Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی کی ہٹ دھرمی

صحیح راستہ یہی ہے کہ وزیراعلیٰ ، میئر کو اختیارات دیں اور خود صوبے کا نظم و نسق سنبھالیں، اسی میں بہتری ہے
* * * * صلاح الدین حیدر* * * *
فیض احمد ہمارے ملک بلکہ دُنیائے ادب کی بہت بڑی شخصیت تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اپنے بارے میں کچھ کہنا، اچھی بات نہیں۔ بات بھی صحیح ہے، اپنے میاں مٹھو کیوں بنا جائے۔ معاشرہ بھی اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھتا لیکن مجبوری ہے کہ آج مجھے ایک قصّہ دہرانا پڑ رہا ہے۔ یہ 2004 ء یا 2005 ء کی بات تھی، میں صوبۂ سندھ میں وزیر اطلاعات تھا۔ بانی متحدہ کی سالگرہ پر ایم کیو ایم نے اخبارات میں ضمیمے شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے ذمے داری سونپی گئی کہ کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ ایم کیو ایم کے پاس سندھ میں 12 اور وفاقی حکومت میں 2 وزیر تھے۔ پارٹی کی روایت کے مطابق میں نے ہر وزیر سے اشتہارات کی درخواست کی تاکہ ضمیمہ نکالا جاسکے۔ سارے وزراء نے موقع کے لحاظ سے اشتہارات میں بانی متحدہ کو مبارک باد بھی دی۔ ضمیمے صوبے کے تمام اخبارات میں چھپے۔
دوسرے دن جیسے قیامت آگئی۔ سندھ میں اپوزیشن لیڈر نثار کھوڑو اور وفاق میں پیپلز پارٹی نے آسمان سر پر اُٹھالیا کہ ایک سیاسی پارٹی کے لئے قومی خزانے کو استعمال کیا گیا۔ بانی متحدہ کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں تھی۔ پارٹی کے کنوینر ڈاکٹر عمران فاروق اُس وقت حیات تھے، اُنہوں نے مجھے اور تمام وزرا ء کو ہدایات جاری کیں کہ وہ اشتہارات میں پیسے اپنی ذاتی اکائونٹ سے ادا کریں۔سرکاری خزانے سے پارٹی کے لئے رقم نہیں نکالی جاسکتی۔ اصولاً تو بات صحیح تھی لیکن پاکستان میں کبھی اصول چلتے بھی ہیں کہ نہیں۔ اسی بات پر تو ہمیں یہاں غور کرنا ہوگا۔ معاملات تو سنبھل گئے۔ کئی وزرا ء نے اپنے ذاتی اکائونٹس سے ڈھائی سے 3 لاکھ روپے تک ادا کئہ، کچھ نے بعد میں ادا کئے لیکن آج میں حیران رہ جاتا ہوں جب قریباً روزانہ ہی اخبارات میں سندھ حکومت کی طرف سے شائع ہونے والے اشتہارات میں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر، آصف زرداری اور بلاول کی تصاویر لگی دیکھتا ہوں، اُن میں سے کوئی بھی حکومت کا حصّہ نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ملک کے 6سال صدر اور وزیراعظم رہے۔ آصف زرداری 5 سال تک کرسیٔ صدارت پر براجمان رہے، محترمہ بے نظیر 2 بار وزیراعظم کے عہدے پر رہیں لیکن موجودہ حالات میں تو زرداری صاحب کے پاس حکومت کا کوئی بھی عہدہ نہیں۔ پھر وہ یا اُن کے ساتھ بلاول بھٹو کس اصول کے تحت سرکاری خزانے سے جاری کئے جانے والے اشتہارات میں اپنی تصویریں چھپواتے ہیں۔
کہاں گئی وہ پیپلز پارٹی جس نے ایم کیو ایم کے خلاف ایک پورا محاذ کھول ڈالا تھا۔ آج اُسے اصول کیوں نظر نہیں آتے۔ یہ صریحاً ہٹ دھرمی نہیں تو اور کیا ہے۔ ایک چھوٹی سی خبر ضرور چند روز پہلے اخبار کی زینت بنی کہ ایک شخص نے اپنی ذاتی حیثیت میں ایسی اشتہاراتی مہم کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے، دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے پیپلز پارٹی کو سبکی ہوئی ہو لیکن سونے پر سہاگہ تو یہ کہ بلاول بھٹو پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے زیر تعمیر منصوبوں کی پرچم کشائی کررہے ہیں۔ اُن کی سرکاری حیثیت تو کوئی نہیں۔ پارٹی الگ چیز ہے، حکومت الگ۔ اب کیوں کوئی سوال نہیں اُٹھاتا کہ حضور! آپ کس حیثیت میں سرکاری خرچے پر سرکاری منصوبوں کی رسموں میں شریک ہوتے ہیں اور پھر مہمان خصوصی، یہ قوم کا پیسہ ہے۔ پارٹی کے منصوبے نہیں کہ آپ اُس کے لیڈر کی حیثیت سے اُن کا افتتاح کریں یا رسمِ ادا کریں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ایم کیو ایم بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اُن کا میئر بے چارہ روز صدائے احتجاج بلند کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ ہائے مر گئے، ہائے مر گئے۔ اختیارات نہیں ہیں،پیسے نہیں ہیں۔
کراچی لاوارث ہوگیا ہے۔ 38 میں سے 36 فائر ٹینڈرز بیکار پڑے ہوئے ہیں۔ آگ لگنے کے واقعات ہوتے ہیں تو فائر ٹینڈرز نیوی، کراچی پورٹ ٹرسٹ یا دوسرے اداروں سے منگوانا پڑتے ہیں۔ کچرے کے ڈھیر سے لوگوں کا بُرا حال ہے، ایک چینی کمپنی کچرا اُٹھانے آئی تھی وہ بھی ناکام ہو کر چلی گئی،یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ پاکستان کو اس وقت بیرونی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ کسی بیرونی کمپنی کا آکر چلا جانا، غلط پیغام دُنیا کو دے گا۔ دوسرے اگر غلطی کریں تو شور شرابے سے قوم کو دہلا دیا جائے، خود کچھ کریں تو اُن کی مرضی۔ مگر ہم اعتراض کیوں کرتے ہیں۔ پاکستان میں تو جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا اصول روزِ اوّل سے لاگو ہے۔ یہ اور بات ہے کہ قائداعظم نے 47 روپے کی کرسی فاطمہ جناح کیلئے سرکاری خزانے سے خریدے جانے پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور فوراً حکم دیا کہ یہ رقم محترمہ فاطمہ جو اُن کی چھوٹی بہن تھیں، کے ذاتی اکائونٹ سے ادا کی جائے۔
47 روپے کی حقیقت ہی کیا، لیکن اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ اگر آج ہم اپنے اوپر اس زریں اصول کو لاگو کرلیں تو شاید پاکستان ایک اور ہی نیا ملک بن جائے لیکن کاش ایسا ہوتا۔ صرف حسرت بھری آہیں ہی بھر سکتے ہیں۔ ہمیں بھی معلوم ہے کہ رونے گانے سے کچھ نہیں ہوگا، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی لیکن بہرحال آواز بلند کرنا ہمارا فرض ہے۔ آخر غالب کے اصولوں کہ ’’لکھتے رہے جنوں کی حکایتِ خونچکاں۔ ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے‘‘ کا لحاظ تو رکھنا پڑے گا۔ کراچی، کہنے کو تو عروس البلا د ہے، روشنیوں کے شہر کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے لیکن بدبو، تعفن، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، پانی کی نایابی، رمضان کے مہینے میں بجلی کی آنکھ مچولی، لوگ سحر اور افطار اندھیرے میں کرنے پر مجبور اور روم کے نیرو کی طرح ہم بھی بانسری اگر نہیں بجاتے لیکن وزرا ء اور ارکان پارلیمنٹ سب اچھا ہے کی رَٹ لگانے میں ذرّہ بھر بھی شرم نہیں محسوس کرتے۔ مثل مشہور ہے کہ شرم اُن کو مگر نہیں آتی۔
یہ پوری طرح کراچی پر صادق آتی ہے۔ میئر بے چارہ بے اختیار، بغیر پیسے کے در، در مارا مارا پھرتا ہے کہ کوئی اُس کی مدد کر دے لیکن وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ مُصر ہیں کہ کراچی اُن کا ہے اور وہی اس کے وارث اور مالک ہیں، جو کچھ کریں گے، وہی کریں گے، وہ کہتے ہیں کہ میئر کو قانونی اختیار جو ہیں وہ حاصل ہیں۔ اُس سے زیادہ ہم اور کچھ نہیں دے سکتے۔ تو حضور قانون تو آپ نے بنایا، مشرف نے اپنے دورِ حکومت میں بہترین قانون نافذ کیا تھا، جہاں لوکل یا مقامی حکومتیں بااختیار تھیں، اسی لئے تو مصطفی کمال نے کراچی کی شکل بدل ڈالی۔ آج اُن کے لگائے ہوئے باغات کلفٹن اور دوسرے علاقوں میں سوکھ کر پیلے اور زرد ہوگئے ہیں، خاک اُڑ رہی ہے وہاں۔ سبزہ زار، غنچے، کلیاں سب ہی سسکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ صرف ضد نہیں تو اور کیا ہے لیکن اس ضد سے فائدہ، کراچی تو اُجڑ گیا، بالکل ویسے ہی جیسے 1857ء کے غدر کے بعد دلّی اُجڑی تھی۔ وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ سے درخواست ہے کہ کراچی کے حالات پر رحم کریں۔ میئر ہی شہروں کا انتظام چلاتے ہیں، صوبے کے وزیراعلیٰ کے پاس اور دوسری بہت ساری ذمہ داریاں ہیں، اُن پر توجہ دیں۔ اکثر لوگوں کی یہی رائے ہے کہ کراچی میں کام صفر ہے یہ اور بات کہ پیپلز پارٹی کے وزیر صاحب نے گلیوں اور سڑکوں پر بینرز آویزاں کردئیے ہیں کہ یونیورسٹی روڈ بن گئی، فلاں پروجیکٹ ایسا ہوگیا۔ فلاں پروجیکٹ پر اتنی رقم خرچ ہوگئی، پانی کے منصوبے K-4 پر تیزی سے کام جاری ہے۔ یہ سب باتیں کھوکھلی ہیں۔ صحیح راستہ یہی ہے کہ میئر جسے عوام نے منتخب کیا ہے، اُسے اختیارات دیں اور خود صوبے کا نظم و نسق سنبھالیں، اسی میں بہتری ہے۔

شیئر: