Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایصال ثواب کی حقیقت کیا ہے؟

جس امت کے پاس قرآن و حدیث کا قیمتی سر مایہ ہو، اسے زیب نہیں دیتا کہ وہ ہندوؤں، پارسیوں اور انگریزوں کی رسمیں اختیار کرے
* * * *ام عدنان قمر۔ الخبر* * *
سورت یونس،آیت 107 میں ارشادِ الٰہی ہے: "اور اگر اللہ تعالیٰ تجھ کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر تجھ کو کوئی فائدہ پہنچانا چاہے تواس کے فضل کو کوئی پھیر دینے والا (روکنے والا) نہیں، وہ اپنے بندوں میں جس کو چاہے فائدہ (یا فائدہ اور نقصان دونوں)پہنچائے اور وہی (گناہوں کو) بخشنے والا مہربان ہے۔" اس آیتِ کریمہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے بندوں کے ساتھ جو بھلائی کا معاملہ فرماتا ہے، اعمال کے اعتبار سے اگر چہ بندے اس کے مستحق نہیں لیکن یہ محض اس کا فضل ہے کہ وہ انسانوں پر رحم وکرم فرماتا ہے۔
آج سے 14 سو برس قبل نبی مکرم کو اپنی امت کے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ اندیشہ تھا، وہ ہے شرکِ خفی۔ شرکِ خفی اُسے کہا جاتا ہے جو عبادت دکھلاوے اور ریا کاری کیلئے کی جائے، اس کے متعلق نبی کریمنے فرمایا ہے: "جس شخص نے کوئی نیک کام کیا اور لوگوں میں ایسے کارناموں کا ڈھنڈورا پیٹا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے سامنے اس کی ریا کاری ظاہر کرکے اسے ذلیل و رسوا کرے گا۔" ایک آدمی آیا اور نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہوکر پوچھا: اگر کوئی شخص اجر اور شہرت کیلئے جہادکرے تو اس کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ آپ نے فرمایا: "اس کے حصے میں کچھ بھی اجر و ثواب نہیں آئے گا۔" اس شخص نے یہ کلمات3 مرتبہ دہرائے اور پھر آپ فرمایا: "اللہ کو کوئی ایسا عمل قبول نہیں جو خالص اسی کی رضا کے حصول کیلئے نہ کیا گیا ہو۔ " ارشادِ نبوی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ 3 قسم کے لوگوں کو میدانِ محشر میں سامنے لائے گا۔ پہلا (شہید)،
دوسرا (عالمِ دین) اور تیسرا (سخی) ہوگا۔ یہ سب بھی یہی کہیں گے: اے اللہ! ہم نے یہ سب کام تجھے خوش کرنے کیلئے کیے تھے، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: "جھوٹ کہتے ہو: تم نے دُنیا کی عزت اور شہرت کیلئے یہ سب کچھ کیا تھا، وہ تمہیں وہاں مل گیا ہے، اب یہاں تمہارے لئے کچھ نہیں ،پھر ان کے متعلق حکم ہوگا کہ ان کو چہروں کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے۔" یہ شرکِ اصغر کا عذاب ہے۔
اب آپ ذرا غور کریں کہ ہم نے کبھی اس کے بارے میں سوچا ہے؟ نہیں! کیونکہ ہم تو دُنیا کی عزت و شہرت کے چکر ہی میں رہتے ہیں اور ہمارے سارے اعمال دنیا کو دکھانے کیلئے ہوتے ہیں لیکن مخلص وہ ہے جو اپنے نیک اعمال کو اسی طرح چھپاتا ہے جس طرح برے اعمال کو چھپاتا ہے اس لئے آپ اس بات کا خاص اہتمام کریں کہ آپ کی عبادت و اطاعت، اللہ کے رسولکی سنت اور سلف صالحینؒ کے طریقوں کے موافق ہو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ روزِ آخرت اور قیامت کے دن ہماری نیکیوں والا پلڑا خالی ملے اور برائیوں والا پلڑا بھرا ہوا ملے لہٰذا ہم پر فرض ہے کہ ہم قرآنِ کریم پر ایمان لائیں اور اس کی تلاوت کریں اور اس کی آیات پر عمل کرنے کیلئے غور و فکر کریں۔
یقینا ایمان وہ چیز ہے جو دل میں بیٹھ جائے اور زبان اسے بول کر بیان کرے اور عمل اس کی تصدیق کرے۔ قرآنِ کریم کی متعدد آیات اس بات کا اشارہ کرتی ہیں کہ قرآنِ کریم اس لئے تلاوت کیا جاتا ہے کہ ہم اس میں غور و فکر کریں، اسے سمجھیں، عقل سے پرکھیں اور بصیرت حاصل کریں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ البقرہ،آیت242 میں فرمایا ہے: "اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے حکم سے بیان کرتا ہے، اس لئے کہ تم سمجھو (اور اللہ کے حکموں کی مصلحت میں غور اور فکر کرو)" سورہ یونس،آیت24 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "ایسے ہی ہم سوچنے والوں کیلئے اپنی آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے۔" اگرہم غور و فکر کے باوجود اپنی خواہشات اور خطاؤں میں کوئی تبدیلی نہیں کرتے توپھر کوئی فائدہ نہیں، چنانچہ سورت الانعام،آیت155 میں فرمانِ الٰہی ہے: "اور یہ کتاب (قرآن شریف) برکت والی ہم نے اس کو اتارا تو (اے مکے والو!) اس پر چلو اور (اس کے جھٹلانے سے) بچے رہو، تاکہ تم پر (اللہ کی) رحمت ہو۔" یہودیوںکی مشابہت سے بچنے کی کوشش کریں۔ بلاشبہ یہودیوں کی سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ انھوں نے تورات کے محض پڑھنے اور سننے پر اکتفا کیا لیکن اس پر عمل نہیں کیا۔
چنانچہ ارشادِ الٰہی میں انھیں گدھوں سے تشبیہ دی۔ سورۃ الجمعہ،آیت 5 میں فرمایا: "جن لوگوں (یہودیوں) کو تورات دی گئی اور انھوں نے اس پر عمل نہیں کیا، انکی مثال گدھے جیسی ہے جس پر کتابیں لدی ہوں، جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلایا، انکی (ایسی ہی) بری مثال ہے اور اللہ تعالیٰ بے انصاف لوگوں (بدکاروں) کو راہ پر نہیں لگاتا۔" یعنی ان یہودیوں کو تورات اٹھانے کیلئے دی گئی تو انھوں نے اسے جان لیا اور وہ اس پر عمل کے مکلف ٹھہرائے گئے مگر انھوں نے اس پر عمل کیا نہ اس سے کوئی فائدہ اٹھایا۔ان کی مثال اس گدھے جیسی ہے جو کتابیں اٹھاتا ہے اور انھیں اٹھاتا اٹھاتا تھک جاتا ہے مگر ان سے کوئی نفع حاصل نہیں کرتا۔ امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں: "یہ مثال اگرچہ یہودیوں کیلئے بیان کی گئی ہے لیکن مفہوم کے اعتبار سے یہ ہر اس شخص پر صادق آتی ہے جسے حاملِ قرآن بنایا گیا، مگر اس نے اس پر عمل کرنا ترک کر دیا۔" جو لوگ ایمان لائے ہیں، ان کیلئے سورۃ البقرہ ،آیت208 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "مسلمانو! پوری مسلمانی میں آجائو اور شیطان کی راہوں پر مت چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔" مسلمانو! اپنے رب کو راضی کرنے میں لگ جاؤ۔
یاد رکھو! شیطان تمہارا دشمن ہے اور تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو۔ جن پیاروںکیلئے انسان اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانیاں کرتا ہے، قیامت کے روز نہ صرف وہ ان سے بھاگے گا بلکہ انھیں فدیے میں دینے کے درپے ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المعارج،آیت10 تا13 میں اس کی یوں منظر کشی کی ہے: "اور کوئی دلی دوست کسی دلی دوست کو نہیں پوچھے گا حالانکہ وہ انھیں دکھائے جا رہے ہوں گے، مجرم چاہے گا کاش کہ اس دن کے عذاب سے (بچنے کیلئے) فدیے میں دے دے اپنے بیٹوں کو اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی کو اور اپنے خاندان کو، جو اسے جگہ دیا کرتا تھا۔" قیامت کے روز کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا اور نہ اس دن کوئی دوست دوست کے ساتھ بات کرنے کا روادار ہوگا، ہر کوئی اپنی فکر میں ہوگا۔ ہر شخص پر’’ نفسی نفسی ‘‘کی حالت طاری ہوگی۔ جو عمر بھر اس دنیا میں جگری دوست بنے رہے، وہ بھی ایک دوسرے سے آنکھیں پھیرلیں گے۔
ہر شخص اپنے محبوب سے محبوب عزیزوں کو فدیے میں دے کر اپنے آپ کو بچانے کی تمنا کرے گا۔ مجرم یہ سوچے گا کہ ماں باپ اور اولاد تو درکنار ساری دنیا جہنم میں جاتی ہے تو جائے، بس میں جہنم کے عذاب سے بچ جاؤں لیکن اس کی یہ آرزوکبھی پوری نہ ہوگی۔ قرآنِ کریم بتاتا ہے کہ جو انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرے گا، وہ جنت کے سدا بہار لہلہاتے ہوئے باغوں کا مالک بن جائے گا اور جو شخص من مانی کرے گا اسے یہی دنیا ہلاکت بار جھٹکے لگا کر جہنم کا ایندھن بنا دے گی، لہٰذا اس زندگی کو غنیمت سمجھو اور اس کی قدر کرو، اگر اپنے آپ کو آخرت میں شعلے اگلتی ہوئی جہنم سے بچانا ہے تو پلٹ آؤ، اللہ تعالیٰ کی کتابِ کریم کی طرف تاکہ تم پر رحمت و برکت کی جائے۔ خلاصہ یہ کہ قرآن کریم ہمارے پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کیلئے نازل ہوا ہے مُردوں پر قرآن خوانی وغیرہ کرنے کیلئے نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ’’شفا‘‘ اور ’’رحمت‘‘ بناکر بھیجا ہے اور جن کے قلبِ اطہر پر قرآن کو نازل فرمایا تھا، ان کو ’’رحمۃ للعالمین ‘‘ بناکر مبعوث فرمایا۔ قرآنِ کریم اس لئے نہیں نازل ہوا کہ ہم اس کو غلط کاموں کیلئے استعمال کریں اور اس سے ہم اپنی بد بختی حاصل کریں۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ نا فرمانی کر کے تو اللہ کے عذاب کو برداشت کر سکے گا؟ ہر گز نہیں، یہ بات دل سے نکال دے۔ ذرا ایک گھڑی گرمی کی تیز دھوپ میں کھڑا ہو جا یا اپنی انگلی آگ کے قریب کر تجھے اپنی طاقت کا اندازہ ہو جائے گا۔ ہم اپنے اعمال سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں اور نہ اپنے مردوں کو، خصوصاً جو طریقہ ہم نے اپنایا ہے اپنے مردوں کو فائدہ پہنچانے کا تو یہ نبی مکرم سے ثابت ہی نہیں بلکہ سراسر بدعت ہے، مثلاً:مرنے والے کے گھر میں مخصوص دنوں، مخصوص اوقات اور مخصو ص انتظامات کے ساتھ جمع ہونا اور ان اجتماعات میں پر تکلیف کھا نوں کا بندوبست کرنا۔
سو ئم (تیجا کر نا)،قل، قرآن خوانی کروانا، فاتحہ خوانی کا ختم دلانا،جمعراتوں کو ختم دلانا،ساتواں کرنا، دسواں کرنا، چالیسویں کا ختم دلانا، بر سی وغیر ہ منانا،تعزیت کیلئے پہلی عید پر جمع ہونا،شعبان اور رمضان میں دعا کیلئے جمع ہو کر ضیافتوں کا بندوبست کر نا،یہ وصیت چھوڑنا کہ میری جایداد میں سے فلاں فلاں مخصوص دنوں اور تہواروں پر ختم دلایا جائے، صدقہ وخیرات کیا جائے اور کھانا تقسیم کیا جائے۔ چنوں اور باداموں پر کلمہ لا الٰہ الا اللہ7 ہز ار مرتبہ پڑ ھنا،آیتِ کریمہ کا سوا لاکھ مرتبہ پڑھنا،گٹھلیوں پر بسم اللہ، لا الٰہ الا اللہ، قل ھو اللہ احد پڑ ھنا کہ اس سے میت کو ثواب پہنچے گا۔بسم اللہ کا قرآن پاک ختم کر نا،میت کو ثواب پہنچا نے کیلئے ختم دلانا،اجر ت پر یا بلا اجرت قرآن خوانی کرانا، چالیسویں تک جتنی قرآن خوانیاں کرانا، وہ ساری برداری کے سامنے مر نے والے کی روح کو بطورِ ہدیہ پیش کر نا اور یہ باور کرانا کہ اس طرح مُردے کی روح کو ثواب پہنچے گا،یہ کہنا کہ چالیسویں کیلئے، 40 دن سے ایک دن اوپر نہ ہو ورنہ خاندان میں سے کسی اور کی موت واقع ہو جائیگی۔،چالیسویں کے موقع پر بڑ ے بیٹے کو پگڑی پہنا نا، دستار بندی کی رسم کر نا کہ باپ کی ذمے داریاں سنبھا لنے کا فرض اسے سونپ دیا گیا، جانشین کا اپنی طرف سے سارے خاندان والوں کو جوڑے دینا، پھر بر سی پر فاتحہ خوانی و قرآن خوانی کرانا اور آنے والوں کو پر تکلف کھا نا کھلانا۔
یہ تمام غیر اسلامی رسوم اور بدعات ہیں جن کا دین سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ ہر مسلمان عالم ہو یا جاہل، مرد ہو یا عورت، یہ عقیدہ ضرور رکھتا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کو اپنے اعمال کی جزا و سزا ضرور ملتی ہے۔ یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ہر انسان مرجانے والے کو کسی نہ کسی طرح ثواب پہنچانا ضروری سمجھتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت، معاشر ے میں جو کچھ ہوتا دیکھتی ہے، وہی کرنا شروع کر دیتی ہے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان چیزوں کا تعلق دین سے ہے بھی یا نہیں اور سنت نبویہ کیا ہے؟ جس امت کے پاس قرآن و حدیث کا قیمتی سر مایہ اور بے نظیر دستور وقانون ہو، اسے زیب نہیں دیتا کہ وہ اسے چھوڑ کر خود ساختہ یا ہندوؤں، پارسیوں اور انگریزوں کی رسمیں، خود ساختہ بدعات اور جاہلانہ رویے اختیار کرنے لگے۔ اس گناہِ بے لذت پر کتنا وقت، کتنی محنت اور کتنی دولت برباد ہو جاتی ہے اور ان غلط اور بے بنیاد رسموں کے اخر اجات پر کتنے یتیم وارثوں کی جایدادیں بک جاتی ہیں؟ لوگ قرض لیتے ہیں۔ نبی کریم، صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین سے یہ سب کچھ کرنا ہرگز ثابت نہیں۔ یہ قدیم مصریوں اور دیگر کافروں کی رسوم ہیں۔ قل، چالیسواں، برسی وغیرہ کرنا، رسم چہلم منانا فرعونیوں کی رسم ہے۔ عید کی رات قبروں کی زیارت کر نا بھی بدعت ہے کیونکہ یہ طریقہ نبی کریم سے ثابت نہیں۔ (جاری ہے)

شیئر: