Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ شادی کر لیں،ہنسنا بھول جائیں گے‘‘

’’ شادی کر لیں،ہنسنا بھول جائیں گے‘‘
* * * *مسز زاہدہ قمر ۔ جدہ* * * *
آپ ہمارے نام آئے ہوئے مسائل زدہ خطوط تو پڑھ ہی چکے ہیں ہم نے ایک دو مرتبہ قارئین کے مسائل کے حل پیش کئے تو ایسا لگا کہ گویا ہم نے کسی بنجر زمین پر ہل چلا کر اسے زرخیز بنا دیا ہو۔ ہر طرف واہ واہ کے پودے لہلہانے لگے حالانکہ ہم ایک مصروف شخصیت ہیں اور ہمارا ایسا کوئی ارادہ بالکل نہیں تھا کہ ہم مزید مسائل کا حل پیش کرنے کی کوشش کریں مگر کیا کریں، قارئین کو ہمارے سواکسی پر بھروسہ ہی نہیں رہا۔ ہماری ذہانت ، فطانت، دیانت ، صداقت، لیاقت قارئین کے دل میں گھر کر چکی ہے لہٰذا وہ اپنے ہر مسئلے کے لئے ہماری طرف ہی دیکھتے ہیں۔ اس لئے ہم نے اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کرپہلے تو عید کی مناسبت سے چند ایک خطوط چنے اور دوسرے مرحلے میں مزید وقت نکال کرمسائل کا حل لکھنے بیٹھے۔ مذکورہ مسائل اور ان کے حل قارئین کے لئے کے پیش کئے جا رہے ہیں:
٭٭مسئلہ نمبر1: نتھیا گلی سے بہن چمپا کلی لکھتی ہیں، آپی! میں حد سے زیادہ پریشان ہوں۔ میرے گھرمیں ہر وقت بن بلائے مہان آتے رہتے ہیں اور عید کے موقع پر تو مہینہ بھر مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ اس سے ہمارے گھر کا بجٹ با لکل آئوٹ ہو جاتا ہے۔ ہم جب بھی کسی کو فون کرتے ہیں، وہ جواباً ہمارے گھر آنے کی اطلاع دیتا ہے۔ اب تو فون کی گھنٹی خطرے کی گھنٹی کی طرح لگنے لگی ہے۔ بتایئے کیا کریں؟
**حل: بہن ! آپ کا مسئلہ واقعی پیچیدہ ہے۔ ویسے تو آپ نے ہمیں بھی آپی کہہ کر اپنے گھر بُلالیا ہے کیونکہ ’’آپی‘‘ در اصل دو لفظوں کا مجموعہ ہے،پہلا لفظ ہے ’’آ‘‘ جس کے معنی صاف ظاہر ہیں ’’آنے‘‘ کے ہیں۔ جب کسی کو بلانا ہو تو کہا جاتا ہے کہ ’’آ‘‘ یعنی آجا۔ ددوسرا لفظ ہے ’’پی‘‘ اور اس سے مراد ہے کھاناپینا ، چنانچہ ’’آپی‘‘ جیسے مرکب لفظ کے معانی ہیں کہ ’’آؤ اور کھا پی کر واپس جاؤ۔‘‘یہ سب جاننے کے باوجود آپ پریشان نہ ہوں کیونکہ ہم ایسے نادیدے نہیں کہ سہواً دی ہوئی دعوت پر آپ کے گھر پہنچ جائیں۔ خیر اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ آپ مہمانوں کوراحت تصور کیجئے اور پھر خود اس راحت کا روپ دھارکر اپنے رشتے داروں کے آنے سے پہلے ان کے گھر مہمان بن کر پہنچ جائیں۔ باقی رہی فون کی بات تو آ ُ پ فون بالکل نہ اُٹھائیں بلکہ ایک میسج ٹائپ کرکے سب رشتے داروں کو بھیج دیں کہ آپ ان کے گھر آرہی ہیں اور پھرفوراً آف لائن ہو جائیں تاکہ میسج کا منفی جواب نہ آئے۔ ایک ہفتہ یعنی 7روز تک صبح ،دو پہراور شام یہ عمل دہرانئیں۔ انجام کارکسی بھی قسم کے مہمان آپ کے گھرآنا ترک کر دیں گے اور اپنی سواری کا رُخ دیگر رشتے داروں کی طرف موڑ دیں گے۔
٭٭مسئلہ نمبر2:باجی! میں ایک قابل ، لائق، فائق ،ذہین و فطین لڑکی ہوں۔ میری عمر یہی کوئی35سال 120ماہ کے لگ بھگ ہے ۔میں عرصئہ 10 سال سے مختلف اخبارات خصوصاً اردونیوز میں مضامین لکھ کر بھیج رہی ہوں مگر میرا کوئی بھی مضمون معیاری ہونے کے باوجود اب تک شائع نہیں ہوا حالانکہ میرے مضامین کسی بھی ملک کے اسٹینڈرڈ ٹائم کی طرح اسٹینڈرڈ کے حامل ہوتے ہیں۔ میں نے حال ہی میں گدھوں کے کھانا کھانے کے طریقے پر ایک پھڑکتا ہوا مضمون لکھا ہے مگر وہ بھی شائع نہیں ہوا ۔اس بات نے مجھے ازحد مایوس کر دیا ہے۔ میرے اندر کی ادیبہ دم توڑ رہی ہے۔ باجی! مجھے بچا لیں اور مضمون شائع ہونے کا طریقہ بتادیں، پلیز۔
**حل: بہن! بلکہ خالہ آپ نے ہمیں کس منہ سے باجی لکھا ہے ؟ہمارا حساب بھلے ہی کمزور ہے اور ہم ہمیشہ حساب کے مضمون میں زیرو لیکر فیل ہوتے رہے ہیں مگر آپ کی صحیح عمر ہم نے بوجھ لی ہے۔ آپ 40سال کی ہو کر ہم جیسی 25، 26سال کی دوشیزہ کو باجی کیسے کہہ سکتی ہیں۔ اگر ہمیں اپنے پروفیشن کا خیال نہ ہوتا تو ہم آپ کو اچھی طرح سمجھ لیتے ۔ خیر ہم نے اپنا غُصہ ضبط کر لیا ہے اور اب آپ کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ آپ مضامین شائع نہ ہونے پر مایوس نہ ہوا کریں کیونکہ ہمارا بھی کوئی مضمون اردو نیوز میں شائع نہیں ہوتاحالانکہ وہ آپ کے مضامین سے زیادہ معیاری ہوتے ہیں مثلاً ہم نے حال ہی میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں ہم نے تحقیق سے ثابت کیا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ گھوڑا ٹوتھ پیسٹ اور خرگوش عینک استعمال نہیں کرتا۔ ، وجہ یہ تھی کہ دونوں گھاس کھاتے ہیں لہٰذا دانت اور آنکھ صحیح ہیں ۔ انسانوں کو گھاس کھا کر خرگوش اور گھوڑے جیسا فٹ ہونا چاہئے مگر خالہ جی! وہ مضمون شائع نہیں ہوا کیوں؟ ہمیں بتایا گیا کہ غیر معیاری مضمون ہے۔ بھلا اس میں غیر معیاری پن کہاں سے آگیا؟ آپ ہم سے سبق سیکھیں اور ہمت نہ ہاریں۔ ہم پھر سے ہمت کرکے مضمون لکھ رہے ہیں کہ شیرخوار بچے غوں غاں کیوں کرتے ہیں۔ ہم اس پر تحقیق کرکے یہ بھی بتائیں گے کہ انہیں بولنا نہیں آتا اس لئے وہ غوں غاں کرتے ہیں۔ ہم سے رابطہ رکھیں ہم آپ کو ایک دو مضامین کے آئیڈیاز دے دیں گے۔ اگر آپ نے ہمارے مشوروں پر عمل کیا تو آپ کا مضمون اخبار کی زینت ضروربنے گا۔
٭٭مسئلہ نمبر3: بھائی پھیرو سے پھیرو بھائی لکھتے ہیں ۔ بہن صاحبہ ! میں اپنے مسئلے سے بہت عاجز ہوں۔ مجھے ہر وقت ہنسنے کی عادت ہے۔ میں 24گھنٹے کھلکھلاتا رہتا ہوں ۔اسی وجہ سے کئی دفعہ بس اسٹاپ پر لوگوں سے پِٹ پِٹابھی چکا ہوں ۔ میری دھنائی کرنے والا مجھ پر الزام عائد کرتا تھا کہ تو ہماری بہن یا بیٹی کو دیکھ کر ہنس رہا تھا۔میںاپنے خاندان میں بھی بُزرگوں کے ہاتھوںتذلیل کا نشانہ بناتا ہوں کہ یہ لڑکا ہمارا مذاق اُڑاتا ہے، ہمیں دیکھ کر ہنستا ہے۔ میں غیر شادی شدہ ہوں۔ اگر میرا یہی حال رہا تو کوئی ہستی مجھے اپنا داماد بنانے کے لئے تیار نہیں ہوگی۔برائے مہربانی اس مسئلے کا حل بتائیں۔ آپ کو خط لکھتے وقت بھی میں قہقہے مار مار کر ہنس رہا ہوں اورہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو رہا ہوں ۔
**حل :بھائی جی! آپ کا مسئلہ سُن کر ہمیں بھی ہنسی آگئی اور ہم بھی زور دار طریقے سے ہنسنے لگے ۔اس مسئلے کا حل بے حد سادہ اور آسان ہے۔ آپ کسی بھی طرح کوشش کرکے شادی کرلیں ۔ منہ دکھائی کے لئے سسرال جاتے وقت منہ پر رومال رکھ لیجئے گا تاکہ آپ کی بتیسی کسی کو نظر نہ آئے ۔بس پوری طرح سے سر توڑ کوشش کریں کہ آپ کی شادی ہو جائے۔ ہماری گارنٹی ہے کہ پھر آپ ہنسنے کے معنی ہی بھول جائیں گے اور آپ کو لطیفوں پر تو کیا سیاستدانوں و حکمرانوں کے وعدوں جیسی مزا حیہ باتوں پر بھی ہنسی نہیں آئے گی ۔ مسکراہٹ آپ سے روٹھ جائے گی۔آپ کی سنجیدگی اور رنجیدگی بڑے سے بڑے پتھر دل کی آنکھیں بھی نم کر دے گی۔
٭٭مسئلہ نمبر4: خیر پور سے بھائی خیرولکھتے ہیںکہ باجی! آپ کی خیر ہو، میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہوں۔ میں آپ جیسی سمجھدار اور سلیقہ مند خاتون سے بچت کے طریقے سیکھنا چاہتا ہوں اور جاننا چاہتا ہوں کہ آخر کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ بچت کیسے کی جا سکتی ہے؟
**حل: بھائی! آپ تو خود ہی بچت کے اصولوں پر چل رہے ہیں۔ ہماری تعریف میں آپ نے بچت بلکہ کنجوسی کی حد کر دی ہے کیونکہ ہمیں صرف سلیقہ مند اور سمجھدار لکھا جبکہ ہم اپنی انکساری اور قناعت پسندی کے باوجود اپنی تعریف میں4سے 5 صفحے تو بآسانی لکھ سکتے ہیں۔ خیر ! آپ بچت کے اصولوں پر عمل کر رہے ہیں لہٰذا چھوڑیئے۔ اس کا حل یہ ہے کہ کم کھائیں ، کم نہائیں تاکہ کھانے اور پانی و صابن کی بچت ہو۔ شام کو سو جایئے اور دوپہر کو بلکہ اگلی شام کو اُٹھئے تاکہ ناشتہ اور ایک وقت کا کھانا بچ سکے ۔جوتے نہ پہنیں تاکہ کم گھسیں۔ اخبار ہر روز مت پڑھئے بلکہ کسی ردی والے سے دوستی کرکے ایک ہفتے بعد اس کی دکان میں جا کر غیر محسوس طریقے سے اخباراکٹھے دیکھ لیجئے ، خاندان اور دوستوں کی ہر تقریب میں جایئے اور تحفہ لے جانا بھول جایئے۔ غرض کہ کام کم کیجئے۔ ہم توکہتے ہیں کہ سانس بھی کم لیجئے تاکہ آکسیجن کی بچت ہو مگر کوئی نقصان پہنچے تو ہم ذمہ دار نہیں، آپ نے حل پوچھا ہم نے بتا دیاباقی آپ کی قسمت۔یہ چند ایک مسائل اور ان کے حل تھے، باقی پھر سہی۔

شیئر: