Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدرجمہوریہ کا انتخاب

یہ تاریخ کا انتقام نہیں تو اور کیا ہے کہ بابری مسجد کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید کرانے والے لال کرشن اڈوانی آج خود سیاسی طورپر مسمار ہورہے ہیں
* * * * معصوم مرادآبادی* * * *
حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی نے بہار کے گورنر رام ناتھ کووند کو صدرجمہوریہ کے انتخاب کے لئے اپنا امیدوار نامزد کردیا ہے۔ ان کی نامزدگی کے ساتھ ہی سیاسی حلقوں میں یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ ان کا انتخاب 2019 ء کے عام انتخابات کو پیش نظررکھ کر کیاگیا ہے تاکہ دلت کارڈ کھیلاجاسکے۔ رام ناتھ کووند کی واحد خصوصیت یہ ہے کہ وہ بی جے پی کے قابل اعتماد دلت لیڈر ہیں اور بھارتیہ جنتاپارٹی کے دلت مورچے کی قیادت بھی کرچکے ہیں ورنہ سیاسی طورپر ان کا قد اتنا بلند نہیں ہے کہ انہیں ملک کے اولین شہری کے انتخاب کے لئے میدان میں اتارا جاتا ۔
یوں تو بھارتیہ جنتاپارٹی اس معاملے میں اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت کی بات کررہی تھی اور اس کام کے لئے 3 مرکزی وزیروں کی ایک ٹیم بھی تشکیل دی گئی تھی لیکن اپوزیشن نے یہ کہہ کر اس کوشش کی ہوانکال دی کہ پہلے بی جے پی اپنے پتیّ کھولے اور اپنے امیدوار کا اعلان کرے تاکہ مفاہمت کی بات آگے بڑھ سکے مگر بی جے پی نے اس معاملے میں اپوزیشن کو اعتماد میں لئے بغیر رام ناتھ کووند کے نام کا اعلان کردیا۔اس کا واحد مقصد اپوزیشن کو انتشار میں مبتلا کرنا تھا۔ ابتدائی مرحلہ میں حکومت کو اس میں کامیابی بھی نصیب ہوئی یعنی بہار کے وزیراعلیٰ اور جنتادل (یو) کے صدر نتیش کمار نے رام ناتھ کووند کی حمایت کا اعلان کرکے اپوزیشن اتحاد میں دراڑ ڈال دی لیکن اس کے اگلے ہی روز اپوزیشن جماعتوں نے متحدہ طورپر لوک سبھا کی سابق اسپیکر اور قدآور دلت لیڈر آنجہانی جگ جیون رام کی بیٹی میرا کمار کو میدان میں اتاردیا۔
اس امیدواری سے جہاں نتیش کمار کے لئے دہری مشکل کھڑی ہوگئی ،وہیں حکمراں بی جے پی کے لئے بھی ایک چیلنج کھڑا ہوگیا ہے۔ اب نتیش کمار کی الجھن یہ ہے کہ وہ رام ناتھ کووند کی حمایت کے فیصلے پر قائم رہیں یا پھر اپنے ہی صوبے کی دلت بیٹی میرا کمار کو سپورٹ کریں۔ بہرکیف رام ناتھ کووند کے معاملے میں میراکمار کی امیدواری سے صدر جمہوریہ کا انتخاب دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔عام طورپر یہ سمجھاجارہا تھا کہ حکمراں جماعت اپنے سینیئر لیڈر لال کرشن اڈوانی کو ہی صدر جمہوریہ کے عہدے کے لئے میدان میں اتارے گی کیونکہ انہیں 2013ء میں وزیراعظم کے عہدے کی دوڑ سے باہر کرکے جب گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرمودی کو امیدوار بنایاگیا تھا تو وہ خاصے ناراض تھے لیکن آر ایس ایس نے انہیں یہ کہہ کر منالیا تھا کہ وہ انہیں ملک کے اولین شہری یعنی صدرجمہوریہ کے باوقار عہدے پر دیکھنا چاہتی ہے۔
تب سے اب تک اڈوانی انتظار کی گھڑیاں گن رہے تھے اور انہیں پوری امید تھی کہ پارٹی انہیں راشٹرپتی بھون کا مکین ضرور بنائے گی لیکن عین وقت پر بی جے پی نے صدرجمہوریہ کے عہدے کی دوڑ سے باہر کرکے انہیں مایوسی کے سمندر میں ڈبودیا ہے۔ یوں تو ان کے خلاف بابری مسجد انہدام سازش کیس میں مجرمانہ سازش کے الزامات طے ہونے کے بعد ہی یہ کہاجارہا تھا کہ اب شاید ہی صدرجمہوریہ کی دوڑ میں شامل ہوسکیں لیکن اڈوانی کو پارٹی سے پھر بھی وفا کی ا مید تھی لیکن عین وقت پر سب کچھ ڈھیر ہوگیا۔ اب 89لال کرشن اڈوانی کی باقی ماندہ زندگی میں رام کی مالا جپنے کے سوا کوئی دوسرا کام باقی نہیں رہ گیا ہے یوں بھی لال کرشن اڈوانی کو رام سے بڑی انسیت ہے اور انہوں نے ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر بنانے کی تحریک کی قیادت کا بار اپنے کاندھوں پر اٹھایاتھا۔ یہ لال کرشن اڈوانی ہی تھے جنہوں نے وی پی سنگھ کے دور اقتدار میں سومناتھ سے ایودھیا تک انتہائی اشتعال انگیز رتھ یاترا نکالی تھی اور پورے ملک میں خوف وہراس کی لہر دوڑائی تھی۔
یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ جو نریندرمودی اس یاترا کے دوران لال کرشن اڈوانی کا مائیک پکڑے ہوئے تھے، وہ آج بی جے پی کے سیاہ وسفید کے مالک بنے ہوئے ہیں اور اڈوانی حاشیے پر پڑے ہوئے اپنی زندگی کے باقی دن گن رہے ہیں۔ 9جون 2013ء کو گوا میں منعقدہ بی جے پی کی قومی مجلس عاملہ میں جب نریندر مودی کا نام انتخابی مہم کے سربراہ کے طورپر طے ہونا تھا تو اڈوانی اس میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ دوسری بار 13ستمبر 2013ء کو بی جے پی پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں نریندرمودی کا نام وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار کے طورپر طے کیا جانا تھا تو اڈوانی اس میٹنگ میں بھی غیر حاضر رہے۔ بی جے پی نے اپنے اسٹار لیڈر کی غیرحاضری میں ہی نریندرمودی کا نام بطور پی ایم امیدوار کے لئے طے کردیا۔ اس پر اڈوانی اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکے اور انہوں نے پارٹی کے نام ایک مکتوب میں یہ لکھا کہ’’ بی جے پی ایک شخص کے مفاد کی تکمیل کے لئے دین دیال اپادھیائے ، شیاما پرشاد مکھرجی اور اٹل بہاری واجپئی کی راہ سے بھٹک گئی ہے۔‘‘
ہم آپ کو یاد دلادیں کہ یہ وہی نریندرمودی تھے جو کسی زمانے میں لال کرشن اڈوانی کے سب سے زیادہ چہیتے ہوا کرتے تھے اور انہوں نے 1990ء کی سومناتھ سے ایودھیا تک کی رتھ یاترا کے دوران انہیں ایک خاص معتمد کے طور پر اپنے ساتھ رکھا تھا۔ ملک کی سیاست میں اتھل پتھل مچادینے والے 2002ء کے گجرات فسادات کے بعد جب بی جے پی میں مودی کے خلاف ماحول گرم تھا اور وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی انہیں ہٹانے کا فیصلہ کرچکے تھے تو یہ اڈوانی ہی تھے جو اس فیصلے کی عمل آوری میں رخنہ بن گئے تھے۔ اس کے باوجود اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے نریندرمودی کو راج دھرم نبھانے کی نصیحت کی تھی اور کہاتھا کہ میں اب دنیا کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ پہلے پہل پارلیمنٹ میں باجپئی اور اڈوانی ہی 2 بی جے پی کے ممبر ہوا کرتے تھے۔ پہلے اڈوانی نے وی پی سنگھ سے معاہدہ کرکے بی جے پی کی طاقت بڑھائی اور پھر رام مندر کے رتھ پر سوار ہوکر ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کا آتش فشاں کھڑا کرکے ملک میں سیکولر سیاست کی قبر کھود کر اسے ہندتو کی ڈگر پر ڈال دیا لیکن اڈوانی کی یہ کوشش بھی ان کے کسی کام نہیں آئی اور تاریخ نے کروٹ بدل لی۔ یہ تاریخ کا انتقام نہیں تو اور کیا ہے کہ بابری مسجد کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید کرانے والے لال کرشن اڈوانی آج خود سیاسی طورپر مسمار ہورہے ہیں۔

شیئر: