Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہائے رے سادگی

ہائے رے سادگی ؟ اُف یہ ادا ؟ قربان اس پرکاری کے اور آفرین دنیا بھر کو سائنس پڑھانے والے اس دماغ پر
* * * *وسعت اللہ خان * * *
صرف میں ہی کیا دسویں درجے کے کسی بھی ہم جماعت کو اچھے خاصے اشعار ازبر ہوتے ہوئے بھی میر صاحب کا یہ شعر اٹک جاتا تھا۔ *مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو *کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا اردو کے استاد نے پھر یوں سمجھایا۔ ’’ مگس شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔وہ باغ میں جا کے پھولوں سے رس چوستی ہے۔ کچھ رس موم میں بدل جاتا ہے جس سے چھتہ بنایا جاتا ہے اور کچھ رس شہد میں بدل جاتا ہے۔جب چھتہ توڑا جاتا ہے تو شہد کو موم سے الگ کرلیا جاتا ہے۔ موم سے شمع بنتی ہے اور جب شمع جلتی ہے تو پروانہ لپکتا ہے اور جل جاتا ہے لہذا مکھی باغ میں نہیں جائے گی تو ر س نہیں چوسے گی۔ رس نہیں چوسے گی تو چھتہ بھی نہیں بنے گا، چھتہ نہیں بنے گا تو موم بھی نہیں بنے گا، موم نہیں بنے گا تو شمع بھی نہیں بنے گی،شمع نہیں بنے گی تو جلے گی بھی نہیں،جلے گی نہیں تو پروانہ نہیں لپکے گا اور پروانہ نہیں لپکے گا تو ناحق جلے گا بھی نہیں، آیا کچھ سمجھ شریف میں ؟؟ اور پھر ایسا آیا سمجھ شریف میں کہ یہ شعر وہ عدسہ ہو گیا جس کو کسی بھی مسئلے پر فٹ کرکے اس کی جڑوں تک جایا جا سکتا ہے۔
مثلاً یورپی طاقتیں اگر لاطینی امریکہ ، افریقہ اور ایشیا کو غلام بنانے کے بجائے ان سے تجارتی تعلقات رکھتیں تو یورپ کے ساتھ ساتھ باقی دنیا بھی مساوی پھلتی پھولتی اور پسماندگی و ترقی برابر برابر بٹتی۔ وسائل کی لوٹ کھسوٹ کی لالچ ، توسیعِ سلطنت کی ہوس اور اپنا نظریہ دوسروں کے لئے بھی بہترین فرض کرکے دوسروں کی نفسیات و حالات سمجھے بغیر ٹھونسنے کی اندھا دھند کوششوں نے وہ حالات پیدا کئے جن کے نتیجے میں لالچیوں کے درمیان ہی پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی اور پھر اس میں نوآبادیات کو بھی گھسیٹ لیا گیا اور جو فاتح بنا اس نے اس جنگ کی تباہ کاری سے سبق سیکھنے کے بجائے مزید بے انصافیاں کیں اور لڑاؤ ، تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پرانی پالیسی کو قلعی کرکے دوبارہ نافذ کردیا۔
مصنوعی جغرافئیے تخلیق کئے گئے اور ان میں اصل نمائندہ مقامی قوتوں کو آگے پیچھے، دائیں بائیں دھکیل کر جگہ جگہ کٹھ پتلیاں بٹھا دیں۔کچھ اشاروں پر ناچتی رہیں کچھ موقع پا کے ہاتھ سے نکل گئیں۔ چلئے سامراجیوں سے پہلی جنگ کے دورانیہ میں بلنڈر ہو ہی گئے تھے تو پھر دوسری عالمی جنگ کے عواقب سے ہی کوئی سائنسی نتیجہ اخذ کر لیتے مگر انہوں نے بین الاقوامی تعلقات کے منفی آداب کو تجزیہ کی کسوٹی پے پرکھ کے کوئی مثبت پروڈکٹ ڈھالنے کے بجائے باقی دنیا کو حسبِ سابق اپنی تجرباتی لیبارٹری سمجھا اور ساری تحقیقی توانائی اس پر صرف کر دی کہ ببول کی جھاڑی سے سیب کیسے اتارے جاسکتے ہیں۔ 1979ء میں جب سوویت یونین کسی مغالطے کا شکار ہو کر افغانستان میں کود ہی پڑا تھا تو غیر جنگی طریقوں اور تادیبی کارروائیوں سے پسپا کرنے کے بجائے غیر اعلانیہ جنگ کی راہ اپنائی گئی اور دنیا کے 70سے زائد ممالک کے ایک لاکھ جنگجوؤں ( 60 ہزار غیر پاکستانی ) کو 8 برس تک اسلحہ ، تربیت اور مہمان نوازی فراہم کی گئی۔
جنگی خام مال کی تیاری کے لئے نظریاتی کارخانے قائم کئے گئے اور ان کارخانوں کی بھٹی شدت پسند نصاب سے گرم رکھی گئی جو جو حکومتیں جن جن لوگوں سے تنگ آئی ہوئی تھیں ان سب کو پاکستان اور افغانستان کی جانب بخوشی دھکیل دیا گیا۔یوں 5 ارب ڈالر کے صرفے سے سوویت یونین پسپا ہوگیا۔ پسپا کرنے والے اتنے خوش ہوئے گویا کوئی بیش بہا قسمت پلٹ نسخہ ہاتھ آگیا ہو۔ انہیں یاد ہی نہ رہا کہ جن جہادی رضاکاروں کو 8 برس تک پالا ان کی ڈی موبلائزیشن اب کیسے ہوگی اور انہیں سماج میں دوبارہ کیسے جذب کیا جائے گا۔باراتی فتح کی دلہن کے ساتھ واپس لوٹ گئے مگر کارندے ساتھ لے جانا بھول گئے۔ یوں مجاہدین کی کوکھ سے طالبان اور القاعدہ کا جنم ہوا۔
طالبان نے اپنے علاقے تک قناعت کی مگر القاعدہ والے مہمان کہاں جائیں ؟ لہذا وہ انٹرنیشنل مفرور ہو گئے۔عسکری تربیت یافتہ اپنوں کے ہی دھوکے کے ڈسے مفرور جنہیں اسلحہ چلانے اور قتل کے سوا کوئی ہنر بھی تو نہیں آتا تھا۔ گھر واپسی کے دروازے بند ہوئے تو کبھی سوڈان میں ، کبھی افغانستان میں ، کبھی صومالیہ میں کبھی مغربی افریقہ میں اور پھر خوش قسمتی سے انہیں عراق ، شام اور لیبیا کی زبردستی توڑ دی جانے والی ریاستوں کی آپا دھاپی کی دھول میں ایک مضبوط و محفوظ ٹھکانہ میسر آگیا۔ نائن الیون کے بعد بھی عقل نہ آئی اور مغربی ماہی گیروں اور ان کے چھوٹوں نے عدم استحکام کے سمندر سے مطلوب ’’ ماضی کے دوستوں اور حال کے دھشت گردوں ’’ کو پکڑنے کے لئے جو جال پھینکا تو اس میں آکٹوپس تو برائے نام پھنسے مگر ادھر اُدھر کے کیکڑے ، مچھلیاں ، جھینگے ، لابسٹر زیادہ اٹک گئے۔
سائنس کا بنیادی اصول ہے کہ ایک تجربے سے جو نتیجہ حاصل ہو جائے اسی تجربے کو اگر 100 بار بھی دھرایا جائے تو نتیجہ وہی نکلے گا مگر مغرب کے سائنسی دماغوں نے افغان تجربے کو ایک بار نہیں درجنوں بار پہلے سے مختلف نتیجے حاصل کرنے کے لئے جگہ جگہ دھرایا اور دھرا رہے ہیں۔ جنہوں نے بار بار ڈسا انہیں دودھ کی سپلائی میں کمی تو کیا آتی پہلے سے بھی اور بڑھ گئی مگر اب یہ کرائے کے پرانے گوریلے نہیں رہے تھے۔ اب ان کی کھال ، ولولہ اور ہدف ان کا اپنا تھا چنانچہ جنہیں مغرب اور ان کے بالشتئیے دوستوں نے دوسروں کے لئے پروان چڑھایا اور پھر دھوکہ دیا اب وہی پلٹ کے امریکہ اور یورپ تک پہنچ گئے ہیں تو چیخا جا رہا ہے کہ ہم نے تو تمہیں جنوبی ایشیا ، مشرقِ وسطیٰ اور مشرقی و شمالی افریقہ کے لئے تیار کیا تھا تم نیویارک ، لندن ، میڈرڈاور پیرس میں یہ سب کیا کر رہے ہو ؟ ہائے رے سادگی ؟ اُف یہ ادا ؟ قربان اس پرکاری کے اور آفرین دنیا بھر کو سائنس پڑھانے والے اس دماغ پر۔

شیئر: