Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”مقدر اعزاز“

شہزاداعظم
ہمارے ایک دوست تاریخ نویس ہیں، ویسے تو نام انکا ”مقدر اعزاز“ ہے مگر ہم جیسے لنگوٹیوں میں وہ ”ایم ای“ کے طور پر مشہور ہیں۔ دوران تمحیص انہیں صرف ”می“ کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے۔چند روز قبل وہ مملکت آئے تو ان سے ہماری ملاقات ہوگئی۔ 24برس بعد انہیں دیکھا تو حیران رہ گئے کیونکہ ان کی شکل اور چال ڈھال میں تو کافی تبدیلی آگئی تھی مگر اعمال ماضی جیسے ہی تھے کیونکہ آج بھی وہ اُسی انداز میں معلوماتی بحث کے دوران حیرت انگیز عقدے وا کئے جا رہے تھے جیسے ربع صدی قبل کیا کرتے تھے۔ہمیشہ کی طرح آج بھی ان کا موضوع دورِ آفرینش کا دورِ حاضر سے موازنہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ پتا ہے ہزاروں برس قبل جب انسان ایک دوسرے سے روابط استوار کر رہے تھے، محبتوں کا اقرار کر رہے تھے، اپنائیت سے آشنا ہو نے کےلئے آنکھیں چار کر رہے تھے، اپنے ارد گرد پھیلی کائنات کا سنگھار کر رہے تھے،اُس دور کو ”اسٹون ایج“کہا جاتا ہے اور آج جب انسان آبادیوں کو ویران کر رہے ہیں،ہم نفسوں کو پریشان کر رہے ہیں، معصوم عوام پر ظلم صاحبان کر رہے ہیں،بھوک سے مجبور والدین اپنی اولاد قربان کر رہے ہیں، ہم حیوانیت کو حیران کر رہے ہیں، اس دور کو ”بایوفیج“یعنی ”زندگی کو نگل جانے والا دورکہا جاتا ہے۔
”مقدر اعزاز“نے ایک اور عقدہ یہ بیان کیا کہ آج سے کئی ہزار برس قبل ایمیزون کے جنگل میںحیوانی پارلیمنٹ کا اجلاس بلایاگیا تھاجس میں روئے زمین پرپائے جانے والے تمام جانوروںکے نمائندگان موجود تھے جن میں شیر، ہاتھی اور گینڈے سے لے کر کتے شُتے، اُلو شُلو سب موجود تھے۔ اس پارلیمنٹ نے باہمی اتفاق سے ایک ”لا“یعنی قانون منظور کیا تھاجسے انہوں نے ”جنگل لا“قرار دیا تھا۔ آپ کو شاید علم نہیں ہوگا کہ یہ ”جنگل لا“ کی اصطلاح کے زباں زدِ عام ہوتے ہوتے جنگل کا ”ل“ حذف ہو گیا اور یہ لفظ ”جنگلا“ہو گیا۔ اسی لئے آج بھی خطرناک جانوروں کو چڑیا گھروں میں ”جنگلا“ لگا کر بند رکھاجاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ”جنگلا“ انسانوں اورخطرات کے درمیان حائل رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔یہ جہاں کہیں نصب ہو، اس امر کی علامت ہوتا ہے کہ اسکے پار انسانی زندگی کے لئے خطرات پائے جاتے ہیں۔
”می“ نے کہا کہ جنگل کے قانون میںسب کچھ پایاجاتا ہے۔ کھپٹ مورخین نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ انسانی دنیا کے بہت سے قوانین ، ضوابط، قواعد اور اصول تو حیوانی دنیا سے اخذ کئے گئے ہیں۔آپ یقین کریں یا نہ کریں، حیوانوں میں بھی تہذیب، تمدن، شرم و حیا، غیرت، غصہ، جھنجھلاہٹ، اکتاہٹ، افسردگی اور خوشی جیسے احساسات و جذبات پائے جاتے ہیں۔ انسانوں نے” جنگل لا“ کو ایسا بنا کر پیش کیا ہے جیسے اس میں کوئی قواعد و ضوابط سرے سے موجود ہی نہیں حالانکہ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے۔آپ ذرا غور فرمائیے کہ شیر جب کسی پسندیدہ جانور کا شکار کرتا ہے تو اس کا گوشت کچا ہی کھاتا ہے کیونکہ اس کی ”اہلیہ“ یعنی شیرنی اسے پکا کر نہیں کھلاتی۔ کچاشکار کھانے سے شیر کے دانتوں میں گوشت کے ریشے پھنس جاتے ہیں اور شیر پھسکڑا مار کرکھلے میدان میں منہ کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔فضا میں محوِ پرواز کوّے جب یہ منظر دیکھتے ہیں تو براہِ راست شیر کے کھلے منہ پر ”لینڈ“ کرتے ہیں اور اس کے منہ کے دہانے کے گرد بیٹھ کر دانتوں میں پھنسے گوشت کے ریشے نکالنے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ شیر کی مثالی ”حیوانیت“ دیکھئے کہ وہ ”خدمتِ دنداں“ پر مامور کوّوں کا بال بھی بیکا نہیںکرتاحالانکہ عام حالات میں کسی کوّے شوّے کی مجال نہیں ہو سکتی کہ وہ شیر کے آس پاس پھٹک جائے تاہم کوئی کوا اگر یہ جرا¿ت کربیٹھے تو وہ اُس کی زندگی کی آخری ”حرکت“ شمار ہوتی ہے اور بے چارہ حیوانی تاریخ کا حصہ بن کر رہ جاتا ہے۔
عالم حیوانات کی مائیں اپنی تمام مذکر و مونث اولادوں کوتربیت کے دوران یہ باور کراتی ہیں کہ مرتے مر جانا مگر ”حیوانیت“ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا کیونکہ ہم حیوان ہیں اور ”حیوانیت“ ہی ہمارا خاصّہ ہے۔ اگر ہم نے اس کا دامن چھوڑ دیا تو ہم انسانوں کے غلام بن جائیں گے۔میں وہ منظر آج تک نہیں بھول سکا جب میں” سندر بن“ میںایک مچان پر بیٹھا مونگ پھلی کھا رہا تھا اورکچھ دوری پر ایک شیرنی اپنے بچوں کودرسِ حیوانیت دیتے دیتے آبدیدہ ہوگئی تھی۔ وہ بتا رہی تھی کہ بچو! تمہارے پاپا کو انسانوں سے محبت ہوگئی تھی۔وہ کسی بھینس یابکری کی طرح بالکل ہی چوپایہ بن کر دوپایہ یعنی انسانوں کے قریب تر ہوتے گئے اور پھر ایک روز انسان تمہارے ”ابو“ کو وین میں ڈال کر لے گئے۔ یہ سن کر بچوں کی آنکھوں میں بھی آنسوآگئے۔ سب نے یک زبان ہو کر دریافت کیا کہ ”ماما! اب ہمارے پاپا کہاں ہیں؟“ اس شیرنی نے آہیں بھرتے ہوئے کہا کہ آج کل ”میرے سرتاج“ لاہور کے چڑیا گھر میں زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں اور میں ایک ”سہاگن بیوہ“ کی طرح یہاںسسک رہی ہوں۔”می“ نے کہا کہ میں نے” حیوانی تہذیب “سے جو کچھ اخذ کیا، اس میں ایک یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ انسان جنگل میں رہ کر ”جنگل لا“سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اسی طرح حیوان بھی شہروں میں رہ کر انسانی قانون سے متاثر ضرور ہوتا ہے۔ چند روز قبل میں نے عجب منظر دیکھا،ایک طاقتور ، بردبار اور جسیم بلے نے انتہائی کم عمر، کمزور اور مختصر بلے کوہلکی سی میاﺅں اور پنجے کے ”تھپڑیلے “ اشارے سے کسی بات پر دھمکانے کی کوشش کی اور اسے للکارا کہ اگر تیرے اندر ہمت ہے تو مجھ سے پنجہ آزمائی کر لے۔ جواباً اس کمزور و کمسن بلے نے دم دبا کر بھاگنے یا گھٹنے ٹیکنے کی بجائے منہ سے عجیب و غریب قسم کی ”غیر حیوانی“ اور ”غیر بلیانہ“ آوازیں نکالنی شروع کر دیں۔ یہ صورتحال دیکھ کر بڑے بلے کے توحیرت کے مارے اوسان خطا ہوگئے، وہ انگشت بدنداں ، ہکا بکا، بھونچکاہو کر رہ گیا، اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔ارد گرد موجود بلے ، بلیاں، کتے ،کتیاںاور شہری حیوانوں کی دیگر فیملیاںحیرت و استعجاب کی تصویر بنی اس کم سن و کمزور بلے کو دیکھ رہی تھیں۔میں حیوانی تاریخ داںہونے کے ناتے تجسس میں غرق ہو گیا، فوری اسمارٹ فون پر اپنے استاد سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی ہر کتاب میں لکھا ہے کہ حیوان بھی انسانی معاشرے کی روایات کے عکاس ہوتے ہیںاس لئے یہ بتائیے کہ اس میں حیرت کی کیا بات ہے ، اس کمسن و کمزور بلے نے اپنی شاطرانہ ذہانت کاثبوت دیتے ہوئے عجیب و غریب قسم کی غیر حیوانی آوازیں نکال کر ایسی سیاسی چال چلی کہ اس کے تمام ہم نفس حیرت میں ڈوب گئے ۔ اس نے جان بچانے کا یہ انداز ہمارے معاشرے کی موجودہ صورتحال سے ”مستعار“ لیا ہے ۔ 
آج کتنے ہی حیوانوں نے ”حیوانیت“ کا دامن چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے جنگلات کا ماحول بھی مخدوش ہوتا جا رہا ہے۔ حیوانوں نے انسانی اطوار اپنا کر ”جنگل لا“ پامال کر کے رکھ دیا ہے۔ ”مقدر اعزاز“ نے کہا کہ” میں اپنے استاد کی وضاحت سن کر اُسی ”جسیم بلے“ کی طرح بھونچکا رہ گیا۔“یقین جانئے، حیرت و استعجاب کا یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ ”می“ کی بات سن کر ہم بھی اب تک بحرِ حیرت میں غرق ہیں۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: