Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہر وہیکل کا ایک پہیہ کم کر کے چلانے والے ماہرینِ پاکستان

ایک پہئے والی گاڑی کو یہ قوم بغیر پہئے کے چلا نا جانتی ہے
* * * * *ابوغانیہ۔جدہ * * * * *
اس میں کوئی دورائے نہیں رہی کیونکہ آج ایک عالم اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ پاکستانی ایک ایسی قوم ہے جو کسی بھی فن کے میدان میں کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتی ہے۔ یہ قوم حدِ کمال کو صرف چھونے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی بلکہ وہ ان حدوں کو پار کر کے چشمِ انسانی کو ورطۂ حیرت و استعجاب میں ڈال دیتی ہے۔ پاکستانی وہ قوم ہے کہ جو 4پہیوں والی گاڑی کو 3پہیوں پر، 3پہیوں والی کو 2پہیوں پر ،2پہیوں والی گاڑی کو ایک پہئے پر اور ایک پہئے والی کو بغیر پہئے کے چلا نا جانتی ہے یعنی وہ ہر وہیکل کا ایک پہیہ کم کر کے اسے رواں دواں رکھنے کی حیرت انگیز مہارت رکھتی ہے ۔ان کی ایسے کمالات دیکھ کر ہی کہنے والے کہتے ہیں کہ پاکستانی ماہرین، دنیائے فن میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔اس کی مثال کرکٹ ہے۔
اسی طرح کسی زمانے میں اسکواش بھی اسی فہرست میں شامل تھی جب جہانگیر خان اور ان کے بعد جان شیر خان نے دنیائے اسکواش کے کھلاڑیوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔کئی برس تک کسی بھی ملک کا کوئی کھلاڑی پاکستانی اسکواش پلیئرکو پچھاڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ زیر نظر تصویر پاکستانی قوم کی انہی حیرت انگیز صلاحیتوں کی عکاسی کر رہی ہے۔ اسے غور سے دیکھیں، رکشہ تو ا یک ایسا وہیکل ہے جس کے 3پہئے ہوتے ہیں۔ اسے کھپٹ قسم کے لوگ ’’تپہیا‘‘ یعنی ’’3پہیوں والی گاڑی‘‘ بھی کہتے ہیں۔پاکستانی ماہرین اسے دو پہیوں پر چلا رہے ہیں۔ ان کے اردگرد کھڑے لوگوں کو دیکھ کر غیر پاکستانی یہی کہے گا کہ وہ رکشوں کو ’’ٹو ویلنگ‘‘ کرتے دیکھ کر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ نہیں کیونکہ یہ لوگ حسرت سے دیکھ رہے ہیں کہ کاش! یہ رکشہ ہمارے پاس ہوتا تو ہم بھی اس ’’قدرتی صلاحیت‘‘ کا عملی مظاہرہ کر کے داد حاصل کرتے۔

شیئر: