Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حرمین شریفین کے انتظامات، حیران ہے عقل انسانی

اس طرح کی مثالی خدمات صرف سعودی حکام وعوام ہی انجام دے سکتے ہیں
* * * *رضی الدین سید۔کراچی* * * *
گزشتہ سالوں میں عمرے کی سعادت کی خاطر ہمیں جب دو 3 مرتبہ سعودی عرب جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں کے انتظامات اور دیگر سماجی و ترقیاتی پہلوؤں کو دیکھ کر دل سخت حیرت میں ڈوب گیا۔ تڑپ ہوئی کہ ان پہلوؤں سے بھی سعودی عرب پر ضرور کچھ لکھا جائے۔وہاں کی عبادات اور روحانیت پر تو کیا اللہ والے اورکیا دنیامیں ڈوبے ہوئے،سب ہی لکھتے ہیں لیکن بقیہ معاملات میں جو خوبیاں وہاں پائی جاتی ہیں ا ور جواپنی جگہ پر حددرجہ لاجواب ہیں،ان پر بھی ضرور لکھا جانا چاہئے۔
حقیقت یہ ہے کہ اپنے اندرہر روز، ہر مہینے اور ہر سال، ہزاروں اور لاکھوں افراد کو دنیا بھر سے سمولینا اور پھر ان کے انتظامات میں ذرہ برابر بھی کمی و غفلت نہ ہونے دینا،صبح و شام کے تمام معاملات کا پرسکون طور پر جاری رہنا،روئے زمین پر سب سے بڑے ازدحام کے باوجود حرمین شریفین میں نام کو بھی گندگی نہ ہونا، پلاسٹک اور مشینی کولروں میں ٹھنڈے زم زم کے پانی کا ’’24/7‘‘یعنی مسلسل موجود رہنا، اورسعودی حکام و ذمہ داران کی جانب سے زائرین کو شرک و بدعت کے افعال سے روکنے کے سوا مطلق تنگ نہ کرنا، ایسی صفات ہیں جن پر نگاہ ڈال کر ہر مسلم، سعودی عرب کے حسنِ انتظام پر عش عش کر اٹھتا ہے۔
حال یہ ہے کہ حرمین شریفین میں سیکڑوں غیرملکی کارکنان ،بشمول پاکستانی ،ہمہ وقت چوکنا اورآ مادۂ کار رہتے ہیں۔بیسیوں صفائی مشینیں ،وسیع و عریض مساجد الحرمین الشریفین کو ہر وقت دھوتی اور سکھاتی رہتی ہیں۔ ان گنَت طہارت خانوں اور وضو خانوں میں بغیر کسی غلاظت اور ناگوار بدبو کے پانی ہر وقت دستیاب رہتا ہے۔ خودکار زینے اور اے سی پلانٹس مسلسل و ہمہ دم متحرک و رواں رہتے ہیں۔ یہ وہ اقدامات ہیں کہ انسانی عقل و فہم جنہیں دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے۔ قیام کے دوران وہاں ہم نے بارہا سوچا کہ یاالٰہی، سال کے365دن اس حُسنِ انتظام کااس طرح لگاتارجاری رہنا کہ نہ کبھی اوقات میں فرق آئے، نہ کبھی کام میں رکاوٹ پیدا ہو، نہ کبھی کوئی ہیبت ناک مسئلہ درپیش ہو اور نہ کبھی کوئی ہلکا ساجھگڑا یا بدتمیزی سامنے آئے، کیا اسی دنیا کے انسانوں کا کارنامہ ہوسکتا ہے؟ سوچنا پڑتا ہے کہ یاالٰہی کیا یہ سعودی بھی اسی خاکی دنیا کے باسی ہیں؟ہمارا سوچا سمجھا خیال ہے کہ حرمین شریفین کے ان محیرالعقول انتظامات کے لئے اگر خدانخواستہ آج کی ترقی یافتہ اقوام کے امریکی، برطانوی یا فرانسیسی مسلم ماہرین و خادمین کو بھاری مشاہروں پر وہاں مقرر کردیاجائے، تب بھی، جی ہاں تب بھی ،وہ ان انتظامات کو نوک پلک کی عین درستگی کے ساتھ سنبھالنے میں ناکام رہیں گے۔ بقول ابن ِ انشاء:
’’ہاں ٹھوک بجا کر ہم نے یہ حکم لگایا ہے سب مایا ہے ‘‘ حقیقت یہ ہے کہ عقل و خرد سے ماورا اس طرح کی مثالی خدمات صرف سعودی حکام اور سعودی عوام ہی انجام دے سکتے ہیں۔ وہی جن کے لئے گوری اقوام آج بھی ترقی یافتہ کے الفاظ استعمال کرنے سے نجانے کیوں گریزکرتی ہیں۔ دنیا جہان کی مسلم خواتین و مرد حضرات،کعبہ مشرفہ کے گرد طواف کے دوران عموماً اور حرمین شریفین میں نمازوں کے دوران خصوصاً ، ایک ساتھ گردش عبادت کرتے اور نمازیں ادا کرتے ہیں۔ آج کے ایسے دور میں جب ہر قسم کا گناہ سہل بنادیا گیا ہو، حرمین شریفین میں ناقابل یقین ازدحام کے باوجود مرد و خواتین میںآج کی تاریخ تک کوئی ایک نازیبا واقعہ بھی پیش نہیں آیا، اسے اللہ کریم کے فضل کے سوا اور کس چیز کا نام نہیں دیا جائے گا؟اسلام کے بارے میں زبان درازی کرنے والوں کو کیا اللہ کریم کا یہ فضل اپنی آنکھوں سے نظر نہیں آتا؟ حرمین شریفین میںہرروز اور ہر وقت لاکھوں افرادکے موجود رہنے کے باوجود نہ تو وہاں کبھی پانی کی قلت ہوتی ہے،نہ کبھی کھانا کم پڑتاہے، نہ دیگر اشیائے خورونوش کا کال سامنے آتاہے اور نہ ہی بجلی کی قلت دیکھنے میں آتی ہے۔ ہر وقت اورہر جگہ ،ہر چیز سب کی خدمت کے لئے وافر تعداد و مقدار میںحاضر رہتی ہے۔
اگر کعبہ مشرفہ ، مسجد الحرام اور مسجد نبوی شریف کو خوبصورتی، چمک دمک،سہولت اور وسعت و کشش کے لحاظ سے دیکھا جائے تب بھی ان عمارتوں کا ہر گوشہ اس قدر لاجواب ، اس قدر حیران کن ، اس قدر پرکشش اور اس قدر منظم نظر آتاہے کہ اگر انسان ان کا مکمل تصور کرنا چاہے توایسا کرنا بھی اس کے لئے ممکن نہیں ۔ صفا ومروہ کے مابین سعی کرتے ہوئے مکہ مکرمہ میں اور جنت البقیع کی زیارت کرتے ہوئے مدینہ منورہ میں دل بار بار رقّت سے یہ سوچ کر ضروربھر آیا کہ جس دین اور امت کی خاطر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعائیں فرماتے تھے نیز بے شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن کے لئے ان گنت اذیتیں اور مصیبتیں برداشت کیا کرتے تھے اور جان و مال کی لازوال قربانیاں دیا کرتے تھے، مگر آج ہم اس’’ نعمتِ عظیم ‘‘سے ، معاذ اللہ، بے اعتنائی برت رہے ہیں۔
جس نوعیت کا بھی حکم، شریعت کا ہو، وطن واپس لوٹ کرہم اسی حکم پر من و عن عمل نہیں کرتے ۔ افسوس کہ اس پر بھی ہمارے دلوں میں کسک کی کوئی ہلکی سی آنچ بھی محسوس نہیں ہوتی۔ ضمناً ایک اہم نکتہ یہاں مزید واضح کیا جانا ضروری ہے کہ اپنے معصوم صاحبزادے کی محبت میں 7چکر لگانے والی ’’خاتونِ محترم سیدہ ہاجرہ علیہا السلام ‘‘کی محبت کی قدر افزائی کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ساری دنیا سے آنے والے زائرین ِ حرم شریف پر واجب فرمادیا کہ وہ سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کے اس عمل کا قیامت تک حرف بہ حرف اتباع کریں، بصورت دیگر نہ ان کا حج، حج کہلائے گا اور نہ ان کا عمرہ، عمرہ ہوگا لیکن خوشی کی بات اس میں یہ بھی ہے کہ اگرچہ سعی کرنے والی ایک باہمت خاتون تھیں ، صفا اور مروہ کے درمیان ایک خاص مقام سے دوسرے خاص مقام تک ان کے دوڑنے کے عمل کی اتباع ،اللہ تعالیٰ نے صرف مردوں کے لئے واجب قرارفرمائی جبکہ خواتین کو ایک خاص مقام سے دوسرے خاص مقام تک بھاگنے سے روک دیا ۔
خواتین کے حقوق اور عزت و احترام کے نعرے بلند کرنے والوں، اوربلند کرنے والیوںکو اس حقیقت سے ضرور سبق حاصل کرنا چاہئے۔اس سے اعلیٰ مثال بھلا دنیا اور کیا دے سکتی ہے؟اسلام خواتین کو سعی کے دوران بھاگنے سے تا قیامت مستثنیٰ کرتا ہے۔ اصل میں سوچنے اور سمجھنے کے لئے لوگوں میں عقل و شعور کا ہونا ضروری ہے’’تو اے لوگو تم کیوں تدبر نہیں کرتے؟‘‘ مسجدِحرام اور مسجد نبوی شریف دنیا بھر میں دوایسی محترم مساجد ہیں جہاں پہنچ کر نگاہیں حیرت انگیز طور پر پاکیزہ اور گناہوں سے سے دور ہوجاتی ہیں۔دنیا کے کون سے ملک کی ہستی ہے جو وہاںموجود نہیں ہوتی۔اگر جاپان کی مسلم ہستیاں وہاں حج و عمرے کی ادائیگی کے لئے آتی ہیں تو کوہ قاف کی مسلم شخصیات بھی وہاںموجود ہوتی ہیں۔سب ایک ہی مطاف میں طواف کرتے ہیں مگر، الحمدللہ، نگاہیں پھر بھی پاکیزہ رہتی ہیں ،اور دل ہیں کہ پھر بھی سہمے جاتے ہیں۔ مجال ہے کہ وسوسے غالب آجائیں اور شیطان درمیان میں راہ پاجائے۔

شیئر: