Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنگل کا دستور

جنگل کا یہ قانون آج بھی اپنے اندر متناسبیت کا حسین امتزاج لئے ہوئے ہے ، مہذب اور تمدنی کلچر میں جنگل کے قانون کا لغوی مطلب الٹ لیا جاتا ہے
* * * * محمد مبشر انوار* * * *
بالآخر جدید سائنسی تحقیق نے انسان سے متعلق یہ حقیقت دریافت کر لی ہے کہ حضرت انسان اس کرہ ارض کی مخلوق نہیں جبکہ اس حقیقت کا اعلان اللہ رب العزت نے قرآن حکیم اور انبیاء کرام کے ذریعے بارہا کیا کہ کل کائنات کی تخلیق کا خالق اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے اور اس کرہ ارض پر حضرت انسان کو بطور سزا جنت سے بے دخل کر کے ایک مخصوص وقت تک کے لئے بھیجا گیا ہے۔
بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ و ایمان کی بنیاد ہی توحید اور قرآن کی حقانیت کو تسلیم کرنے پر ہے اور سورۃ البقرۃ میں واضح طور پر بیان فرمایا گیا ہے: ’’اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا میں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں، بولے کیا تو ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرے اور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح اور تیری پاکی بولتے ہیں، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرتے ہوئے فرمایا سچے ہو تو ان چیزوں کے نام تو بتاؤ،بولے پاکی ہے تجھے، ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا، بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے، فرمایا اے آدم! بتادے انہیں سب اشیاء کے نام، جب آدم نے انہیں سب کے نام بتا دئیے ،فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی چھپی سب چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیااور ہم نے فرمایا اے آدم ! تو اور تیری بی بی اس جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جاناکہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو جاؤ گے تو شیطان نے انہیں لغزش دی اور جہاں رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کر دیا اور ہم نے فرمایا نیچے اترو، آپس میں ایک تمہارا دوسرے کا دشمن ہے اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے‘‘۔
اللہ رب العزت نے انسان کو عقل سلیم سے سرفراز کرتے ہوئے ’’اشرف المخلوقات‘‘ کہا ،انسان کو دوسری تخلیقات پر فوقیت دی اور حضرت آدم کو توبہ کے لئے چند کلمات سکھا کر ان کی توبہ قبول کرتے ہوئے زمین پر بھیج دیا اور اس کے ساتھ ساتھ ابلیس کو بھی زمین پر اتار دیا اس حکم کے ساتھ کہ تم ایک دوسرے کے کھلے دشمن ہو جبکہ اللہ رب العزت نے ابلیس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’میرے بندوں‘‘کو تم کبھی بھی گمراہ نہ کر سکو گے۔ یہاں اللہ رب العزت کی ’’میرے بندوں‘‘ سے مراد مؤ منین کی ہے جو اللہ کے احکامات کی نہ صرف پابندی کرتے ہیں بلکہ ابلیس کے لئے انہیں گمراہ کرنا تو دور کی بات ،ان کے سامنے جانے کی جرأت بھی نہیں ۔ ایسے ہی مؤمنین کے متعلق اللہ کریم نے دوسرے انسانوں کے لئے سورۃ الفاتحہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہمیں ان کی تقلید کرنے کی توفیق عطا فرما ’’جن پر تو نے احسان کیا نہ ان کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا‘‘۔
اللہ رب العزت کی یہ شان ہے کہ اس کے ہر نظام میں کاملیت ہے ماسوائے انسان اور شیطان کے ،انسان کو عقل سلیم سے نواز کر اسے کسی حد تک اپنے ارادوں میں با اختیار کیا ہے تو شیطان کو قیامت تک انسانوں کو بہکانے کی کھلی چھٹی ملی ہے،علاوہ ازیں ہر نظام ایک متناسب کاملیت کے ساتھ رو پذیر ہے۔ یہی صورتحال اس کرہ زمین کی ہے، اگر اس کی ہیئت کو مد نظر رکھیں تو یہاں کی تخلیق کے لئے بھی ان دیکھا ،غیر مطبوعہ قانون لاگو ہے جس کی پیروی سب چرند،پرند اور درند بخوبی کر رہے تھے اور ہنوز کر رہے ہیںکہ یہ قانون ،قدرت کا قانون ہے جس نے اس کرہ زمین بر بسنے والی مخلوق کو مربوط کر رکھا ہے۔
دوسری طرف ’’عقل سلیم‘‘ سے لیس حضرت انسان ہے جس نے اس کرہ زمین پر اترنے کے بعد اپنی ہوس و حرص کے نت نئے قوانین تو ترتیب دے لئے ہیں مگر خوداپنے ہی بنائے ہوئے قوانین پر عمل پیرا ہونے سے گریزاں ہے،قانون بنانے والا خود کو ہی اس قانون سے مبرا اور مستثنیٰ قرار دینے کا متمنی ہے ماسوائے ان لوگوں کے جو اللہ کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق زندگیاں گزارنے کی سعی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں عقیدے و ایمان کی تخصیص روا نہیں خواہ وہ جانے یا انجانے میں ان احکامات کی پیروی کر رہے ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت انسان کو زندگی گزارنے کے لئے رہنما اصولوں کے طور پر اتارے ہیں یا ان کی اپنی تحقیق،مشاہدے،تجربے یا تجسس کی بنیاد پر انہوں نے اپنے نظام زندگی کے لئے وضع کر رکھے ہیں۔ درحقیقت دنیاوی طور پر وہی لوگ کامیاب تصور ہوتے ہیں جو ان رہنما اصولوں کی کسی بھی طریقے سے پیروی کرتے ہوئے انسانوں کی فلاح و بہبود، باہمی بھائی چارے اور جیو اور جینے دو کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
بغور نظر دیکھیں تو قبل از انسان ،کرہ زمین بھی ایسے ہی نظام کے تحت عمل پیرا تھی جب اللہ کی زمینی مخلوق جیو اور جینے دو کی پالیسی کے تحت اس زمین پر اپنی زندگی بسر کر رہی تھی اور آج بھی جنگلوں کی مخلوق میں یہی قانون رائج ہے جسے عرف عام میں ’’جنگل کا قانون‘‘ کہتے ہیں۔ جنگل کا یہ قانون آج بھی اپنے اندر متناسبیت کا حسین امتزاج لئے ہوئے ہے گو کہ ہمارے مہذب اور تمدنی کلچر میں جنگل کے اس قانون کا لغوی مطلب مکمل طور پر الٹ لیا جاتا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہوتی ہے مگردر حقیقت جنگل کے قانون میں بھی ایسی حقیقت نہیں پائی جاتی۔
شیر بھی جب شکار کرتا ہے تو نہ ہی وہ سارا شکار خو دہڑپ کرتا ہے اور نہ ہی اپنے کئے ہوئے شکار کو اپنی کچھار میں ’’آئندہ نسلوں‘‘ تک کے لئے محفوظ کرتا ہے بلکہ اپنی شکم سیری کے بعد اس کے شکار سے بہت سے دوسرے درندے و جانور اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ دوسری طرف حضرت انسان کی کارگزاری کو دیکھیں اوربالخصوص تیسری دنیا کے حکمرانوں کی کارگزاریاں و چیرہ دستیاں حیرت زدہ کر دیتی ہیں کہ کس طرح ’’جنگل کے قانون‘‘ کی آڑ لیتے ہوئے بے زبان مخلوق کی بے عزتی کی جا رہی ہے،ان بے زبانوں کے دستور کو الگ ہی معنویت دیتے ہوئے کس طرح اپنی حرص و ہوس پر پردہ ڈالا جاتا ہے، اپنی بد نیتوں کو پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ اگر حکمران طبقہ ’’جنگل کا قانون‘‘ ہی لغوی معنوں میں رائج کر دے تو بخدا اس کرہ ارض پر غریبوں ،مسکینوں،لاچاروں اور بے بسوں کے لئے زندگی گزارنے کا سامان بھی پیدا ہو جائے کیونکہ جنگل کے قانون میں بھی جانور ایک دوسرے کی حقوق کا پاس رکھتے ہیں۔

شیئر: