Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ شکوہ کر رہی تھی،’’آپ میری رسم حنا میں شریک نہیں ہوئیں‘‘

اپنی ماموں زاد بہن کو گلے لگائے دعاؤں کے حصار میں رخصت کرتے وقت سچ بتانا نہیں چاہتی تھی
* * * * اُم مزمل۔جدہ* * * * *
وہ اپنی پھوپھی زاد بہن سے شکوہ کر رہی تھی کہ آپ آج رخصتی کے دن آئی ہیں، کسی بھی دن میری رسم حنا میں شریک نہیں ہوئیں۔ وہ اپنی ماموں زاد معصوم سی بہن کو گلے لگائے دعاؤں کے حصار میں رخصت کرتے وقت سچ بتانا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے صرف اتنا ہی کہاکہ محترمہ آپ نے تو صرف بی فارمیسی کر کے ڈگری لے لی لیکن ہم ڈاکٹرز کو مریض کیلئے دن اور رات ایک کر کے دکھی انسانیت کی خدمت کاحق ادا کرنا پڑتا ہے۔ وہ بتانے لگی کہ میری سسرال آپ کے گھر کے بالکل قریب ہے۔ ہم لوگ آئندہ ملتے رہیں گے۔ وہ سر ہلا کر رہ گئی۔
* ابھی ڈیڑھ سال یعنی 18ماہ کاعرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس کی زندگی میں بھونچال آگیا۔وہ ماں کے پاس پہنچی ،تفصیل سن کروہ بھی پریشان ہو گئیں ۔وہ بتا رہی تھی کہ اس کے ساس سسر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ،جس میں کافی خرچ ہوا۔ علاج جاری ہے لیکن اب بینک میں پیسے نہیں ہیں۔ وہ بار بار چھٹی لینے کی وجہ سے آفس کی جاب سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ نئی نوکری بھی ابھی نہیں ہوسکی ۔ بزنس شروع کرنا چاہتا ہے تاہم اس کے لئے سرمائے کی ضرورت ہے۔ ماں کو اپنے شوہر اور جیٹھ کا پتہ تھا، انکی 3بہنیں تھیں جنہوں نے دونوں بھائیوں کے حق میں دستبرداری اختیار کرلی تھی۔ ان سے رشتہ داری قائم تھی جنہوں نے کسی وجہ سے وراثت میں شرعی حصہ مانگ لیاتھا۔ وہ آج تک بھائی کے گھر پر دوبارہ قدم نہیں رکھ سکی تھیں۔
* شادی میں شرکت کے لئے غیر اہم لوگوں کی طرح انہیں شادی ہال میں ایک دن کی تقریب کا کارڈ ملا تھاجو کسی کے ہاتھ بھجوایا گیا تھا۔ یہی وہ سچ تھا جو وہ اپنی معصوم سی کزن کو بتانا نہیں چاہتی تھی۔ آج وہی صورتحال ان کی اپنی بیٹی کے ساتھ پیش آگئی تھی۔ شاید مکافاتِ عمل تھا کہ جس وقت ان کے شوہر نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر آپس میں تینوں بہنوں کی جائداد بھی اپنے نام کرالی تھی تو فائدہ ان کی بیوہ بچوں کو ہی پہنچنے والا تھا۔ خاموشی مجرمانہ تھی۔آج وہی صورتحال ان کی اپنی بیٹی کے ساتھ پیش آئی تو انہیں احساس ہواکہ ؎ ان سے کتنی بڑی غلطی ہوئی ، ظالم کا ساتھ دینا بھی ظلم کرنے کے مترادف ہے۔
* آج ان کے شوہر دنیا میں نہیں رہے تھے کہ بیٹی کو وراثت دے دیتے ۔ان کے چاروں بیٹے تو باپ سے بڑھ کر جائداد کی محبت میں گرفتار تھے۔ ڈر تھا کہ وہ وہی فیصلہ کریں گے جو ان کے والد نے اپنی بہن کیلئے کیا تھا کہ گھرپر داخلہ بند ، تمام رشتے ختم ۔ وہ سوچ کر ہول گئیں کہ یہ خبر انہیں مل گئی تو وہ اپنی اکلوتی بیٹی کو کبھی نہیں دیکھ سکیں گی ۔ ان کے پاس جو تھوڑی بہت رقم تھی، زیورات تھے وہ سب اتنی بڑی جائداد کے مقابلے میں بہت کم تھے۔ سوچا کہ تھوڑی مہلت مانگ لیں پھر کوشش کر کے بیٹیوں سے کسی مد میں رقم لے لیں گی۔ شاید انتظام ہو جائے لیکن کئی دن گزر گئے تھے۔ ابھی تک کوئی راہ نہیں نکل پائی تھی۔ ایک دن اس کی ملاقات اپنی ڈاکٹر کزن سے ہوگئی ۔وہ حال احوال پوچھنے لگی۔ وہ اپنی بپتا سنابیٹھی۔ وہ اپنے کلینک لے گئی اور کہاکہ میں جو کچھ کماتی ہوں، بینک میں جمع ہے۔ سوچا تھا ایک سو بستروں کا اسپتال بناؤں گی جہاں غریبوں کا رعایتی بنیاد پر علاج ہو گا۔ اب سوچ رہی ہوں کہ تم وراثت کی مد میں مجھ سے ایک کروڑ لے لو۔
* وہ حیرانی سے پوچھنے لگی کہ آپ کوواپس کیسے کروں گی ۔وہ آرام سے سمجھانے لگی کہ بالکل پریشان نہ ہو، تم فارمیسی کے شعبے میں نوکری کر لو۔ ہمارے یہاں اچھی تنخواہ دی جاتی ہے۔اس رقم سے تم کمیٹی ڈال لینا۔ ڈھائی سال کی کمیٹی نکلنے پر میری رقم کا بڑا حصہ مجھے واپس کرنے کے قابل ہو سکوگی۔ باقی آئندہ ہوتا رہے گا۔ دعا ہے کہ بزنس میں برکت ہو، تمہارے گھر میں رحمت آئے ۔
* وہ سوچ رہی تھی کہ اس کی پھوپھی زاد نے خود نہیں بتایا ،لیکن اب اسے اندازہ ہو گیا تھا کس وجہ سے پھوپھی ہمارے گھر نہیں آتی تھیں۔ یقینا وراثت کی ہی بات اس ناراضی کی وجہ بنی ہو گی۔ جیسا کہ چند جملے ا سکی ماں کے منہ سے نکل گئے تھے۔ جن کو وراثت سے محروم رکھا گیا آج قدرت نے انہیں بہترین صورت میں کسی اور ذریعے سے بخش دیا تھا اور جنہوں نے یہ ظلم ڈھایا تھا، ا سکی بیٹی خود مشکلات میں گھِرگئی تھی۔
* شرافت اور دینداری کی اعلیٰ مثال اس کی پھوپھی زاد نے قائم کی کہ اپنے ماموں کے ظلم کا بدلہ نہ لیا بلکہ مامو ں زاد بہن کی بھرپور مدد کی اور آخر ت کا اجر کمایا۔
* جاننا چاہئے والدین کی جائداد میں سے 2 حصے صاحب زادے اور ایک حصہ صاحب زادی کیلئے مختص ہوتا ہے۔

شیئر: