Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رنگ تغزل

 
--------------------                 -------------------------------                      --------------------------------                      -------------------------------                                 -------------------------
 
رنگ محفل ہیں کبھی رنگ سخن بھی ہم ہیں
 آبلہ پاؤں میں،کانٹوں کا بدن بھی ہم ہیں
آپ جس طرح سے چاہیں کہیں باتیں اپنی
یہ الگ بات الگ طرز سخن بھی ہم ہیں
آگئے آپ تو اک بار نظر بھر دیکھو
رقص پیمانہ ہے، بد مست، مگن بھی ہم ہیں
 ہم نہیں ہیں تو مکمل نہیں ہستی اس کی
قافیہ وہ ہے تو پیراہن فن بھی ہم ہیں
کیا کہیں،کس سے کہیں،دل پہ گزرتی کیسی
غنچہ لب آپ تو گل، بند دہن بھی ہم ہیں
 سامنے چاند کو دیکھا تو بھڑک کر بولا
اس میں کیا خاص ہے، سورج کی کرن بھی ہم ہیں
 آپ شاداب تو شاداب ہماری چاہت
 گل بدن آپ تو صہبائے کہن بھی ہم ہیں
------------
 ڈاکٹر شفیق ندوی ۔ ریاض
--------------
ملتفت کرکے مجھے پہلے تو اپنایا گیا
 پھر ستم ایجاد کی خواہش پہ تڑپایا گیا
جو بظاہر میرے مرنے پر بہت مغموم تھا
 قاتلوں کا وصف بھی کچھ اس میں تھا پایا گیا
جب بھی اُس سے راستے تبدیل کرنے کو کہا
خوش نما لفظوں تلے پھر مجھ کو بہلایا گیا
زندگی کے کرب کا مفہوم اُس سے پوچھ لو
بچپنے میں جس کے بھی ماں باپ کا سایا گیا
وحشتیں ہوں زیست کی یا خواہشوں کی آندھیاں
 دھوپ کے ہر روپ سے ہی مجھ کو جھلسایا گیا
عشق کی تاریخ میں اخترکا یہ اعزاز ہے
ابتدأ سے انتہا تک تذکرہ پایا گیا
- - - - - - -  - - - -
سہیل اختر ہاشمی ۔کراچی

شیئر: