Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ چشمِ بینا‘‘ یعنی ’’ بینا کی آنکھ‘‘

مہنگائی نے ہماری اخلاقیات، سوچ، ذہنیت، گفتگو، میل جول اور لین دین سب ہی بدل کر رکھ دیا ہے
* * * * شہزاد اعظم۔جدہ* * * *
ہم لوگوں میں ایک اچھائی عام طور پر نہیں پائی جاتی وہ یہ کہ ہم ہر چیز کا مثبت پہلونہیں دیکھتے اور اگر یہ کہیں نظر نہ آئے تو اس کو تلاش کرنے کی سعی بھی نہیں کرتے۔اس کی ایک موجودہ اور سلگتی مثال ’’جان لیوا ‘‘مہنگائی ہے۔ اس کے خلاف ملک کے طول و عرض میں خاصے جلسے جلوس ،توڑ پھوڑ اور ’’مارچ اپریل‘‘ وغیرہ ہو چکے ہیں۔ یہ تمام کرتوت ’’منفی زاویۂ فکر‘‘ کی عکاسی ہیں۔ ہم ایک جفاکش، محنتی اور صابر و شاکر قوم کے باشندے ہیں۔ ہمیں منفی کی بجائے ’’مثبت زاویۂ فکر‘‘اپنانا چاہئے۔منفی زاویے والوں کو یہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہئے کہ وہ خواہ کتنا ہی منفی انداز کیوں نہ اپنائیں، ’’آسمان سے ہمکلام‘‘ مہنگائی کے قد کووہ ایک سوتر پست کرنے کے قابل نہیں ہو سکیں گے پھر بھلا ذہنی تناؤ کا شکار ہونے، خود کو ذیابی یعنی شکر کا مریض بنانے یا خون کے زیادہ دباؤ کے خطرات سے دوچار کرنے سے کیا فائدہ۔ ایسے میں ضروری ہے کہ مثبت زاویۂ نظر اپنائیے اور حال مست، کھال مست قسم کے شہری بن جائیے۔
آپ سوچتے ہوں گے کہ اس منہ پھاڑ مہنگائی کا مثبت روپ کیا ہو سکتا ہے تو اس کے لئے چند ’’حقائق‘‘آپ کی نذر کئے جا رہے ہیں جو یقینا آپ کی آنکھوں سے اوجھل رہے ہوں گے کیونکہ یہ ’’حقائق‘‘ صرف انہی کو نظر آتے ہیں جن کے پاس ’’چشمِ بینا‘‘ ہوتی ہے۔ آپ کے پاس اگر یہ ’’بیناکی آنکھ‘‘ نہیں تو ہمارے پاس تو ہے۔ ہم اپنی ’’چشمِ بینا‘‘ سے آنکھوں دیکھا حال پیش کر رہے ہیں جس کے ذریعے مہنگائی کے مثبت پہلو کا پردہ خود بخود چاک ہوتا محسوس ہوگا: ’’مہنگائی نے من حیث القوم ہمارے اندر ایک شعور بیدار کر دیا ہے کہ ہم کسی بھی چیز سے انتہاء پسندی کی حد تک استفادہ کرنے لگے ہیں۔ مثلاً ارزانی کے دور میں گنے سے رس نکالنے کے لئے اسے ایک مرتبہ مشین میں پیلا جاتا تھا مگر اب تین مرتبہ گنے کو پیلنے کے بعد چوتھی مرتبہ اس کے پھوک کو پانی میں ڈبو کر پھر مشین سے پیلا جاتا ہے۔
اس کے بعد جو کچھ بچتا ہے اس میں گنے پن یا بالفاظِ دیگر ’’گَنّیت‘‘ کا شائبہ تک نہیں رہتا۔اسی طرح ارزانی کے دور میں موٹر سائیکل چلا کرتی تھی جس پر زیادہ سے زیادہ میاں بیوی اور ان کے دو بچے بیٹھ جاتے تھے۔ پھر مہنگائی زیادہ ہوئی تو دو میاں بیوی اور 6بچے اس پر بیٹھنے لگے۔ جب مہنگائی اور بڑھی تونسلِ نو کے اذہان میں اختراعی صلاحیتیں عود آئیں اور انہوں نے موٹر سائیکل پر رکشہ کی باڈی سوار کر دی جسے ’’قنقی‘‘ کا نام دیا گیا جو اب بگڑ کر ’’چنچی‘‘ کہلانے لگا ہے۔ اس میں چار انسان بآسانی بیٹھ کر سفر کرتے تھے۔ پھر جب مہنگائی نے نئی تاریخ رقم کی تو اس چنچی میں سوا درجن صحتمند اور 2درجن کمزور افراد آرام سے سفر کر لیتے ہیں۔سستی سواری کے مارے لوگ چنچی میں سفر کرکے پیسے بچا لیتے ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ بہت سے بڑے اور بچے جوہمسائے میں رہنے کے باوجود ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھ پاتے تھے، اب چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے ’’معانقہ‘‘ کرنے اور ایک دوسرے کی گود میں سوارہونے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔
چنچیاں عام ہونے کے بعد لڑکے کی ماں بہنوں نے لڑکی دیکھنے کے لئے گھر گھر جانا بھی چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ چنچی میں ہی لڑکی کونہ صرف پسند کر لیتی ہیں بلکہ اس کے’’قدو قامت، دبلاپے، مٹاپے، وزن اور بے وزنی‘‘ کو بھی جانچ لیتی ہیںاور گفتگو کے دوران یہ بھی جان لیتی ہیں کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔اسی طرح اب جہیز لانے کے لئے ٹرکوں کا انتظام بھی نہیں کرنا پڑتا کیونکہ دلہن والے لڑکی کو ایک سستا سا سوٹ دے کر دولہا کے گھر رخصت کر دیتے ہیں۔
منہ زور مہنگائی کے باعث ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کی گردنوں میں پائی جانے والی اکڑاہٹ میں انتہائی کمی واقع ہو چکی ہے۔ پہلے یہ لوگ بڑی بڑی گاڑیوں میں بھوں کر کے پاس سے گزر جاتے تھے۔ سلام کرو تو جواب دینے کی انہیں توفیق نہیں ہوتی تھی مگر بھلا ہو اس مہنگائی کا کہ اب یہ لوگ کاریں گھر پر چھوڑ کر چنچی ، رکشہ، بس اور ویگن وغیرہ میں لٹک پٹک کر سفر کرنے میں عافیت سمجھنے لگے ہیں کیونکہ ان کی جیب گاڑی میں پیٹرول ڈلوانے کی اجازت نہیں دیتی۔اب وہ بس یا ویگن میں سوار ’’مرغا‘‘ بنے سفر کر رہے ہوتے ہیں تو ہمارے سلام کا جواب اتنی محبت سے دیتے ہیں کہ پوچھو نہیں۔
اس بات پر غور کیجئے تو یہ حقیقت عیاں ہوگی کہ اس کمر توڑ مہنگائی نے امیروں اور غریبوں کو باہم شیروشکر کر دیا اور ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی ’’محبت‘‘ بیدار ہوگئی۔ نسلِ نو میں بھی مہنگائی کے باعث قناعت کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔پہلے ہمارے ہاں بھانجیاں بھتیجیاں آ جاتی تھیں تو ان کے لئے ہم مرغ مسلم، بمبئی بریانی، پشاوری کباب، ملتانی حلوہ، حیدرآبادی ربڑی، جاوید کی نہاری اور بھاشانی کے پیڑے منگواتے مگر پھر بھی انہیں شکوہ ہوتا کہ انکل نے پھل نہیں کھلائے۔ آج یہ صورتحال ہے کہ وہی بھانجیاں بھتیجیاں ہمارے گھر آتی ہیں ، ہم ان سے دریافت کرتے ہیں کہ بیٹیو، چائے پیو گی تو جواب ملتا ہے کہ نہیں انکل! تھینک یو۔ اس کے بعد وہ گھر جا کر چہک چہک کر اپنی اماں اور ابا ، ہمسایوں، سہیلیوں اور جان پہچان والیوں میں ڈھنڈورا پیٹتی پھرتی ہیں کہ’’ ہیلو! بی لِیو می! آئی سویر ، کل جب ہم اپنے انکل کے ہاں گئے تو انہوں نے سچ مچ ہمیں چائے کے لئے پوچھا تھا، وہ تو ہم نے ہی انکار کردیا ورنہ وہ چائے پلانے کے لئے تیار تھے۔
یہ سن کر ان کی سہیلیاں دل ہی دل میں حسد اور رشک سے یوں معمور ہو جاتی ہیں کہ’’ ان کے انکل کتنے ’’امیر‘‘ آدمی ہیں۔آخر کو سعودیہ میں ریال کماتے ہیں ناں۔‘‘ یہاں مہنگائی کے’’ مثبت اثرات‘‘ کی شکل میں ہمارے سامنے آنے والی چند ایک معاشرتی تبدیلیوں کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ صفحے پر جگہ بہت کم ہے وگرنہ ابھی بہت کچھ لکھنا باقی ہے۔ سچ یہ ہے کہ مہنگائی نے ہمارے معاشرے کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی ہے۔ہماری اخلاقیات، سوچ، ذہنیت، گفتگو، میل جول اور لین دین سب ہی بدل کر رکھ دیا ہے ۔مہنگائی کے خلاف ’’زبان درازی‘‘ کرنے والوں سے ہماری گزارش ہے کہ برائے مہربانی ’’چشمِ بینا‘‘ سے کام لیجئے تاکہ ’’حقائق‘‘ سے آگہی ہو سکے۔

شیئر: