Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسے احساس ہوا،دیانتداری سے زندگی گزارنا کتنا مشکل بنا دیاگیا

سستے علاقے میں کم بجلی کے خرچ کی ہاؤسنگ اسکیم متعارف ہو، تنخواہ میں رقم منہا کرلی جائے ،یہ سب ممکن ہے
* * * * اُم مزمل۔جدہ * * * *
وہ حیرانگی سے پوچھ رہی تھی کہ ہمارے گھر کا خرچہ کیسے پورا ہوگا؟ آپ نے یوں اچانک بینک کی جاب چھوڑ دی اور اب پولیس ڈپارٹمنٹ کوبھی جوائن نہیں کرنا چاہتے۔ کم ازکم ٹریفک پولیس میں شمولیت اختیار کرلیں ۔ویسے بھی ہر جگہ تحقیق کے بعد فیصلہ کرنا چاہئے۔ آپ جہاں بزرگ کی بات سن رہے تھے وہاں آپ کے بینکر ساتھی بھی موجود تھے۔
انہوں نے بھی وہ بات سنی اور ایک عالم کے پاس جاکر تحقیق کی کہ کیا میں اپنی بینک کی نوکری چھوڑ دوں کہ اس میں سود کا لین دین ہوتا ہے؟ تنخواہ بھی سود سے ادا کی جاتی ہے؟ انہوں نے جواب دیاتھا کہ نوکری گھر چلانے کیلئے اس وقت تک جاری رکھو جب تک کوئی دوسرا حلال روزگار مسیر نہ آجائے ۔ کوشش کرتے رہو، جیسے ہی دوسری نوکری کا بندوبست ہوجائے ،یہ نوکری چھوڑ دینا کیونکہ انکا مطلب یہی تھا کہ اگر خرچ کے پیسے نہیں ہونگے تو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے گا اس لئے کراہت کے ساتھ بینک کی جاب جاری رکھو تاوقتیکہ حلال روزگار کا بندوبست ہوجائے لیکن آپ نے بلاتحقیق دوسرے دن سے جاب پر جانا بند کردیا اور دوسری نوکری بھی نہیں ملی۔
آخر کار بوڑھے والدین اور گھر بھر کی ضرورتوں کیلئے رشتہ داروں سے درخواست کرنی پڑی۔ والدین بھی خوب ناراض ہوئے کہ یہ کیا طریقہ ہے ۔کسی کی بات سنی، مکمل معلومات کے بغیر جاب چھوڑ کر بیٹھ گئے۔ایسہ میں گھر کا کچن کیسے چل سکے گا ؟ ایک اچھی بات ادھوری معلومات کے تحت غیر مؤثر ہوکر رہ گئی۔ وہ ناراضی سے کہنے لگاکہ اب تو سو ل سروس کا امتحان دے چکا ہوں، پاس ہونے پر اچھی نوکری کی بہت امید بھی ہے لیکن اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے ایسی چھوٹی جاب کروں کہ جس میں تنخواہ پورے مہینے کیلئے اتنی کم ہوتی ہے کہ لامحالہ لوگ رشوت کو چائے پانی کا خرچہ کہہ کر لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھاتے ہوئے کہنے لگی کہ ہر انسان اپنے اعمال کے ساتھ جیتا ہے، انکا عمل ان کے ساتھ لیکن آپ ٹریفک پولیس ڈپارٹمنٹ میں ایمانداری سے ڈیوٹی انجام دیں جو تنخواہ ملے گھر لے کر آئیں ۔
میں جب خرچ کرونگی ، مالک حقیقی سے برکت کی دعا کرکے کروں گی اس طرح تھوڑے پیسے میں بھی برکت مل جاتی ہے۔ وہ ڈھائی مہینے سے دھوپ میں کھڑے ہوکر آتی جاتی ٹریفک کو کنٹرول کرتا تھا۔ اپنے سینیئرز کو دیکھتا،وہ کسی وقت تو خوب چاق و چوبند ہوتے اور کسی وقت بالکل چھوٹے بچوں کی مانند مشاغل میں مصروف ہوجاتے جیسے موبائل سے اردگرد کی تصویریں بنانا یا سیلفی لینا۔ وہ ان کی عمر دیکھتا اور خاموشی اختیار کرلیتا۔ آجکل وہ بہت مصروف تھا۔ رزلٹ آگیا تھا ، انٹرویو کیلئے بلایاگیاتھا۔ وہاں بھی اپنی ذہانت اور ربِ کریم کی رحمت سے کامیاب ٹھہرا۔ چند ہفتے میں وہ اپنے علاقے کا اسسٹنٹ کمشنر بن کر ایک نئی دنیا دریافت کرچکاتھا۔ جہاں کے بارے میں صرف وہ سنتا رہتا تھا اب اسے احساس ہواکہ دیانتداری سے زندگی گزارنا ، فرائض انجام دینا کتنا مشکل بنا دیاگیاہے۔ ہر کوئی ہر دن ایک نئے امتحان میں اسے ڈال دیتا۔
چونکہ گھر کی تربیت اسلامی طرز پر کی گئی تھی کہ لہٰذا اسے بریف کیس میں بھرے نوٹوں میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ گھر پر اماں جان ہوں یا شریک سفر، کسی کو دنیا داری اتنی نہیں بھاتی تھی کہ اس کیلئے ایمان داؤ پر لگا دیں۔ اسی لئے راوی چین ہی چین لکھتا رہتاتھا۔ اس نے کئی کاموں کے ساتھ اپنے فرائض سے ذرا ہٹ کر ان سرکاری شعبہ جات کی تحقیق کی جن کے بارے میں عوام کو شکایات تھیں کہ یہ لوگ چائے پانی کا خرچہ کہہ کر رشوت کواپنی ضرورت قرار دے چکے ہیں حالانکہ جانتے ہیں کہ یہ بالکل غلط بات ہے۔
مکمل رپورٹ پیش کرنے کے بعد اس نے ان تمام شعبہ جات کیلئے جہاں تنخواہیں کم اور سہولتوں کا فقدان تھا، انہیں انکا حق دلایا۔ ان تمام لوگوں کی گریڈ کے حساب سے تنخواہوں میں اضافہ کروایا۔ اس کا کہنا تھاکہ جب آپ ایک اہلکار کو اس کے مہینے کا خرچ نہیں دیں گے او رکہیں گے کہ ایمانداری سے جانفشانی کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی کرتے رہو تو یہ ممکن کیسے ہوسکے گا؟ سرکار کو اس بات کا پابند ہونا پڑے گا کہ تمام سرکاری اداروں سے کرپشن ختم کرنے کیلئے ، حلال طریقے سے زندگی گزارنے کیلئے ، روٹی کپڑا اور مکان کی سہولت درجہ بدرجہ مہیا کی جائے۔ یہ ناممکن نہیں ۔ سستے علاقے میں کم بجلی کے خرچ کی ہاؤسنگ اسکیم متعارف کرائی جائے، ان کی تنخواہ میں سے معمولی رقم منہا کرلی جائے ، وہ گھر کے مالک بنا دیئے جائیں۔ یہ سب ممکن ہے مگر اس کے لئے نیک نیت اور مصمم عزم کی ضرورت ہے اور شاید ہمارے ہاں فی الوقت اسی کا فقدان ہے ۔

شیئر: