Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئی عوام کی ہا ہا کار سننے والاہے ، نہ باز پر س کرنے والا

کام کیلئے گھروں سے نکلنے والے مجبور شہری شہد کی مکھیوں کی مانند بسوں سے چمٹ کر سفر کرتے ہیں
* * * *عنبرین فیض احمد ۔ کراچی* * * *
کراچی جسے ہم منی پاکستان بھی کہتے ہیں ، یہاں ملک کے ہر شہر سے آنے والے پاکستانی آباد ہیں۔ ملک کے کونے کونے سے آنے وا لے یہ لوگ اپنی روزی روٹی کے لئے محنت کرتے ہیں۔ اس منی پاکستان کا دل بھی بہت بڑا ہے۔ یہ سب کواپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ بدنصیبی ہے کہ ہم اس کی قدر نہیں کرتے۔ جس لحاظ سے اس شہر کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، اس حساب سے اس شہر میں سہولتیں میسر نہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آسٹرین ادارے کی طرف سے فہرست جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ رہائش کیلئے کراچی دنیا کے سب سے بدترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس حوالے سے دنیا کے231 شہروں میں کراچی کا نمبر 204 واں ہے۔ کراچی میں جگہ جگہ گندگی اور غلاظت کے ڈھیر اور سڑکوں پر اڑتا مٹی کا غبار ہی نظر ہی نظر آتا بلکہ سڑکوں پر ہر جگہ گڑھے پڑتے ہوتے ہیں جس سے گاڑیاں ہچکولے کھاتی ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق کراچی میںبڑھتی ہوئی آبادی ، ٹریفک کی بدنظمی اور پبلک ٹرانسپورٹ کا فقدان شہر کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
علاوہ ازیں شہریوں پر اثرانداز ہونے والے عوامل میں سیاسی بے یقینی ، بجلی کی لوڈشیڈنگ ، کرپشن اور بھتہ خوری جیسے مسائل شامل ہیں ۔ ان سب مسائل کی وجہ سے کراچی میں کاروبار کرناخاصا مشکل ہوچکاہے۔ شہر قائد جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا، اس کے باسی ہر طرح کی سہولتوں سے آرستہ ہوتے تھے۔ افسوس کراچی شہر کا سب سے اہم مسئلہ اس کے بین الاقوامی منصب کو نظرانداز کرنا اور اس کی جدید خطوط پر تعمیر و ترقی پر کام کرنے کی ضرورت سے غفلت برتنا ہی ہے۔ اس کے ذمہ دار ہمارے ذمہ داران اور سیاسی نظام ہے اور وہ تمام اسٹیک ہولڈرز ہیں جو اس شہر کو بظاہر اپنا تو کہتے ہیں مگر اس کی اہمیت اور ضرورت کے مطابق کام نہیں کرتے ۔ کراچی ایک طرف تو ملک کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے تو دوسری طرف یہ ملک میں مختلف صوبائی اور لسانی اکائیوں کی مشترکہ رہائش اور ذریعہ معاش بھی ہے۔ ظاہر ہے ان اکائیوں کی بناء پر تہذیبی شراکت کا کلچر فروغ پا رہا ہے جو ملک کے قومی کلچر کی شکل اختیار کرسکتا ہے لیکن ساتھ ہی شہر میں مسائل کا انبار ہے ، انتظامی سہولتیں ناپید ہیں۔نہ کوئی عوام کی ہا ہا کار سننے والاہے ، نہ کوتاہی برتنے والے غیر ذمہ داران سے باز پر س کرنے والا۔
کراچی میں نہ صرف بدانتظامی عروج پر ہے بلکہ اداروں کے درمیان رابطے، ہم آہنگی اور مشترکہ حکمت عملی کا بھی فقدان نظر آتا ہے۔ یوں توسب لوگ کراچی کو بین الاقوامی شہر کہتے نہیں تھکتے مگر اس میں بین الاقوامی شہر جیسی کوئی سہولت موجود نہیں۔ ٹرانسپورٹ کا نظام انتہائی ناقص ہے جبکہ میٹروپولیٹن سٹی ہونے کے ناتے شہر میں تمام وہ سہولتیں ہونی چاہئیں جن کا شہر حقدار ہے تاکہ یہاں کے شہری ان سہولتوں سے مستفیض ہوسکیں۔ دھنک کے صفحہ پر جو تصویر شائع کی گئی ہے وہ قائد کے شہر یعنی روشنیوں کے شہر کراچی کی ہے جس میں شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی مشکلات کا سامنا کرتے دکھایا گیاہے۔ مسافروں کو شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا سفر کرنا بہت ہی مشکل ہو چکا ہے یوں کہہ لیجئے کہ یہ جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ شہر کے مسائل ہیں کہ حل ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ ذمہ دار ادارے الزام ایک دوسرے کے سر تھوپ کر خود کو بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں۔
کسی ایک شہری ادارے کی بات کریں جو ٹھیک طور پر اپنا کام انجام دے رہا ہو؟ صحت کی سہولتوں کو دیکھا جائے تو وہ بھی یکسر ناپیدا ہوچکی ہیں ۔ سرکاری اسپتال انتظامیہ کی لاپروائی اور غیر انسانی رویے کی وجہ سے ناکارہ ہو رہے ہیں۔ یہ اسپتال شفا کے مراکز بننے کی بجائے بیماریوں کے پھیلاؤ کے مراکز بن چکے ہیں۔ ہر طرف افراتفری ہے۔ جس معاشرے میں صفائی کا کوئی خیال ہی نہ رکھا جاتاہو، وہاںپر دیگر کام کیسے ہوسکتے ہیں؟ یوں تو شہر میں جگہ جگہ دیواروں پر تحریر نظر آتا ہے کہ شہر قائد کو صاف رکھیں مگر جہاں تک نظر جاتی ہے، کچرے کے ڈھیر ، خستہ حال بسوں اور منی بسوں کے علاوہ رکشوں سے نکلنے والا دھواں ماحول کو آلودہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب ادارے اپنا کام صحیح طور پر انجام نہیں دیں گے خاص طور پر صفائی ستھرائی جیسے امورپر توجہ نہیں دیں گے تو مختلف بیماریاں جنم لیں گی ۔ ا یسی صورت میں کس طرح ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پاسکے گا؟ دوسری طرف ٹرانسپورٹ کا حال یہ ہے کہ بسوں کی کمی اور بدانتظامی کے باعث مسافر بسوں اور ویگنوں کی چھتوں پر سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔لوگ کھڑکیوں اور دروازوں میں لٹکے نظر آتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اپنے کام کاج کے لئے گھروں سے نکلنے والے مجبور شہری شہد کی مکھیوں کی مانند بسوں سے چمٹ کر سفر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ناگہانی حادثے کی صورت میں بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوتے ہیں اور بعض اوقات اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ذمہ داران کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ توشترمرغ کی طرح ریت میں منہ ڈالے اور آنکھیں موندے بے فکری کی نیند سو رہے ہیں۔ مسائل کے حل کیلئے کوئی کچھ سوچنے اور سننے کے لئے تیار ہی نہیں۔

شیئر: