Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دنیامیں نئی ثقافت اورتاریخ مرقوم نظر آتی ہے، ڈاکٹر مہر جبیں

میرے شوہر خوش اخلاق، خوش گفتار اور اعلیٰ ذوق کے حامل ہیں، اردونیوز سے گفتگو
* * * زینت شکیل۔جدہ* * * *
خالق کائنات نے انسان اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ فہم و ادرک عطا فرمایا ہے۔ فہم انتخاب کا حق رکھتی ہے اور انتخاب معیار کی گواہی دیتا ہے ۔ ذہانت سمت اختیار کرتی ہے اور سمت منزل کا تعین۔ زندگی ایک تسلسل ہے ، زندگی ایک ایسی زنجیر ہے جس کی ابتداء ازل میں ہوئی اور انتہاء ابد میں ہوگی مگر اسکی تمام کڑیاں ایک دوسرے سے منسلک ہیں اگر کہیں کچھ الگ نظر آتی ہیں تو یہ ہماری نظر اور شعور کی کم مائیگی ہے۔ تلاش اور جستجو، تحقیق اور تجسس کی کوتاہی ہے۔
زندگی کی کڑیاں مربوط ہیں کچھ ہم پہچان چکے ہیں ، کچھ کو پہچان رہے ہیں اور کچھ کو پہچاننے کیلئے ابھی انتظار کرنا ہے۔ روایات بھی اٹوٹ حصہ ہیں جو زندگی میں خوبصورتی اور دلکشی پیدا کرتی ہیں۔ خاندان بھر کا جمع ہونا روزانہ شام کے وقت چائے کہ بہانے مل بیٹھنااور گفتگو کرنا، ایک دوسرے کی مشاغل و مصروفیات میں مفید مشورے دینا۔ ادب شناس لوگ ضروری خیال کرتے ہیں کہ اخبار بینی سے فوائد حاصل کئے جائیں۔ اس کے ذریعے اردگرد کے ماحول، حالات اور واقعات سے آگاہی ملتی ہے اور گھر والوں کے ساتھ گزرا وقت آئندہ کی نسل ہمیشہ اپنے ذہن میں نقش رکھتی ہے۔ ڈاکٹر مہر جبیں اور ڈاکٹر علی بختیار بچوں کی تربیت میں بزرگوں کی صحبت کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انکی صاحبزادی ربیعہ علی جو انجینیئرنگ کے بعد رخصت ہوکر ایران جاچکی ہیں لیکن دادی جان کی سکھائی ہوئی ہر چیز خود بھی بنانا چاہتی ہیں۔
چاہے وہ ادرک والی چائے ہو یا پھر کسی تقریب میں پہنے جانے والے لباس کی خود ڈیزائننگ کرنا ہو۔ دادی جان چونکہ کچن کی مصروفیت کے باوجودہ خود بہت سے کام کرتی تھیں، کئی نوکر چاکر ہر وقت موجود رہتے تھے مگر کھانا پکانا گھر کی عورتوں کا ہی کام ہوا کرتا تھا پھر بھی وقت ملنے پر ڈریس ڈیزائننگ اور پینٹنگ کا شوق جاری رہا۔ وہی شوق نئی نسل میں بھی منتقل ہوا۔ ڈاکٹر مہر جبیں نے بتایا کہ انکی دوسری صاحبزادی طوبیٰ جو میڈیسن کی طالبہ ہیں، چائے بہترین بناتی ہیں۔ دنیا بھر میں سیکڑوں کیا ہزاروں طریقوں سے یہ مشروب ہر جگہ کی ضرورت کے تحت بنایا جاتاہے۔ کہیں سرد علاقے میں گرم مسالے کی چائے ،کافی کے ساتھ بھی بدلتے موسم میں اسٹرانگ چائے ہو یا سادہ قہوہ ،یہ مشروب دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال کیا جاتاہے۔ طوبیٰ کو شوق ہے کہ ہر طرح کی مختلف اقسام کی چائے بنانا سیکھے۔ یہ بھی ایک شوق کی بات ہے ۔ صاحبزادی عائشہ علی جو اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ’’نسٹ‘‘ کی طالبہ ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ آج دنیا سمٹ کر بکھر گئی ہے۔ انسانوں میں زمینی فاصلے کم اور ذہنی فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ دور بیٹھے باتیں تو خوب کرسکتے ہیں لیکن صرف باتوں سے کام کونسا انجام دیا جائے گا۔ گھر سے دور خود ہی کپڑے پریس کرنا ہوتے ہیں اور خود ہی ناشتہ کرنا پڑتا ہے۔
ناشتہ بھی وہی جو مینیو میں ہوتا ہے ورنہ گھر پر تو امی سے فرمائشی پروگرام چلتا تھا کبھی دیر ہورہی ہوتی تو جلدی میں امی ہی لقمے بناکر کھلا دیتیں کہ وقت کم ہے، کہیں ناشتہ نہ رہ جائے۔ امتحان کے دنوں میں تو اکثر گھرانے میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا ہوتا تھا کیونکہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہوتا ہے۔ ہاسٹل کی لائف کافی ٹف ہوتی ہے۔ یہاں ہر کام خود ہی کرنا پڑتا ہے پھر پڑھائی بھی آسان نہیں۔ سب سے لاڈلی صاحبزادی عمارہ علی آرتھوڈونٹسٹ بننا چاہتی ہیں۔ چائے بنانے اور پیش کرنے کی بات ان سے بھی ہوئی کہ گھر بھر میں کون سب سے اچھی چائے بناتا ہے اور اچھی بھی ایسی کہ ہر کوئی ان سے ہی چائے کی فرمائش کرتا ہے کہ ایک پیالی چائے مل جائے گی؟ عمارہ نے بڑی ولولہ انگیزی سے بتایا کہ گھر بھر میں مجھے ہی آواز دی جاتی ہے کہ چائے کہ طلب ہورہی ہے لیکن مجھے یہ نہیں معلوم کہ اسکا مطلب یہ ہے کہ میری چائے سب زیادہ مزیدار بھی بنتی ہے کیونکہ سچی بات تو یہ ہے کہ سب سے بڑی بہن ربیعہ باجی کی شادی ہوگئی ورنہ وہی چائے بنایا کرتی تھیں۔ پھر دونوں بہنیں پڑھائی میں مصروف ہوگئیں۔
میں کالج کی طالبہ ہوں اسی لئے اب ہر کوئی مجھے ہی چائے بنانے کیلئے آوازیں دیتا ہے۔ عمارہ سے جب ان کی پسند دیدہ شخصیت کے بارے میں پوچھا گیا توانہوں نے بڑی خوشی سے کہاکہ جب آپ لوگوں سے یہ سوال کریں تو وہ آپ کو بڑے مشہور سائنسداں، ادباء اور شعرائے کرام کے نام بتائیں گے لیکن میری پسندیدہ شخصیت میری دادی اور دادا ہیں۔ وجہ معلوم کرنے پر معلوم ہواکہ ہماری دادی جان اب بھی اتنی ہی چاق و چوبند ہیں جتنی کوئی اور ورکنگ لیڈی۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی خوب مصروف رہتی ہیں۔ فیشن ڈئیزائنگ انکا شوق ہے۔ فیبرکس پینٹنگ میں مہارت رکھتی ہیں۔ کام کرنا اور خود کو مثبت رکھنا، ایمانداری سے فرائض کی انجام دہی کو یقینی بنانا ،ان کی زندگی کا یہی مقصد ہے اور انہوں نے ہم سب کو بھی یہی سمجھایا ہے۔ دادا جان اپنے بچپن کے قصے ہمیں یوں بتاتے ہیں جیسے کتاب ماضی کاایک ایک ورق انکے سامنے کھلا ہوا ہے ۔ وہ ہر واقعہ پوری صحت کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں گویاتھوڑی مدت پہلے ہی گزرا ہو۔ ہم سب بچے ان کی باتیں بہت شوق سے سنتے ہیں۔ ہمیں اچھا لگتا ہے کہ اس زمانے کی باتیں جانیں جب ہم تو اس دنیا میں نہیں تھے لیکن زندگی اس وقت ہی ایسی ہی خوبصورت تھی۔ دادا جان بتاتے ہیں کہ ان کے ڈیڈی یعنی ہمارے پر دادا چونکہ خود ڈاکٹر تھے تو چاہتے تھے کہ ہمارے دادا جان بھی ڈاکٹری میں داخلہ لیں لیکن وہ انجینیئرنگ کرنا چاہتے تھے۔ انہیں انجینیئر بننے کا شوق تھا۔
پھر دادا نے دونوں شعبوں کی تعلیم حاصل کی۔ جب وہ امریکہ میں انجینیئرنگ کے طالب علم تھے تو ہاسٹل میں رہتے تھے وہاں کئی اور بھی طلبہ بھی رہائش پذیر تھے چونکہ دادا جان ڈاکٹری میں داخلہ نہ لے کر بھی میڈیسن کورس کی کتابیں پڑھتے رہتے تھے تو معلومات ہوگئی تھیں ۔جہاں یونیورسٹی ہوسٹل تھا وہ جگہ شہر سے دور ہونے کی وجہ سے طلبہ ڈاکٹر کے پاس جانے سے کتراتے تھے ۔ ہمارے دادا جان خود جاکر ضروری چیزیں لے آتے اور دوائیں تیار کر لیتے پھر مریض طالب علم کو دیتے اور مالک حقیقی کے حکم سے وہ شفایاب ہوجاتا۔ بتدریج یہ بات سب میں ہی مشہور ہوگئی کہ بختیار صاحب سے دوا لے لو، ٹھیک ہوجاؤ گے۔ ایک پروفیشن ان کا شوق تھا اور ڈاکٹری انکے والد سے محبت اور ان کے احترام میں اختیار کی یعنی سیکھا، پڑھا اور آئندہ بھی جب ضرورت پڑی تولوگوں کو فائدہ پہنچایا۔ اس طرح ہمارے دادا جان خود انجینیئر بھی بنے اور ڈاکٹر بھی۔ دادا جان اپنے بچپن کی باتیں ہم سے شیئر کرتے ہیں، اپنی شاعری سناتے اور اسکا مطلب بھی سمجھاتے ہیں۔ جہاں وقت ملے، وہ ہمارے ساتھ گزارتے ہیں جو ہمیشہ یادگار بن جاتا ہے چونکہ ہمارے خاندان کے زیادہ تر افراد سول سروس سے متعلق ہیں تو دادا جان کا کہنا ہے کہ جہاں بھی اپنے فرائض انجام دو، ہر جگہ ایمانداری اور محنت کو ترجیح دو۔ محنت اور ایمانداری ایسے خزینے ہیں جو انسان کو باطنی قوت فراہم کرتے ہیں۔ عمارہ نے یہ بات بھی بہت اشتیاق سے بتائی کہ امتحانات میں طلباوطالبات اقبال اور غالب کے اشعار یاد کرکے لکھتے ہیں مگرہم اپنے دادا کے اشعار لکھ کر آتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ نے سفریات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کا ہر خطہ حسین و دلکش ہے ۔جہاں جائیں ایک نئی ثقافت، تمدن اورتاریخ مرقوم نظر آتی ہے۔ ویسے تو سیر و سیاحت ایک ایسا عمل ہے جو سیاح کو دلکش مناظر، خوبصورت مقامات اور دلچسپ واقعات و مشاہدات سے روشناس کراتا ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ سفر کے لئے صحت بھی ایک شرط ہے۔ سفر کی تھکن ، موسم کی سختی اور ہر جگہ کی مختلف اقسام کے ذائقے آپ کو چکھنا اور کسی طرح ان سے لطف اندوز ہونا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مہر جبیںنے کہا کہ میرے شوہر خوش اخلاق، خوش گفتار اور اعلیٰ ذوق کے حامل ہیں۔ خاندان بھر کے شوق و خواہش کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ بچوں کیلئے نہایت شفیق باپ ہیں۔ مشاورت کو اہمیت دیتے ہیں۔ ڈاکٹر مہر جبیں بھائی بہنوں میں سب سے بڑی ہیں۔ بھائی سعد حسین پاکستان ایئر فورس میں ایئر کموڈور ہیں۔ سعدیہ ہدایت انجینیئر ہیں۔ ان کے دوسرے بھائی ناصر حسین انجینیئرنگ میں پوسٹ گریجویٹ ہیں ۔
ان سے چھوٹے بھائی الطاف حسین نے انجینیئرنگ کے بعد معروف پٹرولیم کمپنی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ شاہین حسین نے فلوریڈا میں انجینیئرنگ کے دوران وہیں رہائش اختیار کرلی بعدازاں الیکٹرانکس انجینیئرنگ میں پی ایچ ڈی کے بعد اسلام آباد میں ایک معروف تعلیمی ادارے میں تدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئے ۔ والد ہدایت حسین نے علیگڑھ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد سول سروس جوائن کی۔ والدہ بلقیس فاطمہ نے علیگڑھ سے ادیب ماہر کا کورس مکمل کیا۔ مہر جبیں کے نانا بھی گورنمنٹ سروس میں تھے۔ ماموں، بہن اور خالہ بھی تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بیوروکریٹ کی جہاں دنیاوی خوبیاں بے شمار ہیں وہیں ایمانداری، ہر موقع پر انصاف کرنا اور اپنے اختیارات کو درست طریقہ پر استعمال میں لانا بھی جہد مسلسل ہے۔ ڈاکٹر علی بختیار کا کہنا ہے کہ مہر جبین وسیع القلب ہیں۔ لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا پسند کرتی ہیں۔ ان کی محنت رنگ لائی ہے کہ بچیاں نہایت سعادت مند اور بہترین شخصیت کی حامل ہیں۔ ننھیال اور ددھیال سب جگہ میل ملاپ سے رہتی ہیں۔ خاندان کو بنانے میں مہر جبین نے بہت محنت کی۔ والدین کا سایہ تادیر صحت و ایمان اور ان کی دعاؤں کے ساتھ قائم رہے، یہی دعا ہے۔ مہر جبیں وقت پر کام کرنے کا اصول اپنائے ہوئے ہیں ،اسی لئے ہاسپیٹل کی جاب ، گھر کی ذمہ داریوں اور بچوں کی تربیت میں کامیاب ہیں۔

شیئر: