Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لولی لنگڑی بلدیات

=یہ کون سیاستدان ہیں جنہیں کسی بھی قومی و صوبائی انتخاب میں در در جا کے ووٹ کی بھیک لیتے شرم نہیں آتی
* * * *وسعت اللہ خان* * * *
پاکستان کے فوجی حکمرانوں کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کی اتنی ضرورت نہیں تھی جتنی غیر جماعتی بلدیاتی اداروں کی۔تاکہ ایک احسان مند تابعدار متوازی قیادت قومی و صوبائی سیاست پر عشروں سے قابض سیاسی مگر مچھوں کے مقابل اتاری جا سکے اور یہ بھی اندازہ ہوتا رہے کہ نچلی سطح پر عام آدمی فوجی حکمرانوں کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔جواز یہ پیش کیا گیا کہ جب تک نچلی سطح پر جمہوری کلچر پیدا نہیں ہوگا تب تک قومی و صوبائی اسمبلی کے پتوں کو پانی دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور جمہوریت کی روح اوپر کے 2 پنجروں میں ہی پھڑپھڑاتی رہے گی اور ووٹر صرف وہ اے ٹی ایم مشین بنا رہے گا جس سے اوپر کے 2بادلوں ( مرکز اور صوبہ ) پر رہنے والے مقتدر خاندان حسبِ ضرورت و منشاء ووٹ بینک سے نوٹ نکالتے رہیں۔
ہر فوجی دور کے بعد جب جب بھی سیاسی حکومتیں آئیں انہوں نے بلدیاتی اداروں کو فوجی ادوار کی باقیات سمجھ کر فوجی حکمرانوں کا بلدیاتی نظریہ دانستہ یا نادانستہ طور پر درست ثابت کیاچنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دو تہائی اکثریت سے آنے والی حکومتوں سے بھی جب بلدیاتی سطح تک اختیارات کا بٹوہ ڈھیلا کرنے کا مطالبہ کیا جاتا تو یا تو بات بدل دیتے یا اس طرح کی بہانہ سازیوں پر اتر آتے کہ ’’ ابھی مناسب وقت نہیں آیا ، کروا لیں گے جلدی کیا ہے ، آپ کو آخر اتنی دلچسپی کیوں ہے بلدیاتی نظام سے۔
اس ملک میں اور بھی تو مسائیل ہیں وغیرہ وغیرہ ’’۔ مجھ جیسوں کو آج بھی حیرت ہے کہ جمہوریت پسندوں کو جب بلدیاتی نظام سے اتنی ہی چڑ تھی تو انہوں نے1973ء کے آئین میں لوکل گورنمنٹ کے قیام کے لئے خود کو پابند کیوں کیا اور جب پابند کر ہی لیا تو پھر یہ آئینی ذمہ داری پوری کیوں نہ کی۔ وہ تو بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے الیکشن کمیشن اور منتخب صوبائی حکومتوں کو گردن سے پکڑ کے2 برس قبل پہلی بار بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر مجبور کردیا۔ یہ وہی صوبائی حکومتیں ہیں جنہوں نے ہمیشہ زانو پیٹے کہ پاکستانی فیڈریشن کا بس نہیں چلتا کہ وہ صوبوں کو بالکل بے دست و پا کرکے رہے سہے اختیارات بھی اپنے ہاتھوں میں جمع کرلے۔جب تک مرکز سے صوبوں کو اختیارات و وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوگی تب تک نہ انصاف ہوگا اور نہ ہی صوبوں کی اختیاراتی و مالیاتی بے بسی دور ہوگی اور نہ ہی یکسوئی سے ترقی ہوگی۔خدا خدا کرکے زرداری حکومت نے متفقہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کا یہ رونا بھی کسی حد تک ختم کردیا۔لیکن ہوا کیا ؟ صوبوں نے مرکز سے ملنے والے اختیارات اپنے پاس رکھ لئے۔18ویں ترمیم کی منظوری کے4 برس بعد بس اتنا فرق پڑا کہ پہلے اختیارات کے خزانے پر مرکز کا چوکیدار بیٹھا ہوا تھا اب اس خزانے پر4 اور چوکیدار بھی موٹا ڈنڈا لے کے بیٹھ گئے ہیں۔جیسے مرکز صوبوں کو ترساتا تھا اب صوبے بلدیاتی اداروں کو اسی طرح ترسانے کا لطف لے رہے ہیں۔
یقین نہ آئے تو چاروں صوبوں کے بلدیاتی اختیارات کا ڈھانچہ دیکھ لیجئے۔صوبائی حکومتوں کے مرتب و منظور کردہ بلدیاتی مسودوں میں انتظامی و مالیاتی اختیارات اور محکمہ جاتی فرائض کی تقسیم کا فارمولا دیکھ لیجئے۔ آپ کو یوں لگے گا کہ عوام کو نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کے نام پر بلدیاتی اختیار کی تمام سڑکیں صوبائی گھنٹہ گھر سے شروع ہوتی ہیں اور وہیں پر ختم ہوتی ہیں۔
ایک ہاتھ سے اختیار دیا جا رہا ہے اور دوسرے ہاتھ سے اس کا استعمال روکا جا رہا ہے۔ جس طرح منتخب وفاقی حکومت کی سمت درست رکھنے کے لئے ایک سپر گورنمنٹ ( عسکری اسٹیبلشمنٹ ) گردن پر گرم گرم سانس چھوڑتی رہتی ہے اسی طرح منتخب بلدیاتی اداروں کے سر پے ڈپٹی کمشنر سمیت صوبائی بیورو کریسی کی صورت میں ایک سپر گورنمنٹ بلدیاتی اداروں میں صوبائی مداخلت یقینی بنانے اور انہیں جا بجا گدگدی کرنے پر مامور ہے یعنی بلدیاتی عہدیدار ایک جانب اپنے ووٹروں کو جوابدہ ہیں اور دوسری جانب معمولی مالیاتی و انتظامی نقل و حرکت کے لئے صوبائی مشینری کی خوشامد اور چشم ابرو پر نگاہ رکھنے کے بھی پابند۔ سپریم کورٹ زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتی تھی کہ وہ صوبوں کو بلدیاتی انتخابات کروانے پر مجبور کردے سو اس نے مجبور کردیا۔
والدین بچے کو زبردستی کھانے کی میز پر تو بٹھا سکتے ہیں لیکن کھانا رغبت سے کھانے پر بہرحال مجبور نہیں کرسکتے چنانچہ جو اختیارات صوبوں نے مرکز سے اپنا حق سمجھ کے وصول کئے ان میں سے کچھ اختیارات اگر بلدیات کو منتقل کئے بھی کئے گئے ہیں تو احسانیہ بھیک سمجھ کے۔ وہی اختیارات دئیے گئے ہیں جن سے صوبے کی آمریت پر کوئی فرق نہ پڑے۔جیسے ہم میں سے اکثر لوگ وہی پرانے کپڑے لتے مستحقین میں بانٹتے ہیں جو گھر والوں کے کسی کام کے نہیں رہتے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کو بے دست و پا رکھ کے دراصل انہی ووٹروں کی توہین کررہی ہیں جنہوں نے ان حکومتوں کو مرکز اور صوبوں میں اپنے ووٹ کے طفیل عزت بخشی۔ لیکن جب انہی ووٹروں نے بلدیاتی انتخابات کی شکل میں اپنی ہی منتخب اوپر کی حکومتوں سے صرف اتنے اختیارات مانگنے کی خواہش ظاہر کی جن کے ذریعے گلی محلے صاف رہ سکیں ، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے بارے میں فیصلہ مقامی سطح پر ہو سکے اور شہری و دیہی ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن پر براہِ راست نگاہ رکھی جا سکے تو ان ووٹروں کو انہی کے ووٹوں کی احسان مند حکومتیں لنڈے کی اختیاراتی اترن تھما رہی ہیں۔ یہ کون سیاستدان ہیں جنہیں کسی بھی قومی و صوبائی انتخاب میں در در جا کے ووٹ کی بھیک لیتے شرم نہیں آتی مگر اس ووٹ کے عوض اپنی تجوری سے اختیارات کے چند بلدیاتی سکے بھی ووٹروں کی جانب اچھالتے ہوئے بے حسی اوڑھ لیتی ہے۔

شیئر: