Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حرم میں میاں جی کھوگئے اور پھر --

اس زمانے میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں تھی، شوہر گاڑی بنوانے ورکشاپ گئے اور جلد واپس نہ آئے،اللہ کے گھر کے آگے کسی اور کی مدد لینے سے حیا آ رہی تھی
* * * * * *کوثر بیگ،جدہ* * * *
یہ واقعہ 1995 کے آخری مہینوں کا ہے۔ میری سہیلی دمام میں رہا کرتی تھی۔ ایک دن بحرین سے چیچا زاد دیور کا فون آیا کہ وہ اور بہن کی فیملی عمرہ کیلئے آرہے ہیں آپ کے پاس ٹھہرنے کا ارادہ ہے۔ ویسے بحرین دمام کے راستہ میں ہی ہے۔ میری سہیلی عروسہ کے میاں نے اپنی فیملی کے ساتھ ان کے گروپ میں شامل ہوکر عمرے کا ارادہ کرلیا ۔ وہ سب آئے۔ عروسہ کے مہمان بنے پھر سب ساتھ مکہ کیلئے روانہ ہوگئے۔ اس کے بعد کا حال آپ عروسہ ہی کے زبانی سنیے ۔ ’’رکتے رکاتے مکہ پہنچنے تک رات کے 2 بج گئے کیونکہ میرے میاں یہاں سے زیادہ واقفیت رکھتے ہیں اسی لئے سحری کھانے کاانتظام میاں کے ذمہ کردیاگیا۔ وہ لانے تو گئے مگر کھانا آنے تک بہت دیر ہوگئی۔ سب نے بغیر سحری کے روزہ رکھ لیے۔ ان کے آنے کے بعد پتہ چلا کہ گاڑی کے بونٹ میں اچانک آگ لگ گئی تھی ۔
بڑی مشکل سے آگ بجھا کر سحری کے لئے کچھ خریدنے کی کوشش کی مگرسب دکانیں بند ہوگئی تھیں اس لئے کچھ لا نہ سکے۔ پھر سب نے عمرہ ادا کرنے کو فوقیت دی ۔ تکمیل عمرے تک عصر کا وقت ہونے لگا۔ نماز کے بعد ہمارے مہمان جدہ کے رشتہ داروں کو مہمانی کا شرف بخشنے روانہ ہوگئے۔ ہم کچھ دیر حرم سے باہر آرام کرنے کیلئے پاؤں پھیلا کر بیٹھے رہے۔ پھر میاں صاحب حرم میں حضرت عثمان غنیؓ کے دروازے کے پاس بیٹھا کر افطار لانے چلے گئے۔ افطار میں تھوڑے انگور اور سیب لائے گئے کیونکہ بن سحری کا روزہ تھے اس لئے یہ طے پایا کہ نمازِ مغرب کے بعد کہیں باہر جاکر سیر ہوکر کھانا کھایا جائے اس لئے افطار مختصر کرنا چاہیے۔ حرم مکی میں کچھ لوگوں نے کھجور بھی دیے۔ سب ملا کر افطار کیا گیا ۔
مغرب کی نماز کے بعد بچوں نے بھوک کی شکایت کی تو میاں نے کہا کہ اب دیکھتے ہی دیکھتے عشاء کا وقت ہوجائیگا میں پہلے جاکر گاڑی کسی ورک شاپ دے دوں ، آتے آتے کھانا لے آتا ہوں تم بچوں کے ساتھ اسی جگہ رہو۔ 5سال کے ایک بیٹے کو ساتھ لے گئے اور میرے پاس 6بچے چھوڑ گئے۔ عشاء کی نماز ہوگئی۔ تراویح بھی شروع ہوگئی۔ پھر تراویح بھی ختم ہوگئی مگر وہ نہ آئے۔ سب سے چھوٹا بیٹا گود میں شیر خوار تھا۔ دودھ ختم ہوچکا تھا ۔اتفاق سے بچے گاڑی سے اترتے وقت پیمپر کا ایک پیکٹ ساتھ لے آئے تھے جس پرمیں نے ان پر ناراضی کا اظہار بھی کیا تھا کہ اب ہر جگہ ساتھ اٹھا کر پھرنا پڑے گا مگر اللہ جو کرتا ہے اچھے کیلئے کرتا ہے۔ میاں کے دیر ہونے پر ، فکر سے میرے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔
آنکھوں سے آنسو جاری تھے جس کو دیکھ کر لوگ سوال کرنے لگے۔انہیں وجہ بتائی تو کسی نے پولیس کو رپورٹ لکھوانے کہا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ حادثہ وغیرہ ہونے پر حرم سے متصل ایک اسپتال ہے وہاں سب گمشدہ لوگوں کی رپورٹ رہتی ہے، جاکر معلومات کرو۔ کب تک یوں انتظار کروگے۔ کسی نے اس جگہ کو نہ چھوڑنے کی تاکید کی۔ کسی نے اپنے عزیزوں کو اطلاع کرنے کا کہا۔ جتنے منہ تھے اتنی باتیں سنتی رہی۔پھر خیال آیا کہ اللہ کا گھر ہے اسی سے دعا کرنی چائیے۔ وہی مسبب الاسباب ہے ۔چھوٹے بچوں کے ساتھ میں بیٹھی اللہ سے مدد مانگتی رہی۔ بڑے لڑکے بالترتیب 14،13اور 12سال کے تھے ۔انہیں ایک کے آنے کے بعد دوسرے کو کعبہ شریف کے قریب بھیج کردعا کرواتی رہی۔ پھر سحر کا وقت آگیا ۔
بچوں کو دو دو انگور،ایک ایک کھجور اور ایک سیب جو بچا تھا۔ اس کے 5 حصے کرکے بچوں میں تقسیم کردئیے۔ خود 2 کھجور کھائی اورسب نے آب زم زم پیٹ بھر پی کر روزہ رکھ لیا۔ فجر اور ظہر کی نماز بھی ادا ہوگئی مگر میاں نہ آئے۔ بچوں کو کعبہ کے دروازے کو پکڑ کر دعا کرنے پھر ایک کے بعد ایک کو بھیجتی رہی۔پرس ٹٹولا تو نصف ریال کے 4 سکے ملے۔ اس زمانے میں سیل فون آج کی طرح عام نہیں تھے۔ تب ہماری فیملی میں صرف میاں کے پاس موبائل تھا جس سے صرف بات کی جاسکتی تھی کوئی نیٹ وغیرہ کی سہولت نہیں تھی۔ دوسرے بڑے لڑکوں کو چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھنے اور اس جگہ سے نہ ہلنے کی ہدایت کرکے ٹیلی فون بوتھ کیلئے سب سے بڑے لڑکے کو ساتھ لیکرگئی۔وہاں ایک طویل قطار لگی تھی۔ اللہ اللہ کرتے ہمارا نمبر آیا۔ میاں کو فون ملایا تو فون بند پڑا تھا۔
دمام میں سگی نند رہتی تھی ۔اس کا نمبر ڈائل کرنے پر انکی بیٹی نے فون اٹھا یا ۔میں نے جلدی سے کہا کہ امی کو بلاؤ تو اس نے بتایا امی تو باہر گئی ہیں، سکے گر رہے تھے بات ہو نہیں رہی تھی۔ میں نے آنسو ضبط کرکے بچی سے کہا کہ آپ کے ماموں کل افطار کے بعد سے ابھی تک نہیں آئے ہیں۔ میں بچوں کے ساتھ حرم میں بیٹھی ہوں۔ امی آئیں تو بتادینا۔ میرے پاس پیسے بھی نہیں ہیں۔ میں پھر بات نہیں کرسکتی۔ فون کٹ گیا ۔میری برداشت ختم ہوگئی۔ میں رونے لگی ۔وہاں کھڑے لوگوں نے کہا کہ بہن یہ سکہ لے لیں اور کسی کو بھی کال کرنا ہے تو کرلیں۔ ایک نے پوچھا کہ اگر جدہ یا مکہ میں کوئی رشتہ دار ہیں تو چھوڑنے کو تیار ہوں کہا مگر اللہ کے گھر کے آگے کسی اور کی مدد لینے سے مجھے حیا آرہی تھی۔ میں نے ہر قسم کی مدد سے انکار کردیا اور قریب کے اسپتال کا معلوم کرکے وہاں پہنچ گئی۔
اسپتال کے عملے نے ساری بات سن کر ریکارڈ دیکھا کچھ بھی پتہ نہ ملا۔ایک طرح سے دل کو رتی بھر سکون ہوا کہ یہ ان شاء اللہ کسی حادثہ کا شکار تو نہیں ہوئے ہونگے۔ وہاں ایک بنگلہ دیشی ڈاکٹر تھا ۔ اس نے کہا تم کہو تو تمہارے اس بچے کو گاڑی کے ورکشاپ لیکر جاتا ہوں۔ اگر میاں مل گئے تو ٹھیک نہیں تو حرم آنے والی بس میں بچے کو سوار کر دونگا ۔میں تمہاری اس سے زیادہ مدد نہیں کرسکتا ۔ میری ڈیوٹی مغرب سے پہلے ختم ہوگی۔ اگر اقامہ یا اس کی کاپی ہے تو وہ بھی مغرب سے پہلے بچے کے ساتھ لے آؤ۔ ہم نے اپنے بچوں کو اسکول کے علاوہ کبھی کہیں تنہا نہیں بھیجا تھا۔
دل پر خوف کے بادل چھائے تھے۔ فیصلہ نہیں کر پارہی تھی کہ کیا کروں۔ بیٹے نے ہمت دلائی کہ امی میں جاکر دیکھتا ہوں ۔بابا مل جائیں گے۔ یوں بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ہم حرم واپس آئے۔ عصر کی نماز پڑھی۔ تینوں بڑے بچے روزہ سے تھے۔ چھوٹوں کو زم زم پینے کو دیا۔ سب سے چھوٹے کو بھی دودھ کی شیشی میں زم زم پلاتی رہی۔ پہلے ملازمت کرنے والے کے پاس ہی اقامہ ہوا کرتا تھا ۔فیملی اور بچوں کا نام درج کردیا جاتا۔ فیملی کے پاس اسی کی فوٹو کاپی رہا کرتی تھی۔ میرے پرس میں بھی ایک کاپی پڑی تھی اسے لے کر ڈاکٹر کے پاس بیٹے کے ساتھ گئی۔ وہاں افطار اور کھانا انہیں دیا جارہا تھا۔ ڈاکٹر نے ہمیں دیکھ کر ٹھیک ہے کہہ کربیٹے اور اقامہ کی کاپی رکھ لی اور مجھے واپس بچوں کے پاس جانے کا کہا۔
اطمینان بھی دلایا کہ ان شا اللہ تمہارا آدمی اگر ورک شاپ میں ہے تو مل جائے گا۔ نرس نے ایک پلیٹ افطار جس میں کھجور ،ایک سیب اور تھوڑا کھانا تھا دی۔ میں نے انکار کیا تو بولی کہ بچوں کا خیال کرو۔ انہیں کھلا دو۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی افطار لینے کیلئے اصرار کیا۔مجھے اس کھانے کی ضرورت تو تھی بچوں کیلئے مگر نہ جانے مجھے لگا جیسے میری تذلیل ہورہی ہے ۔بیٹے کو دور کرنے کا غم الگ تھا۔ اسپتال سے حرم تک کا راستہ کوئی 10 منٹ کا تھا ۔اکیلی روتی بچوں تک آ ئی۔ بچوں کو دیکھ کر کچھ دلاسہ ہوا۔ مغرب کی اذان ہوئی۔ بچوں کے آگے پلیٹ رکھی ہی تھی کہ میاں بیٹے کے ساتھ آتے نظر آئے۔ رکے ہوئے آنسو اب خوشی سے چھلکنے لگے۔ میاں نے بتایا کہ ورک شاپ ملنے تک بہت دیر ہوگئی۔ میکینک نے کہا کہ صبح اٹھتے ہی دیکھوں گا تم یہیں رکے رہو۔ اس نے کہا کہ کچھ ہی دیر کا کام ہے مگر اتنا وقت لگادیا اور کہا گاڑی تب ہی بنائوں گا تم یہیں بیٹھے رہو اس لئے جب تک بنی نہیں میں نے آنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس لئے اتنا وقت ہوگیا۔ پھر عشاء سے پہلے پہلے بیٹا بھی آگیا ۔اس نے بتایا کہ ڈاکٹر نے پہلے گھر لے جاکر روزہ کھولا۔ پھر نماز کے بعد کھانا کھلا کر ورکشاپ لے گئے ۔وہاں لائن سے دکانیں تھیں۔ہر جگہ بابا کو ڈھونڈتے رہے ۔نہیں ملے توبس میں بٹھا کر حرم پر اتر جانے کاکہا ۔پھر بیٹا حرم تک پہنچ کر سیدھے ہم سے آملا۔ دنیا میں اچھے لوگ بھی ہیں۔ اللہ ْاس ڈاکٹر کو جہاں بھی رکھے دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازتا رہے۔

شیئر: