Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مثبت طرز فکر کا انجام کامیابی، منفی رویے کا انجام ناکامی

منفی سوچ انسان کو ذہنی مریض بناتی ہے ، مایوسیاں پیدا کرتی ہے، حسد و جلن کے الاؤ جلاتی ہے
* * * * عنبرین فیض احمد۔ کراچی * * * *
انسانی ذہن پر ہر لمحہ سوچوں کا بہت زیادہ غلبہ رہتا ہے۔ یوں کہنا چاہئے کہ انسان کی زندگی کا ہرزاویہ اس کی ذہنی سوچ سے ہی جنم لیتا ہے۔ اسی سوچ و فکر سے انسانی جذبات کی پرداخت ہوتی ہے اوران جذبات کی بنیاد پر ہی انسان کا ہر عمل ہمارے سامنے آتا ہے۔ذہن کا زاویۂ فکر دو قسم کا ہوتا ہے ، ایک منفی اور دوسرا مثبت۔ مثبت سوچ ہمیشہ انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے جبکہ منفی سوچ ناکامی اور نامرادی کی طرف دھکیلتی ہے اور زندگی کی چمک دمک کو تاریکی کی سیاہیوں میںبدل دیتی ہے۔ یہ سب صرف سوچوں کا ہی کھیل دکھائی دیتا ہے۔
انسان کے ذہن میں خیالات کاپیدا ہونا قدرتی رجحان ہے مگر ان خیالات کو عملی جامہ پہنانا تو انسان کے اپنے اختیارمیں ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مثبت سوچ ہی کسی فرد کی شخصیت کو ابھارنے اور سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔یوں سمجھ لیجئے کہ مثبت سوچ کامیابی کی وہ سیڑھی ہے جس پر قدم رکھنے والا انسان کامیابی کی منزل پالیتا ہے کیونکہ انسان کا ہر عمل، اس کی حرکات و سکنات ذہنی سوچوں کے زیر اثر ہی ہوتی ہیں یعنی منفی یا مثبت خیالات کے ذریعے ہی انسان سے مختلف عمل سرزد ہوتے ہیں۔ مثبت سوچ سے انسان کے اندر مثبت رویہ پیدا ہوتا ہے ۔
اس کی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیںجبکہ منفی سوچ سے منفی رویے پیدا ہوتے ہیں جو انجام کارانسانی صحت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں اور گھن کی طرح کھا جاتے ہیں۔حیاتِ انسانی کی کامیابی کا زینہ یہی مثبت سوچ ہے چنانچہ مثبت رویوں کو اپنانے اورمنفی خیالات سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش ہر انسان پر لازم ہے ۔اس سے ناممکن بھی ممکن ہو جاتا ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ منفی سوچ انسان کی شخصیت کو مسخ کرکے رکھ دیتی ہے۔بعض اوقات کسی بھی منفی رویے سے نجات حاصل کرنا کافی دشوار او رکٹھن ہوجاتا ہے۔اکثر ایسی کہانیاں بھی سننے کو ملتی ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ کس طرح مثبت سوچ نے انسان کی زندگی کو کامیابیوں سے معمور کر دیا۔
ایسی کہانیاں لوگوں کے لئے مثال بن جاتی ہیں۔ ایسی مثالیں وہی لوگ قائم کر سکتے ہیں جو اپنی سوچوں کے ذریعے کچھ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔ سوچ انسانی ذہن پر کتنا اثر انداز ہوتی ہے، بحیثیت انسان اس کا اندازہ ہم سب کو ہوگا کیونکہ زندگی کا ہر منظر سوچ سے جنم لیتا ہے او رسوچ پر ہی ختم ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان اپنی قسمت خود بنا سکتا ہے۔ جدید نفسیات کے مطابق انسان کے مستقل کا انحصار اس کی اپنی سوچ ، فکر اور اعمال پر ہوتاہے۔ اگر انسان اپنے سوچنے کے انداز کو بدل لے تو اس کی زندگی خود بخود بدل جاتی ہے کیونکہ خوش نصیبی کو ایک اتفاقی یا حادثاتی چیز سے ہر گز تعبیر نہیں کیا جا سکتا بلکہ خوش نصیبی کا تعلق انسان کی اپنی پسند ، انتخاب اور انداز فکرسے ہوتا ہے۔
مستقبل کا تصور ہمارے ذہنوں میں کسی فلم کے ٹریلر کی مانند ہوتا ہے جسے ہم حقیقت کی آنکھ سے دیکھنا چاہتے ہیںاور جس کا تعلق صرف اور صرف ہماری سوچ سے ہوتا ہے۔ حقیقت میں ہماری زندگی بھی ایک فلم کی مانند ہے جس میں خوشیاں ، سکون و اطمینان، مصائب و مشکلات سب کچھ موجود ہوتا ہے اور ان کا دارومدار ہمارے انتخاب اور انداز فکر پرمنحصر ہوتا ہے۔یہی نہیں مثبت سوچ انسان کو روشن خیالی کی طرف لے جاتی ہے۔ ہم اپنے طرزفکر کی بنا پر اپنی زندگی کو خوشیوں سے آراستہ کر سکتے ہیں یا پھر غموں سے پامال بھی کرسکتے ہیں۔ یہ ہماری سوچوں پر منحصر ہے۔آج کے دور میں انسان تیزی کے ساتھ ترقی کی طرف دوڑ رہا ہے، اس کے پاس وقت کی انتہائی کمی ہے اور سچی خوشیوں کو حاصل کرنا ذرا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اس لئے روز مرہ کی دوڑ دھوپ نے انسان کو ایک مشینی پرزہ بنا ڈالا ہے۔
حصول معاش کی جدوجہد، گھریلو پریشانیاں اور دیگر خود ساختہ مسائل میں گرفتار انسان خوشیوں کے لئے ترس رہا ہے۔ اس کے لئے خوشیوں کا تصور ماند پڑتا جا رہا ہے۔ ایسے میں انسان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ اس لئے ہمیں اپنی سوچوں کا دائرہ مثبت رکھنا چاہئے اور ایسی کسی سوچ کو اپنے اوپر حاوی نہیں کرنا چاہئے جو ہمیں پریشان کردے، جو ہماری زندگی سے مثبت رویوں کو نابود کر دے۔ اس کی بجائے ہمیں مثبت سوچوں کواپنے او پر حاوی کر لینا چاہئے۔ یاد رہے کہ سوچ ایک مقناطیس کی طرح ہے۔ اچھی سوچ، اچھے نتائج کو اور بری سوچ برے نتائج کو کھینچ لیتی ہے۔ بناسوچے سمجھے کوئی لفظ اپنی زبان سے نہ نکالیں کیونکہ ہمارے منہ سے نکلا کوئی ایک برا لفظ پورے گھر کو آگ لگا سکتا ہے۔
ا س سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انساان کی سوچ کتنی اہم ہوتی ہے ۔اسی طرح ہمارے منہ سے نکلا کوئی ایک اچھا لفظ نجانے کتنے لوگوں کو ہمارا گرویدہ کرسکتا ہے۔کسی کے منہ سے نکلے ہوئے دو خوبصورت الفاظ جو اس نے ہمارے لئے کہے ہوں،ہمیں ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔یہ ہماری سوچ کا شاہکار ہوتے ہیں۔ یادیں دھندلا جاتی ہیں تفاصیل مٹ جاتی ہیں۔ جذبات بھی زندگی کی بھول بھلیوں میں کہیں گم ہو جاتے ہیں لیکن خوبصورت الفاظ ہمیشہ یاد رہ جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگرہم نے اپنی سوچ بدلنے کا فن سیکھ لیا تو گویا ہم نے اپنی دنیا بدلنے کا فن بھی سیکھ ہی لیا۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ مثبت سوچ کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے ۔ہم جیسا سوچتے ہیں، ہماری شخصیت بھی ویسی ہی ہوجاتی ہے۔
اگر ہم اپنے آپ کو پراعتماد ، کامیاب ،ذہین اور پرکشش تصور کریں گے تو ہماری شخصیت میں یہی خصوصیات شامل ہونا شروع ہوجائیں گی او راگر ہم اپنے آپ کو کمتر اور حقیر محسوس کریں گے تو ہم ویسے ہی بن جائیں گے ۔اس لئے اچھی اور بہتر زندگی کے لئے زندگی کا بامقصد اور بامعنی ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ مقاصد اور اہداف ہمیں زندگی کی قدر و قیمت سے آگاہی فراہم کرتے ہیں۔ الغرض مثبت طرز فکر کا انجام کامیابی اور منفی رویے کا انجام ناکامی و نامرادی ہے۔ زندگی میں مثبت سوچ اعلیٰ اخلاقی کردار کو تخلیق کرتی ہے، منزل تک رسائی آسان بناتی ہے۔ یہی نہیں مال و دولت میں خیر و برکت لاتی ہے۔
اولاد کو صالح بنا دیتی ہے۔ کامیابیاں سمیٹتی ہے او رمادی فلاح و بہبود کا باعث بنتی ہے۔ اس کے برعکس منفی سوچ نہ صرف انسان کو ذہنی مریض بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی بلکہ انسان کی زندگی میں مایوسیاں پیدا کرتی ہے۔ حسد و جلن کے الاؤ جلاتی ہے جس کی وجہ کر ہر وقت رشتوں میں ایک تفریق سی پیدا ہو جاتی ہے۔ زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے ہمیں اپنی سوچوں پر قابو پانا ہوگا۔ ہماری زندگی میںبھی ہر طرف خوشیاں، شادمانیاں اور کامیابیاں ہوں گی۔ اگر ہم اپنے اندر مثبت خیالات رکھتے ہوں گے تو ہمارے اعمال اور اس کے نتائج بھی ہمارے سامنے مثبت ہی آئیں گے۔ منفی سوچ کی وجہ سے انسان ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے اورزندگی تلخ ہوکر رہ جاتی ہے۔ایسی سوچ ایک چبھن بن کر ہر لمحہ انسان کی زندگی کی ہر خوشی کو ڈسنے کے لئے تیار رہتی ہے۔

شیئر: