Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیند ،انمول نعمت، عظیم نشانی

پیغمبر اسلام سخت بستر استعمال کرتے تھے، دائیں کروٹ لیتے اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی دائیں رخسار کے نیچے رکھ لیتے تھے
* * * * *ڈاکٹر محمد لئیق اللہ خان * * * *
نیند اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اس سے دماغ کو سکون ملتا ہے اورانسان سونے کی بدولت تازہ دم ہوجاتا ہے۔ نیند صحت کو برقرار رکھنے کیلئے اشد ضروری ہے۔ جو لوگ نیند پوری نہیں کرپاتے وہ مختلف بیماریوں اور مشکلات سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ نیند کے حوالے سے قرآن کریم میں جو کچھ آیا ہے، وہ جدید معلومات کے تناظر میں قرآنی معجزہ ہے۔ نیند سے متعلق قرآن کریم میں مختلف آیات آئی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ الروم کی آیت نمبر 23میں ارشاد فرماتا ہے: "اور اللہ کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے، یقینااس میں ان لوگوں کیلئے بہت سی نشانیا ں ہیں جو غور سے سنتے ہیں۔" علامہ ابن کثیر ؒ اس کا مطلب یہ بتاتے ہیں کہ: "رات اور دن کے وقت سونا اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔
نیند سے انسان کو آرام ملتا ہے۔ سکون حاصل ہوتا ہے۔ تکان اور کلفت دور ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رزق کی تلاش میں جدوجہد اور دن میں اسباب رزق کے حصول کیلئے بھاگ دوڑ کابندوبست کیا ہے۔ یہ نیند کی ضد ہے۔" سچ اور حق یہی ہے کہ نیند بھی خلاق عالم کی ان نشانیوں میں سے ایک ہے جو اس کی ربوبیت ، خلاقیت اور حکیمیت کا پتہ دیتی ہیں۔ انسان مسلسل محنت نہیں کرسکتا ،اسے ہر چند گھنٹے محنت مشقت کے بعد چند ساعتوں کیلئے آرام درکار ہوتا ہے۔ اس غرض کے لئے خالق حکیم و رحیم نے انسان کے اندر صرف تکان کا احساس اور صرف آرام کی خواہش پیدا کردینے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے نیند کا ایسا زبردست داعیہ انسان کے وجود میں ودیعت کردیا ہے جو انسان کے ارادے کے بغیر حتیٰ کہ اسکی جانب سے نیند کی مزاحمت کے باوجود خود بخود ہر چند گھنٹے کی بیداری اور محنت کے بعد اسے آدبوچتا ہے اور چند گھنٹے آرام کرنے پر اسے مجبور کردیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ النبا ء کی آیت نمبر 9میں بھی نیند جیسی انمول نعمت عطا کرنے پر اپنا احسان جتایا ہے، ارشاد الٰہی ہے : "اور ہم نے تمہارے لئے نیند کو سکون کا باعث بنایا۔" نیند کی ماہیت اور کیفیت اور اسکے حقیقی اسباب کو سمجھنے کیلئے انسان برسہا برس سے کوشش کررہا ہے۔ اس حوالے سے انسان یہ دریافت کرنے میں تو کامیاب ہوگیا کہ نیند انسا ن کے جسم میں مختلف تبدیلیوں کے نتیجے میں طاری ہوتی ہے لیکن اس کے حقیقی اسباب آج تک دریافت نہیں کرسکا۔ نیند قطعاً ایک پیدائشی چیز ہے ۔ اس کا ٹھیک انسان کی ضرورت کے مطابق ہونا اس بات کی شہادت دینے کیلئے بہت کافی ہے کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ خالق حکیم کے سوچے سمجھے منصوبے کی عطا ہے۔ نیند کس طرح آتی ہے؟نیند کا سبب کیا ہے؟ اسکی بابت 3 نظریات سامنے آئے ہیں: ایک نظریہ تو یہ ہے کہ انسان کے دماغ میں ایک صنوبری غدہ ہوتا ہے، یہ اعصابی نقل و حمل کا وظیفہ انجام دیتا ہے۔
یہ غدہ خون میں فضلہ ڈالتا رہتا ہے۔ یہ آنکھوں کی پتلی کے اطراف پڑنے والی روشنی کے اثرات سے اعصابی گرد ش کی اطلااعات حاصل کرتا ہے۔ اس غدے میں ملاٹونین نامی مادہ تشکیل پاتا ہے جو 1958ء میں دریافت ہوا۔ یہ دماغ پر نیند طاری کرتا ہے۔ دوسرا نظریہ نیند کے کیمیکل سسٹم کا ہے۔ اسکا حاصل یہ ہے کہ بیداری کے دوران انسانی جسم کے عضلات اور اعصاب محنت کرتے ہیں۔ کیمیکل آپریشن اور توانائی خرچ ہونے سے فضلات اورزہریلے مواد بنتے ہیں۔ یہ رفتہ رفتہ خون میں بڑھتے جاتے ہیں۔ یہ اعصابی نظام یا دماغ کے پاس جمع ہوتے رہتے ہیں۔ بالآخر دماغ پر اونگھ اور سستی طاری کردیتے ہیں۔ رفتہ رفتہ اسکا سلسلہ بڑھتا جاتا ہے اور نیند آجاتی ہے۔ تیسرا نظریہ پرانا ہے ۔
اسکا قصہ یہ ہے کہ گزشتہ صدی میں اعصاب کے جراح دماغ کا آپریشن انسان کو بے ہوش کئے بغیر کیا کرتے تھے۔ انہوں نے آپریشن کرتے ہوئے دیکھا کہ آپریشن کے دوران مریض بیدار ہے اور وہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی دوران وہ کیا دیکھتے ہیں کہ مریض پر اچانک اس وقت نیند طاری ہوجاتی ہے جب انکے آلات جراحت دماغ کے اندر موجود بعض عمیق حصوں کے خلیوں کے کسی مرکز کو چھو لیتے ہیں۔ اس مشاہدے سے جراحوں نے فرض کرلیا کہ دماغ میں ’’نیند والے مراکز‘‘ پائے جاتے ہیں۔ نیند سے محرومی کے نقصانات: انگلینڈ کے وسطی علاقے میں لوپرو گ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے ماتحت نیند پر ریسرچ کرنے والے ایک سینٹر کے ماہرین نے نیندسے محرومی کے نقصانات کا جائزہ لیکر بتایا کہ نیند نہ ہونے کی صورت میں مندرجہ ذیل نقصانات ریکارڈ پرآئے ہیں: اول تو انسانی نشاط میں اضمحلال آجاتا ہے۔ بے خوابی ، بے چینی اور تناؤ کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اعصابی ہیجان کا حملہ ہوتا ہے اور ذہن ماؤف ہوجاتا ہے۔ مرگی اور پاگل پن کے دورے پڑنے کا امکان بھی رہتا ہے۔ نظر کمزورہوجاتی ہے۔ نگاہ میں گڑبڑ پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات چیزیں دہری نظر آنے لگتی ہیں۔
امریکہ کی اوہائیو یونیورسٹی میں نیند پر ریسرچ کرنے والے سینٹر نے بعض افراد کو مسلسل 5روز تک نیند سے محروم رکھا پھر بے خوابی کے اثرات کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ مسلسل 5دن تک نہ سونے والوں میں سے بعض خود کو حرکت دینے سے تقریباً قاصر ہوگئے۔ سوچنے کی صلاحیت کمزور ہوگئی۔ فیصلے کرنے کی اہلیت معمولی سطح تک گر گئی۔ بخار زدہ انسان کی طرح فضول باتیں کرنے لگے۔ سوتے ہوئے جسم میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں اب وہ دیکھیں۔ سوتے ہوئے نبض کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے۔ خون کا دباؤ20تا 25ملی میٹر کے تناسب سے کم ہوجاتا ہے۔ تنفس کی رفتار ہلکی ہوجاتی ہے البتہ تنفس زیادہ گہرا اور زیادہ لمبا ہوجاتا ہے۔ خون میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔ رات کے وقت نیند کے دوران جسم 33فیصد اور دن کے وقت 67فیصد آکسیجن جذب کرتا ہے۔ جسم رات کے وقت سونے کے دوران 42فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دن میں سوتے وقت58فیصد خارج کرتا ہے۔
درجہ حرارت میں معمولی کمی واقع ہوتی ہے۔نیند کے دورا ن عضلات ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ نیند کے دوران ہضم کا نظام آرام کرتا ہے۔ معدے اور آنتو ںکی حرکت ہلکی ہوجاتی ہے۔ ہاضم مواد کی تشکیل کم ہوجاتی ہے۔ جگر اوربنکریاس کا عمل مدھم ہوجاتا ہے۔ بعض غدوں کا عمل ہلکا پڑ جاتا ہے۔ نیند امراض کا علاج ہے ۔ بیفلوف نے کئی امراض کا علاج نیند کے ذریعے کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ وہ مریض کو گدگدے بستر پر لٹاتا۔ روشنی اور شور سے دور رکھتا ۔ مخصوص مقدار میں خواب آور دوا دیتا۔ مریض گہری نیند میں چلا جاتا ۔ 3 ہفتے تک نیند کا سلسلہ جاری رکھتا۔ مریض کو کھانے پینے اور قضائے حاجت کیلئے جگاتا اور پھر سلا دیتا۔ مریضوں نے بیفلوف سے کہاکہ وہ خود کو چاق و چوبند محسوس کررہے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ انکی عمر کئی برس کم ہوگئی ہے۔ قرآن و سنت میں نیند کے حوالے سے ہدایات: قرآن و سنت میں نیند کے بارے میں مندرجہ ذیل ہدایات ہمیں دی گئی ہیں: نیند کا وقت رات ہی کو رکھا جائے لیکن دوپہر کے وقت کچھ دیر سستانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ رات کو جلد سونے کا اہتمام کیا جائے اور صبح سویرے اٹھنے کی عادت ڈالی جائے۔
بستر نہ تو زیادہ نرم ہو اور نہ ہی اتنا سخت ہو کہ نیند ہی نہ آئے۔ خالی پیٹ سونے سے پرہیز کیا جائے۔ سونے سے قبل مسواک ضرور کرلی جائے۔ سونے سے قبل ہاتھ اور منہ دھو لیا جائے۔ نشہ آور اور خواب آور دواؤں سے اجتناب برتا جائے۔ سونے کا طریقہ: رسول کریم کا ہر عمل ہمارے لئے حسین نمونہ ہے۔ پیغمبر اسلام کا معمول تھا کہ سخت بستر استعمال کرتے تھے۔ دائیں کروٹ لیتے اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی دائیں رخسار کے نیچے رکھ لیتے تھے۔ پیغمبر اعظم و آخر الٹا لیٹنا پسند نہیں کرتے تھے۔
طبی لحاظ سے بھی دائیں جانب لیٹنا ضروری ہے کیونکہ معدے کا اخراج بھی دائیں جانب ہوتا ہے۔ بائیں جانب لیٹنے سے دل پر بوجھ پڑتا ہے اسی طرح الٹا لیٹنا بھی مفید نہیں۔ رخسار کے نیچے ہاتھ رکھنے سے نچلے جبڑے کو راحت ملتی ہے، جس سے نیند کے دوران ڈھیلا ہوجانے کے باوجود منہ نہیں کھلتا اور خراٹے نہیں نکلتے۔ سیدھا لیٹنے سے خراٹوں کا امکان زیادہ رہتا ہے چنانچہ دائیں جانب لیٹنا ا حسن عمل ہے۔ طبی تجربات و مشاہدات نے ثابت کیا ہے کہ جو لوگ سخت بستر استعمال کرتے ہیں انہیں کمر کا درد بیحد کم ہوتا ہے۔ لیٹنے کے دوران کروٹ لیتے رہنا چاہئے۔ قرآن پاک میں اصحاب کہف کا ذکر آیا ہے جو کئی سو سال تک سوتے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الکہف کی آیت نمبر 18میں بتاتا ہے : "ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے اور انکا کتا غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔" قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اصحاب کہف کو 309برس تک دائیں اوربائیں مسلسل کروٹ دلاتا رہتا تھا ۔ کروٹ دلانے میں بڑی مصلحت پوشیدہ ہے۔
جدید طب سے پتہ چلا کہ مسلسل ایک کروٹ پر لیٹے رہنے سے جسم کے کئی حصوں میں زخم پیدا ہوجاتے ہیں چنانچہ فالج، ریڑھ کی ہڈی اور کولہوں میں ٹوٹ پھوٹ اور طویل کومے والے مریضوں کے لواحقین پر لازم ہے کہ وہ انہیں چند گھنٹوںکیلئے کروٹ دیدیا کریں۔ اس سے یہ حکمت بھی معلوم ہوئی کہ اگر اللہ تعالیٰ اصحاب کہف کو صرف دائیں طرف کروٹ دیتا تو بائیں جانب زخم ہوجاتے اور اگر صرف بائیں طرف کروٹ دیتا تو دائیں جانب زخم ہوجاتے ۔ اگر ایک ہی طرف کمر پر لیٹا رہنے دیتا تو کمر میں زخم ہوجاتے۔ اطباء کو اس عمل کی حکمت عصر حاضر میں جاکر اب معلوم ہوئی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ نیند خلاقِ عالم کی انمول نعمتوں اور عظیم الشان نشانیوں میں سے ایک ہے اور پھر نیند کا اسلامی طریقہ بھی انسانوں کیلئے اپنے اندر بہت ساری حکمتیں سموئے ہوئے ہے۔ یہ سارے حقائق 1400 برس قبل کسی کو معلوم نہ تھے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی امی نے سونے سے متعلق جو کچھ قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کے ذریعے بتایا وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کا ثمرِجمیل تھا۔

شیئر: