Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مستقبل کی بہتری کیلئے ماضی کا دروازہ بند کیجئے

اگر معاملات کوشش کے باوجود تکمیل تک نہیں پہنچیں تو سمجھ لیں کہ رب کریم کی رضا اسی میں تھی
* * * *دردانہ پرویز۔ الخبر* * * *
اللہ تعالیٰ کا شکر، احسان ہے کہ اس نے اپنی کتاب مبین قرآن حکیم کے ذریعے ہمیں دنیا میں جینے کے اصول بیان فرما دیئے کہ کس طرح ہم پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمیں یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ طویل عرصے تک محکومی کی زندگی گزارنے کے بعد جہاں معاشی استحصال ہوا، وہیںدین سے رشتہ کم ہوتا چلا گیا۔ آج طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ہماری عبادت بھی چند مخصوص اوقات تک محدود ہوتی چلی گئی ۔ یہی نہیں بلکہ دین اسلا م کی برکات، روزمرہ کے مسائل کا حل، یہ سب کچھ اللہ کریم کی کتاب کی جانب منسوب ہونے کی بجائے وقت کی عقل و دانش کے حوالے ہوگیا۔ وہ چھوٹے چھوٹے مسائل جن کومسلم مائیں منٹوں میں حل کردیتی تھیں، آج بھاری بھرکم فیسیں دینے کے باوجودوہ مسائل جوں کے توں ہی چلتے رہتے ہیں۔ نفسیاتی بیماریوں کے نام بتاکر دواؤں کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کی جانب تو لگا دیا جاتا ہے لیکن سبب کی جانب توجہ بہت ہی کم دی جاتی ہے فی زمانہ یہ پروفیشن بہت ترقی کی جانب گامزن ہے ۔
چند معتبر اداروں کے سوا کس پر بھروسہ کیا جائے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس افلاس کے مارے معاشرے میںلوگوںکی اکثریت بمشکل تمام اپنی زندگی گھسیٹ رہی ہے ۔ ایسے میں کتنے فیصد لوگ استفادہ کرسکتے ہیں؟ یہاں ہم ایک اہم نفسیاتی المیے کی نشاندہی ضرور کریں گے اور وہ ہے " ماضی سے وابستہ" اکثریت کے تلخ تجربات۔آج تقریباً ہر شخص ماضی کا البم بغل میں دبائے پھر رہاہے۔ کہیں ذرا اخلاص سے گفتگو شروع کردیں، یقینا حقائق انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں ، پھر آپ ہمدردی کے دو بولنے کے سواکیا کر سکتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں جو خواتین متاثر ہیں ان کی ہم کس طرح احسن طریقے سے مدد کرسکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو خالقِ کائنات سے رشتہ مضبوط ہونا چاہئے۔ اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہئے کہ دنیا دارالعمل ہے دارالجنہ نہیں لہٰذا یہاں کی ترتیب خواہشوں اور امنگوں کے مطابق نہیں ہوسکتی۔ اگر خواہشات پوری ہوئیں تو یقین کرلیں کہ اللہ تعالیٰ کی بھی یہی مرضی تھی۔ اگر معاملات کوشش کے باوجود پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ پائے تو سمجھ لیں کہ رب کریم کی رضا اسی میں تھی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہم ماضی کا دروازہ بند کردیتے ہیں ، یہیں سے خیرو برکت کے دروازے کھلنے شروع ہوجاتے ہیں۔ یہیں پر نیک ہستیوں کی صفات پتہ چل جاتی ہیں کہ" مومن وہ ہے جو ماضی کی یاد میں مبتلا نہ ہو اور مستقبل سے خوفزدہ نہ ہو" برسہا برس سے معاشرے کا یہ چلن ہوچکا ہے کہ ماضی کی یاد سینے سے لگائے، المیے، ڈرامے، افسانے، گانے کے ذریعے کسی طور بھی ماضی سے اپنا رشتہ نہیں توڑتے ۔ یوں لوگ انجان پنے میں قضا و قدر کے فیصلوںپراپنی مرضی کا اظہار کربیٹھتے ہیں۔ ایسی کیفیت میں خواتین کی اکثریت متاثر ہے لہٰذا آج سے یہ مصمم ارادہ کرلیں کہ ماضی کا دروازہ بند کرناہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں، ان پر رب کریم کا شکر ادا کرنا ہے ۔
آپ جہاں کہیں بھی ہیں وہاں کی سہولتوں کے مطابق آس پاس کے لوگوں کے کام آئیں۔ اپنی صحبتوں پر ضرور نظر ڈالیں، منفی سوچوں کے حامل لوگوں سے رابطہ کم رکھئے کہ یہ نفسیاتی صحت کیلئے صحیح نہیں ہے۔مثبت سوچ والے افراد، اچھی کتابیں، کوئی بھی پسندیدہ مصروفیت آپ کے اندر ایک انقلابی تبدیلی لانے کا موجب بنے گی لیکن شرط صرف یہی ہے کہ بیتے ہوئے ماضی کا دروازہ سب سے پہلے بند کرنا ہوگا۔

شیئر: