Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’دعوت‘‘

قوم نے اگر’’ تجدید عہد‘‘ کی کسی ایک دعوت کو بھی قبول کر لیاتوپاکستانیوں کو دنیا میں کہیں پردیسی کی حیثیت سے مقیم ہونے کی ضرورت نہیں رہے گی
* * * شہزاد اعظم ۔ جدہ* * *
دعوت بھی عجب چیز ہے۔اس کانام سنتے ہی وضع وضع کے چٹخارے حس ذائقہ میں بجلی کی مانند کوند جاتے ہیں۔دعوت کے لئے ہر کوئی تیار اور متجسس رہتا ہے کیونکہ اس کی توقع دوسروں کی جانب سے ہوتی ہے۔اپنی دعوت آپ کرنے کے لئے انتہائی عزم اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسا حوصلہ صرف ہم جیسے تجرد زدہ پردیسیوں میں ہی پایا جاتا ہے۔ ہم وہ جرأتمند لوگ ہیں جو دل ہی دل میں اپنے آپ سے اپنے پسندیدہ پکوان کے بارے میں دریافت کرتے ہیں،سپر مارکیٹ جا کراس پکوان کی ’’ریسیپی‘‘ کے مطابق درکار اشیاء خریدتے ہیںاور پھر وطن میں اپنی زوجہ کو فون کر کے اس کی تیاری کی ترکیب دریافت کرتے ہوئے ایک تیر سے دو شکار کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس پکوان کی تیاری کے طریقے سے آشنائی ہوجاتی ہے اور ساتھ ہی نصف بہتر اس احساس میں مستغرق ہو جاتی ہے کہ ان کی معاشی خوشحالی کے لئے ان کے سرتاج کس قدر ’’جبر و مشقت‘‘ میں زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔نتیجتاًہمدردی، مؤدت ومحبت میں اضافہ ہوتا ہے اور انتہائی مختصر ترین الفاظ میں پیمان وفاکی تجدید ہو جاتی ہے۔
پردیسی جب وہ پکوان تیار کرکے کھانے کے لئے بیٹھتا ہے تو اس میں اسے اپنی عائلہ کے ہاتھ کا ذائقہ خواہ مخواہ میں ہی محسوس ہونے لگتا ہے اور یوں وہ اس طعام کو بیوی کی جانب سے دی جانے والی دعوت سمجھ کر خوش ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ تمام دعوتیں صرف کھانے پینے کے لئے نہیں ہوتیں۔مثال کے طور پر کبھی کسی کو دعوت خطاب دی جاتی ہے اورکسی کو دعوت سماعت ،کبھی کسی کو کوئی کام کرنے کی دعوت دی جاتی ہے اور کبھی آرام کی۔ہمیں یقین ہے کہ بہت سے قارئین کو یہ علم ہی نہیں ہوگا کہ بعض دعوتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جس میں کسی کو بلایا نہیں جاتا اس کے باوجود ہر شخص کسی نہ کسی بہانے وہاں پہنچ جاتا ہے۔ ہمارے بچپن میں ہماری نانی اماں کی سہیلی ایک ایسی ہی دعوت کے بارے میں ہمیں بتایا کرتی تھیں۔ان کی تمام گفتگو ہمارے سر سے گزر جاتی تھی۔ان کی باتوں کے معانی ہمیں موصوفہ کے انتقال کے دس برس بعدسمجھ میں آئے۔
اگرہماری بات اس وقت آپ کو بھی سمجھ میں نہ آئے تو یقین رکھئے،3650روز کے بعد آپ سب جان جائیں گے۔نانی کی سہیلی سنایا کرتی تھیں کہ : ’’ہمارے والدین بہت غریب تھے۔ کوئی رشتے دار ملنے کے لئے ہمارے ہاں آنا پسند ہی نہیں کرتا تھا۔ہمارے اباجان کسی کوگھر آنے کی دعوت دیتے تو وہ مصروفیت کا بہانہ بنا کر معذرت کر لیتا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ہمارے عمزادوں نے جیسے ہمارا ہی گھر دیکھ لیا۔ آئے روزجسے دیکھو منہ اٹھا کر چلا آتا، بہانہ یہ کہ خالہ اماں سے ملنے آیا تھا۔اس وقت میں دسویں جماعت کے امتحان کی تیاریوںمیں مصروف ہوتی مگرکسی دعوت کے بغیرآنے والوںکی مہمانداری کے باعث میری پڑھائی کا ہرج ہوتا۔
چھوٹی امی کے بڑے صاحبزادے کو میرے ہاتھ کے پکوان بہت لذیذلگے۔انجام یہ ہوا کہ آج 40برس ہوگئے،انہیں ہر روزپکا پکا کر کھلا رہی ہوں۔آج بھی وہ یہی کہتے ہیں کہ ’’بیگم!تمہارے پکائے ہوئے کھانوں کا جواب نہیں‘‘۔ بعض دعوتیں ایسی ہوتی ہیں جو نہ صرف عام جھام بلکہ’’ اہم، بااثر اور بڑی شخصیات‘‘ کی جانب سے ہر کس و ناکس کو دی جاتی ہیں اس کے باوجود کوئی فرد اسے قبول کرتا نظر نہیں آتا۔سال بھر میں متعدد مرتبہ ایسی دعوتیں مختلف فورمز اور پلیٹ فارمز سے دی جاتی ہیں مگر کوئی اس طرف دھیان ہی نہیں دیتا۔
گزشتہ 40برس سے تو ہم بھی دیکھ رہے ہیں کہ 23مارچ،28مئی،14اگست،6ستمبر،16 اکتوبر،11 نومبراور پھر 25دسمبر کو ہمارے وطن عزیز کے مختلف گوشوں سے نہایت ’’قیمتی اور نایاب‘‘ صدائیں یہ دعوت دیتی سنائی دیتی ہیں کہ: ’’آئیے! سب مل کر عہد کریں کہ ہم پاکستان کوقائد اعظم محمد علی جناح کے خواب کی تعبیر بنا کر دم لیں گے یا ’’آج کا دن ہمیں اس عظیم عہد کی یاد دلاتا ہے جو ہم نے انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے آزادی کے لئے کیا تھا۔آئیے!سب مل کر اس عہد کی تجدید کرتے ہیں‘‘ یا’’آئیے! ہم سب متحد ہو کر دشمن کو یہ باور کرادیں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں‘‘یا’’ آئیے!آج کے دن یہ عہد کریں کہ ہم سب متحد ہو کر دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیں گے‘‘۔اس کے باوجود کوئی فرد اس دعوت پر کان نہیں دھرتا۔
آج تک ہمیں وطن میں کوئی ایسا راہ چلتا نہیں ملا جسے ہم نے روکا ہو مگر اس نے رکنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہو کہ ’’ معذرت چاہتا ہوں، مجھے دراصل تجدید عہد کی دعوت میں پہنچنا ہے‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم نے اگر’’ تجدید عہد‘‘ کی کسی ایک دعوت کو بھی قبول کر لیاتوپاکستانیوں کو دنیا میں کہیں پردیسی کی حیثیت سے مقیم ہونے کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ سب ہی وطن عزیز کے لئے اپنا رخت سفر باندھ لیں گے۔ہمیں پختہ یقین ہے کہ’’وہ صبح ضرور آئے گی‘‘۔

شیئر: