظ ہو تے ہوئے بو لیں کہ ڈاکٹر کاشف بھی ادبی ذوق رکھتے ہیں جس پر میں اپنی قسمت پر رشک کر تی ہو ں۔
مزا جو ں کی مطا بقت سے زند گی حسین ہو جا تی ہے ،ماما نے کیا خوب کہاہے کہ :
راستہ اچھا نہیں ہے اور شجر اچھا نہیں
 ہم سفر اچھا نہیں ہے تو سفر اچھا نہیں
ڈاکٹر کاشف کی 3 کتا بیں شائع ہو چکی ہیں؟’’ اداس رات کا چاند‘‘، کبھی آباد تھا یہاں اک شہر‘‘اور’’میرا ہر خواب سچا تھا ‘‘۔ ہم دونوں تفریحی لمحو ں میں اپنے اس شوق کی تکمیل کر تے ہیں۔ہم دو ہی بہن بھا ئی ہیں۔بھا ئی سید محمد احمداور بھا بی مر یم محمد بھی ادب سے شغف رکھتی ہیں۔میری دعا ہے کہ میکے کی یہ مثلث صدا سلا مت رہے، آمین۔
ڈاکٹر عمرانہ مشتاق نے پھر سلسلۂ گفتگوشروع کیا تو بولیں کہ میں شاعری میں ترش لہجے سے گریز کر تی ہو ں ۔محبت کو جذ بو ں کی تہذیب کا وسیلہ جا نتے ہو ئے سخت بیا نی کو انداز تکلم سے سیراب کرتی ہو ں۔تنے کی کر ختگی پر نہیں بلکہ درخت کی اس کو نپل پر نگا ہ رکھتی ہو ں جس کے بل بوتے پر تنا ، تنا بنا ۔ میں تتلی کو پکڑ نے کے لئے تلوار کا سہا را نہیں لیتی بلکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ تو پھول کی نرم و نا زک پتیو ں اور خوشبو سے ہی ہا تھ میں آ جا ئے گی ۔ معا شرے کے کھرد رے پن ،آہنی رویوں ،غیر آسودہ حرکات اور دیگر خود ساختہ سا ما ن ِ دل نوازی کو مخمل کا غلاف چڑ ھا کر ادبی منظر کا حصہ بنا نے کی کو شش کر تی ہو ں ۔ ڈاکٹر عمرانہ نے ہماری درخواست پر خوا تین کے نام پیغام میں کہا کہ : عورت کا ایک اپنا مقام ہے۔
اس ہستی کی ہمہ جہتی کا اندازہ لگا نا مشکل ہے۔اسکی چاہت ،محبت اور خلوص کا ذکر کریں تو لا زوال، اس کی تر بیت پر غور کریں تو بے مثال ، اس کے سلیقے کی تعریف کریں تو باکمال ۔ زند گی کی مشکلات ،نا مسا عد حالات اور چا رو ں جا نب کے اندھیر ے اسے ایک ایسی چٹان بنا دیتے ہیں جس سے ٹکرانا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ اسے ہمیشہ استقامت کے ساتھ آ گے بڑ ھنا ہے ۔منز لوں تک رسائی اس کے لئے نا ممکن ہر گز نہیں:
تسلیم کرے اس کی بڑا ئی کو زما نہ
گھر میں ہو کہ دنیا میں ہو ،مخدوم ہے عورت

شیئر: