Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بات اچھی، کام برا، خوارج کی صفت

* * * * شیخ عبدالمعید مدنی * * *
خارجیت دین میں سب سے بڑی ، سب سے پہلی اور سب سے خطرناک بدعت ہے۔ یہ بدعت کسی خاص مسئلہ میں محدود نہیں ۔ یہ اتنی ہمہ گیر ہے کہ سرے سے اسلام اور مسلم امت کی جڑہی کاٹ دیتی ہے۔ یہ مسلمانوں کے عمل، عقیدے، اجتماعیت اوردیارِ اسلام کو جڑسے کاٹ دیتی ہے، علماء اور امراء کو کالعدم بنادیتی ہے۔یہ علمِ دین، دینی بصیرت ، دینی مقاصد اوردینی مفاہیم کو بے وقعت بنادیتی ہے۔ خارجیت سے قتل، خوں ریزی ، راہزنی اور اہلاک حرث ونسل عام ہوتی ہے۔ اس سے انسان کے سارے حقوق پامال ہوتے ہیں۔ جان و مال ،عزت اوردین سارے کے سارے پامال ہوتے ہیں۔ اس کے نزدیک لوگوں کی عبادت، عمل اور عقیدہ سب مٹی کے برابر ہوتے ہیں۔ کسی کی غلطی قابل معافی نہیں ہوتی اور سارے کے سارے انسان جہنمی بن جاتے ہیں ۔ عفو ودرگزر کا اس کا اختیار بھی چھن جاتا ہے۔ان کی مظہر پرستی ، شکلیت پر اسراراورمعنویت سے بے اعتنائی، فرد اور سماج کو درخت کا سوکھا ہوا پتہ بنانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ ان کی آراء اور سوچ کا اگرنفاذ ہو تو چند سالوں کے اندر تہذیب، کلچر اور سماج کا دیوالیہ نکال دیں اورعلم سے ایسی دشمنی کریں کہ علم کے سارے پودے سوکھ جائیں۔ خارجیت کی جزئی وکلی، تکفیری وغیر تکفیری ،اقتتالی وغیر اقتتالی سب شکلیں مضر ہیں ،تباہ کن ہیں۔ اس خارجیت کو علی الاطلاق دین میں مسترد قرار دیا گیا ہے۔
خارجیت کے رفض کے سلسلے میں کئی طرح کی نصوص ہیں لیکن سب سے اہم وہ نصوص ہیں جن میں براہ راست ان کو مسترد قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابوذرؓسے روایت ہے رسول پاک نے ارشاد فرمایا: "(خوارج)تمام مخلوق میںبدترین جتھا ہیں۔ "(مسلم )۔ تعمیم وتاکید دیکھئے۔تمام مخلوقات میں سب سے بدتراورحدیث کے اس ٹکڑے سے پہلے2جملے میں ہیں:دین سے ایسے نکل جائیںگے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے اور پھر دین کی طرف لوٹیں گے نہیں ۔ اس کے بعدہے: یہ سب سے بدتر مخلوق ہیں ۔ تعمیم میں سب داخل ہیں۔ یہود، نصاریٰ، کفار اور مشرکین، یعنی ان سب سے بدتر۔
سوال یہ ہے کہ ان کی ایسی مذمت کیوں؟ دین سے ان کا سارا رشتہ ختم۔ دین سے توکفار کا بھی رشتہ نہیں ہوتا لیکن ان سے بھی زیادہ خطرناک خوارج کو کہا گیا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ خارجیت مسلمان بن کر اور شعائرِ اسلام پر کامل کاربند ہونے کا دعویٰ کرکے دین کی حیثیت گراتی ہے اور امت کو تباہ کرنے کا پورا محاذ بناتی ہے۔ عملی طورپر بھی اور نظریاتی طورپر بھی۔ مستقلاً اس کی یہی مہم بنی رہتی ہے ۔ خارجیت عملی ونظریاتی دہشت گردی ہے۔ غیر مسلم تومستامن بھی ہوتاہے اور آج کے دورمیں دستوری حقوق او رذمہ داریاںبھی ہیں۔ مسلم، غیر مسلم پرامن طور رہتے ہیں لیکن خارجیت ہرحال میں عملی، اعتقادی ونظریاتی ہرسطح پر بغاوت کا جھنڈا بلند کئے رہتی ہے۔
کلی بغاوت بھی اس کے اندر ہوتی ہے اور غیر مسلح نظریاتی بغاوت بھی اس کے اندر ہوتی ہے۔ خارجیت کسی معنیٰ میں ادنیٰ درجے میں بھی مفید نہیں ہوتی، یہ صرف مضر ہوتی ہے اورعملی ونظریاتی تشدد اورانتہا پسندی کی دعوت دیتی ہے۔ دراصل خارجیت سماجی اقدار، اصول وضوابط ، اعتقاد وعمل، فطرت وعقل ہرایک کیخلاف ایک بغاوت ہے۔
اسلام میں دہشت گردی خارجیت ہے اور کسی کے لئے قابل قبول نہیں۔ اسلامی حکومت ،اسلامی سماج، غیر اسلامی حکومت اور غیراسلامی سماج کسی کیلئے یہ سازگار نہیں۔ خارجیت غیر اسلامی سماج اور غیراسلامی حکومت کیلئے تھوڑی دیر کے لئے سازگار توہوسکتی ہے لیکن مسلم سماج اورمسلم حکومت کے لئے ایک لمحے کیلئے بھی سازگار نہیں۔آج کی مسلم اقلیتوں کے لئے تحریکیوں ، سیکولر ملاؤں اور استشراقی ملاؤں کی خارجیت وبال جان ہے۔ ان سے علوم ِدین، دعوت وتبلیغ اور درس وافتا ء کا شیرازہ بکھررہا ہے اور دین سے جو صحیح وابستگی ہونی چاہیے، وہ ٹوٹ رہی ہے۔
دراصل خارجیت کے یہی تباہ کن پہلوہیں جس کی بنا پر انہیں سب سے بدترین مخلوق قرار دیا گیا اور کلی طورپر انہیں مسترد کردیا گیا۔ خارجیوں کے متعلق طے شدہ امربن گیا کہ ان کی باتیں اچھی اوران کا کام برا ہوتاہے۔ حضرت انس بن مالکؓ اور حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے رسول پاک نے فرمایا: "عنقریب میری امت میں اختلاف اور تفر ق پیدا ہوگا ،ایک قوم ہوگی جو باتیں اچھی کرے گی اور کام برے۔"(ابوداؤد)۔ حدیث میں قوم کی تعیین ہوگئی ہے ،تعمیم نہیں رہا۔
اختلاف وفرقت کا انہیں پیدا کرنے والا اور اختلاف وفرقت کی انہیں پیدا وار بتلایا گیا۔ ان کے قول وفعل میں تضاد کو بیان کیا گیا ، ایسی حالت کو شرقرار دیا گیا۔قول وفعل میں تضاد نفاق کے سبب نہیں، کم فہمی اورکم عقلی کے سبب ہے۔ خارجیت کے اند راتنی تنگ نظری اورتنگ دلی ہوتی ہے کہ اس کے اند رصحیح بات کے ادراک کی صلاحیت ہی نہیں رہ جاتی، نہ حق کے لئے جگہ اورنہ صحت مند فکر وسوچ کی گنجائش ہے۔اوپر سے طیش وتندی ہوتی ہے ۔
ایسی حالت میں خارجیت کا عملی رویہ سارا کا سارا شرہی شرہوسکتا ہے۔ نصوص قرآن کی تلاوت توکرسکتے ہیں لیکن ان کا اصل مفہوم سمجھنے اوران کی معنویت پر دسترس حاصل کرنے کے بجائے ان کی انتہا پسندانہ سوچ اپنے کام کا مطلب نکال کرالٹے کام ہی کرسکتی ہے اسی لئے ان کے فعل سارے کے سارے غلط ہی ہوسکتے ہیں ۔ اس ذہنیت کے اس بگاڑکے سبب، ان کا سارا عمل اورساری کوشش بے مصرف، لایعنی اورغلط ہے۔ مسلح دہشت پسند، تکفیری اوراقتتالی خوارج کو قتل کرنے کی عام منادی، ان کو قتل کرنے، نیست ونابود اور فنا کرنے کا عام اعلان ہے۔ اسکا یہ مطلب نہیں کہ انسان اٹھے اور ان کو مارنا شروع کردے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ جب اسلامی سلطنت ان کیساتھ لڑے تو اجر کمانے اورنظام دین وملت کو درست کرنے کیلئے عام لوگوں کو بھی شریک ہونا چاہئے۔ نص حدیث سے یہ طے ہے کہ یہ ایسے فتنے اور فساد عام ہیں کہ ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے ملت اپنی جان فنا کرسکتی ہے۔ ان سے قاتل کی حیثیت سے مسلمان کا درجہ بہت بڑا، مقتول کی حیثیت سے بھی بہت بڑا اور خوارج قاتل اورمقتول دونوں حیثیت سے بدترین ہیں۔ حضرت علیؓ کی رویت ہے کہ رسول پاک نے ارشاد فرمایا: "جب ان سے مقابلہ ہو توانہیں قتل کرو، اس لئے کہ ان کے قاتل کیلئے روز قیامت اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا اجر ہے۔"(بخاری ومسلم)۔
رسول پاک نے فرمایا: " اگرہمارا ان کا سامنا ہوا اور ہمارے دورمیں ان کا وجود ہوا توہم ان کو عادثمود کی مانند قتل کریں گے۔" اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح عاد وثمود کا نام ونشان مٹ گیا، اسی طرح ان کا نام ونشان مٹادینا چاہیے۔ دمشق میں ایک مسجد کے دروازے پر ابوامامہ باہلیؓ نے کچھ سرلٹکے دیکھے، انہوںنے فرمایا: جہنم کے کتے، آسمان کے نیچے بدترین مقتول ، بہترین قاتل جنہوںنے ان کو قتل کیا، پھر انہوںنے آل عمران کی آیت106 پڑھی: اُس دن چہرے سفید ہوںگے اور اس دن چہرے کالے ہوںگے۔ تابعی راوی ابوغالبؒ نے سیدناابوامامہؓ سے پوچھا :کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ سے سنی ہے۔
انہوں نے فرمایا :اگرمیں نے ایک بار2بار3 بار 4 بار حتیٰ کہ7 بار نہ سنی ہوتی تومیں اس کو تم سے نہ بیان کرتا(ترمذی)۔ اس حدیث سے 3باتیں طے ہوئیں ۔ « خارجی قاتل ومقتول دونوں دنیا کے بدترین لوگ ہیں۔ ان کو مارنے والا یا ان کے ہاتھ سے شہید ہونے والا دونوں حالت میں دنیا کے بہترین لوگ ہیں۔ « خارجی جہنم کے کتے ہیں ۔پوری تاریخِ اسلام میں ایک سے ایک فرقے پیدا ہوئے لیکن رسول گرامی کی زبان مبارک سے جتنی خارجیوں کی مذمت ہوئی ، اتنی مذمت کسی کی نہیں ہوئی۔ « ان کے وجود کو ، ان کے رویے کو ،ان کے عقیدہ وعمل کو، ان کی تمام کوششوں، ان کے سارے دینی مظاہر کو کلیتاً رد کردیا گیا۔ دنیا و آخرت دونوں جگہوں میں انکی ناکامیوں کو آشکارکردیا گیا اورناکامیوں کے ساتھ بدترین عاقبت ، بدترین شکل اور بدترین قلبی وذہنی حالت کو بھی بیان کردیا گیا۔

شیئر: