Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مادیت ہی کی تربیت دی تو رونا کیسا۔۔۔۔

 آج میرے بچے خود غرض ہیں،انہیں بس اپنی زندگی کی فکر ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ میں نے شروع سے انہیں تربیت ہی مادیت کی دی تھی
* * * * *مصطفی حبیب صدیقی،کراچی* * * * * *
کاشف نے جب مجھے ان دونوں کے بارے میں بتایا تو میں کافی پریشان ہوگیا،دونوں کی عمریں 70اور75کے لگ بھگ ہونگی مگر اس عمر میں تنہائی کا کرب تھا ،کراچی جیسے شہر میں اولڈ ہائوس میں رہنے پر مجبور تھے 4جوان بیٹوں کے ہوتے ہوئے بے اولاد تھے۔یہ کہانی کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں رہائش پذیز جاوید صاحب اور حمیدہ جاوید کی ہے۔بیرون ملک جانے والے کبھی کبھار اپنوں کی ذمہ داریوں سے ایسے بے پرواہ ہوجاتے ہیں کہ افسوس ہوتاہے۔ * السلام وعلیکم انکل(میرے زور سے سلام کرنے پر جاوید صاحب چونکے اور پھر رک کر ہاتھ کے اشارے سے جوا ب دیا۔
* آپ مجھے نہیں پہچانتے مگر میں کاشف کا دوست ہوں اور آپ کو جانتا ہوں ،کیا کچھ دیر بیٹھ کر بات ہوسکتی ہے۔
* ہاں ہاں بیٹھو بیٹا (ادھر ادھر دیکھتے ہوئے) چلو یہیں بیٹھ جاتے ہیں۔۔
* ہم گلشن کی ایک فٹ پاتھ کے ساتھ گھاس پر ہی بیٹھ گئے۔
* بچے کہاں ہیں؟(میں نے گھمائے پھرائے بغیر براہ راست سوال کیا)
* وہ ، وہ ،سب تو کینیڈا امریکہ میں ہیں نا ،بے چارے کافی عرصہ ہوگیا،بیگم بچوں کے ساتھ
وہاں محنت مزدوری کررہے ہیں(جاوید صاحب ،آنکھیں چراتے ہوئے اپنے بچوں کے کھلے جرم پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کررہے تھے)
* اچھا ،چلیں آپ کے گھر چلتے ہیں ،میں سامنے سے سموسے لے لیتا ہوں ،ساتھ بیٹھ کر کھائیں گے اور چائے پئیں گے ۔چائے تو پلائیں گے نا(میں نے ازراہ مذا ق کہا ،مگر میری پیشکش پر جاوید صاحب کے چہرے پر ایسی رونق پھیلی ایسا لگا جو برسوں بعد آئی ہو)
* چائے ،ہاں ہاں،ضرور ،تم میرے ساتھ بیٹھوگے ،وقت ہے تمہارے پاس ،بیٹا تم لوگ تو مصروف بچے ہو نا دیکھ لو۔
* جی جی ،بہت وقت ہے آج میرے پاس چلیں چلتے ہیں ۔
* میں اور جاوید صاحب سموسے کے ساتھ گھر میں بیٹھے تھے کہ ان کی اہلیہ حمیدہ جاوید ہاتھوں میں چائے کی پیالیوں کی تھال اٹھائے آگئیں۔خوشی ان کے چہرے سے بھی نمایاں طور پر جھلک رہی تھی۔
* جاوید صاحب !بچے کب گئے اور آپ کب تک تنہا رہیں گے آپ کیوں نہیں چلے جاتے؟(میرے سوال پر جاوید صاحب نے بولنا شروع کیا ،درمیان میں حمیدہ جاوید بھی کچھ نہ کچھ کہتی رہیں اور میں گفتگو سن کر دل ہی دل میں خون کے آنسو روتا رہا)
* بیٹا ،کیا بتائوں ،بچوں کو تو ملک چھوڑے برسوں بیت گئے،آخری بیٹا 8سال پہلے گیا تھا۔سب پورے خاندان کے ساتھ وہاں سیٹلڈ ہیں ۔کہتے ہیں کہ پاکستان میں رہنا کوئی انسانوں کے بس کی بات نہیں۔میں تمہیں بتائوں ،جب میرے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا تھا تو میں نے حمیدہ سے کہاتھا کہ میرا ایک بازو آگیا ،دوسرے بیٹے پر دوسرے بازو کا دعویٰ کیا جبکہ چاروں بیٹوں کو اپنا جسم قرار دیا مگرآہ !کیا بتائوں بیٹا ،اب تو جسم ہی نہیں رہا۔
* حمیدہ جاوید درمیان میں گویا ہوئیں،بچے ویسے بہت لائق ہیں ،روز فون کرتے ہیں،انٹرنیٹ پر ہم باتیں کرتے ہیں،اس 400گز کے بنگلے میں تنہا رہتے ہیں تو گھٹن ہوتی ہے مگر اس خیال سے یہ بنگلہ نہیں چھوڑتے کہ ایک دن بچے واپس آئیںگے تو یہ آنگن پھر رونق بخشے گا۔
* تو آپ کے بارے میں سناتھا کہ یہاں کوئی اولڈ ہوم ہے آپ وہاں بھی جاتے ہیں؟میں نے سوال کیا ۔
* ہاں ،قریب ہی ایک بنگلہ ہے ،وہاں چند بڈھے جمع ہوگئے ہیں۔تقریباً سب کی ہی یہی کہانی ہے۔وہاں چلاجاتا ہوں اور گپیں مارتے ہیں ۔چائے پیتے ہیں ۔دل تو چاہتا ہے کہ وہیں رہوں مگر حمیدہ کی وجہ سے واپس آنا پڑتا ہے۔
* تو کیا کبھی آپ نے بچوں سے کہانہیں کہ ہم تنہا ہوگئے ہیں واپس آجاؤ؟
* ہاں ایک دو مرتبہ کہاتو ہے مگر وہ بھی مجبور ہیں ،یہاں کہاں ملازمت ہے ۔بیگم بچے بھی واپس نہیں آنا چاہتے۔اور ویسے بھی بیٹا!اب ہمارا کیا ہے ،ایک دن ایسے ہی چلے جائیں گے ،ان کی زندگی ہے گزارلیں ۔
* لیکن ان پر ذمہ داری تو عائد ہوتی ہے؟
* حمیدہ جاوید بولیں!ہاں ہوتی ہے مگر اس میں قصور جاوید صاحب کا زیادہ ہے ۔ان کی ہی وجہ سے آج ہم یہ دن دیکھ رہے ہیں؟
* ابھی میں اس جملے پر محوحیرت ہی تھا کہ جاوید صاحب غرائے(میرا کیا قصور ہے ،میں نے کیا کردیا،ہر وقت مجھ سے لڑتی رہتی ہو)
* ہاں ہاں!آپ کا ہی قصور ہے،بچوں کو بچپن سے ایک ہی تربیت دی کہ بیٹا دولت بڑی چیز ہے۔پیسے میں بڑی طاقت ہے،بس جس کے پا س پیسہ ہے وہی کامیاب ہے،انہوںنے بس پیسے کو ہی سب کچھ سمجھ لیا۔
* بیٹا میں تمہیں بتاؤ،میں ان سے کہتی تھی کہ بچوں کوکچھ مشرقی روایات بھی سکھائیں مگر یہ انہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانے کیلئے ایک سے ایک انگریزی اسکولوں میں اور پھر کالجوں میں ڈالتے رہے۔بچے صرف دولت کمانے کیلئے ہی پڑھتے رہے۔انہیں کسی نے یہ تربیت دی ہی نہیں کہ والدین کا کیا حق ہے۔جب ہم نے انہیں یہ شعور ہی نہیں دیا تو ان سے شکوہ کیا۔یہ خود بھی ساری عمر بس پیسہ کمانے میں لگے رہے۔کرتو لیا اتنا بڑا بنگلہ ۔دیکھو دیکھو،سامنے 3،3گاڑیاں کھڑی ہیں ،سب خراب ہیں ،بس ایک سے ایک گاڑی چاہئیے ،گھر میں ہر سال نیا فرنیچر چاہئے،ارے بھئی بچوں کی تربیت بھی کی ہوتی(حمیدہ جاوید کا پارہ چڑھ چکا تھا جبکہ جاوید صاحب کٹہرے میں کھڑے کسی مجرم کی طرح سر جھکائے اپنے جرائم کی فہرست سن رہے تھے)
* لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ جاوید صاحب نے یہ سب کس کے لئے کیا ،اپنے بچوں کیلئے ہی نا ،آج اگر یہ اعلیٰ تعلیم نہ دلاتے تو کیا وہ کینیڈا اورامریکہ میں ہوتے؟(جاوید صاحب کو شرمندگی سے بچانے کیلئے میں نے کچھ حمایتی جملے ادا کئے)
* نہیں بیٹا !حمیدہ صحیح کہتی ہے،اصل میں ایک بات ہے جو تم جیسے نوجوانوں کو ہم سے سبق کے طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ بچوں کو صرف مادیت کی تعلیم نہ دیں،انہیں کچھ اور بھی سکھائیں۔آج میرے بچے خود غرض ہیں،انہیں بس اپنی زندگی کی فکر ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ میں نے شروع سے انہیں تربیت ہی مادیت کی دی تھی۔
* میں نے جاوید صاحب اور حمیدہ جاوید کی گفتگو سن کر سموسے کھانے اور چائے پینے کے بعد کچھ دیر گپیں ماریں،انہیں حوصلہ دیا اور گھر واپس آگیا۔
* مگر یہی سوچ میں مبتلا ہوں کہ جاوید صاحب کے معاملے میں غلطی کس کی ہے ،ان کی یا ان کے بیٹوں کی ؟فیصلہ قارئین کریں،میری کوشش ہے کہ ان سچی آپ بیتیوں کے ذریعے کچھ پردیس کی تصاویر دکھاسکوں ۔آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔

شیئر: