Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا کامیابی دولت جمع کرنے میں ہے؟

رسول اللہ نے بقدر کفایت روزی کو پسند کیا، ایسی دولت جو انسان کو شرعی ذمہ داریوں سے غافل کر دے وہ مصیبت سے کم نہیں
** * * *عبد المالک مجاہد۔ریاض* * * *
قارئین کرام! اللہ کے رسول نے فقر سے پناہ مانگی ہے کہ وہ بعض اوقات انسان کے ایمان کو خطرات سے دوچار کر دیتا ہے۔آپ کی ایک بڑی مشہور دعا ہے جس میں آپ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فقر اور محتاجی سے پناہ طلب کی ہے: {اللّٰہُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ}۔ " اے اللہ! میں تجھ سے کفر اور فقر سے پناہ مانگتا ہوں۔" اللہ کے رسول روایتی معنوں میں مالدار نہیں تھے بلکہ آپ کا فقر اختیار ی تھا۔اگرآپ چاہتے تو بے پناہ دولت جمع کرسکتے تھے ۔ آپ کے لئے احد پہاڑ کو سونے کا بنا دینے کی پیشکش کی گئی لیکن آپ نے دولت مند نبی بننا پسند نہ فرمایا بلکہ آپ نے بقدر کفایت روزی کو پسند کیا۔
ایسی دولت جو انسان کو اس کی شرعی اور سماجی ذمہ داریوں سے غافل کر دے وہ کسی مصیبت سے کم نہیں۔آپ کا ارشاد گرامی ہے: "وہ شخص کامیاب ہوگیا جو اسلام میں داخل ہوگیا اور ضرورت کے مطابق رزق دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس رزق پر قناعت کرنے والا بنا دیا۔" (مسلم) ۔
آئیے ایک دولت مند شخص کی داستانِ حیات پر نظر ڈالتے ہیں اور اس کے ساتھ پیش آنے والا عبرتناک واقعہ پڑھتے ہیں: معروف تاجرو صنعت کاراحمد فائیوا سٹار ہوٹل کی لابی میں بیٹھا اپنی سوچوںمیں غرق ہے۔ الجزائر کے دارالحکومت کے اس ہوٹل میں وہ ہمیشہ ٹھہرتا ہے۔ اس کے سامنے بحر متوسط کا نیلگوں پانی حد نگاہ تک نظر آرہا ہے۔ پانی کی لہریں اٹھتیں اورساحل تک پہنچتے پہنچتے دم توڑ دیتیں۔ ذرا دور سے بادل ہوا میں تیرتے ہوئے آئے اور نیلے آسمان پر چھا گئے۔ موسم بڑا معتدل تھا۔ نہ شدید گرمی نہ سردی۔ اس کے سامنے میز پر چائے رکھی ہوئی تھی۔ اس نے بادلوں کی طرف دیکھا۔ کتنے خوبصورت ہیں یہ بادل، کبھی رکتے نہیں۔ وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوا:تمہاری زندگی بھی تو ایسی ہی ہے نا، مسلسل جدوجہد اور کوشش میں، کبھی نہ رکنے والی، کبھی نہ تھمنے والی۔ ساری زندگی مال و جاہ کی تلاش میں گزر گئی۔
کتنے ہی سفر میں نے زندگی میں کئے ہیں، بالکل ان بادلوں کی طرح جن کی کوئی منزل نہیں۔ کبھی کسی جگہ، کبھی کسی ملک میں۔ آج وہاں پر نمائش لگی ہے، آج یورپ میں کاروباری میٹنگ ہے تو کل عرب ممالک میں ۔ ایک ہی منزل ایک ہی خواہش کہ میں کسی طرح دنیا کا کامیاب بزنس مین کہلانے لگ جائوں، دنیا کے چند بڑے اورامیر لوگوں میں میرا بھی نام ہو، میں ارب پتی کہلوائوں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے اس نے کتنی محنت کی، کتنا وقت بیرون ملک گزارا۔
ذہن میں ایک خیال آیا کہ تمہاری زندگی کی کتنی راتیںبیوی اور بچوں کے ساتھ گزری ہیں اور کتنی فائیوا سٹار ہوٹلوں میں۔خیالات آتے رہے ،جاتے رہے۔ سوالات کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ، وہ جلد ہی اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ یقینا جو وقت بیوی اور بچوں کے بغیر گزارا ہے، وہ زندگی کا ایک بڑااور غالب حصہ ہے۔ اپنے وقت کا یہ کامیاب ترین بزنس مین کمرے میں واپس آیا۔ قد آدم آئینے کے سامنے کھڑا ہوا۔ اپنی شکل دیکھی۔اُف کیا یہ واقعی میرا چہرہ ہے؟ سر میں کتنی بڑی تعداد میں سفید بال آگئے ہیں بلکہ اب تو اکثریت ہی سفید بالوں کی ہے۔ اس کو جھرجھری سی آگئی، اف خدایا! میری جوانی کہاں چلی گئی؟ میرا چہرہ کتنا خوبصورت اور پررونق ہوا کرتا تھا، اب مجھ پر بڑھاپے کے آثار نظر آرہے ہیں!۔
بلاشبہ میں نے بہت مال و دولت جمع کر لیا ہے، میں بڑا معروف بزنس مین بن گیا ہوں، میری خوبصورت سی بیوی اور میرا بیٹا، بیوی اور بچے کا خیال آتے ہی اس کے دل میں فرحت کا خوشگوار احساس پیدا ہوا۔ اب تو میرا بیٹا جوان ہو گیا ہے، میری ساری جائیداد کا اکیلا وارث، کاش! ان لمحات میں میری بیوی اور میرا اکلوتا بیٹا میرے پاس ہوتے، افسوس، کاش ایسا ہوتا، میں نے ان کے ساتھ بڑا ظلم کیا ہے، بہت ہی قلیل مدت ان کے پاس بیٹھا ہوں۔نہ تو بیٹے کو مناسب وقت دے سکا اور نہ ہی اپنی وفا شعار بیوی کو، بس کاروباری حالات ہی ایسے رہے، میری مسلسل میٹنگز، مختلف ممالک کے مسلسل اسفار، اب میں تھک گیا ہوں۔ یقینا مجھے اب زیادہ وقت اپنی بیوی اور بیٹے کو دینا چاہیے۔ میرا بیٹا تو اب جوان ہو گیا ہے، وہ کونسی کلاس میں ہے، اس نے ذہن پر زور دیا، غالباًوہ انجینیئرنگ کے آخری سال میں ہے، میری اس سے آخری ملاقات آج سے چند ماہ قبل تھوڑی دیر کے لئے ہوئی تھی۔ شاید وہ 21ویںسال میں ہے مگر یہ طے ہے کہ وہ انجینیئرنگ یونیورسٹی کا طالب علم ہے۔بس اب وہ انجینیئر بننے ہی والا ہے۔
قارئین کرام ! اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ ہمیں رزق چاہیے، دولت چاہیے ،اس سے قطعاً انکار نہیں لیکن اتنی دولت نہیں چاہیے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری سے دور کر دے۔ میں الحمد للہ! اکثر اپنے لئے جب بھی دعا مانگتا ہوں میں اللہ تعالیٰ سے یہی دعا مانگتا ہوں کہ اے اللہ! مجھے اتنا رزق دینا جو مجھے تیری اطاعت اور فرمانبرداری سے دور نہ کر دے۔ مثلاًایک شخص دولت کے نشے میں نماز سے دور ہو جاتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی نہیں کرتا یا ارکان اسلام کی ادائیگی میں پہلو تہی کرتا ہے تو ایسی دولت کا کیا فائدہ۔ بس احمد! ہر چیز کی ایک انتہاہوتی ہے۔ وہ اپنے آپ سے مخاطب تھا: مجھے اب فوری قاہرہ کے لئے روانہ ہوجانا چاہیے۔ بس دو3 گھنٹوں کے بعد میں اپنی پیاری بیوی اور لاڈلے بیٹے کے پاس ہوں گا۔ میں ان سے اب معذرت کروں گا، بڑا لمبا وقت گزار لیا ان کے بغیر۔ میں اپنے بیٹے ماحون سے خوب باتیں کروں گا۔ اس کی پڑھائی، اس کے کالج کی مصروفیات کی تفاصیل معلوم کروں گا اور پھر اس سے کہہ دوں گا کہ اب کمپنی کے جنرل منیجر تم ہو گے۔ میں اب اس زندگی سے تھک چکا ہوں۔ پھر وہ تصوراتی طور پر اپنے آپ کو بیوی اور بیٹے کے درمیان محسوس کرنے لگا۔ اب کی بار میں اپنے بیٹے کو خوب پیار کروں گا، اس کو گلے لگائوں گا، اپنے سینے سے لگائوں گا ، اس کو اور بیوی کو خوب وقت دوں گا۔ اس خوش کن تصور کے ساتھ اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ احمد انہی تصورات میں گم تھا کہ اس کے کمرے میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ بار بار ٹرن، ٹرن کی آواز آرہی تھی، اس نے آنکھیں کھولیں۔ لپک کر ریسیور پکڑا، کال قاہرہ سے آرہی تھی، فون پر اس کا بڑا بھائی بات کر رہا تھا، اس نے ریسیورکان سے لگایا۔ وہ کہہ رہا تھا: فوراً پہنچ جائو، تمہاری بیوی خطرے کی حالت میں ہے،فوراً آجانا، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اس کو دیکھ نہ سکو، ہاں ہاں ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہے، ہاں حالت سخت خطرناک ہے۔ اس کو فوراً خصوصی طیارے کے ذریعے یورپ میں منتقل کر دیں ، میں بھی وہاں پہنچ جائوں گا۔ جتنی بھی رقم خرچ ہو جائے، کوئی پرواہ نہیں، بس اس کو زندہ رہنا چاہیے۔
احمد بولا۔ جلدی کریں۔ اسکے بھائی نے جواب دیا۔قاہرہ میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک ڈاکٹر ہیں، ہم علاج کروا رہے ہیں۔ بس تم لیٹ نہ ہونا۔ فون کال ختم ہو گئی،اس نے ریسیور رکھا اور پھر وہ ارب پتی ،بچوں کی طرح زار وقطاررونے لگا۔ شاید زندگی میں پہلی مرتبہ وہ زار و قطار رو رہا تھا،اس کی خواہشات کا گلا گھونٹا جا رہا ہے،یہ کس کی نظر بد لگ گئی ہے؟ یہ کیا ہو گیا ہے؟میں کیا سوچ رہا تھا اور کیا سن رہا ہوں؟ نہیں نہیں،ایسا نہیں ہو سکتا،میری بیوی زندہ رہے گی۔ ان شاء اللہ۔
اس کو مجھ سے کوئی جدا نہیں کر سکتا۔ میں اس کا علاج کرائوںگا۔ خواہ کتنی ہی دولت خرچ ہو جائے۔میری محبت کو،میری پیاری بیوی کو زندہ رہنا چاہیے۔ پھر وہ فوراً ہی پہلی میسر فلائٹ پر قاہرہ روانہ ہو گیا۔ قاہرہ کے ایئرپورٹ پر اس کا بڑا بھائی اس کے انتظار میں تھا، کئی سال کے بعد اس سے ملاقات ہو رہی تھی۔بہت سی وجوہ تھیں،کاروباری مسائل اور مصروفیات، مسلسل سفر۔ایئرپورٹ پر دونوں بھائیوں کی ملاقات بڑی دیدنی تھی۔ کئی سالوں کے بعد دونوں نے معانقہ کیا۔ بزنس مین نے بے تابی سے اپنے بڑے بھائی سے پوچھا:اب میری بیوی کیسی ہے؟۔ بڑے بھائی نے بڑے غمگین لہجے میں جواب دیا: تمہاری بیوی اب اس دنیا میں نہیں رہی، تھوڑی دیر پہلے وہ زخموں کی تاب نہ لا کر وفات پا گئی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ارب پتی تاجر اب بچوں کی طرح رو رہا ہے، اس کی ہچکی بندھ گئی ہے۔ اس کے بھائی نے اسے گلے لگایا ، اس کو دلاسہ دیا۔ بھائی کے دلاسہ دینے اور گلے لگانے سے اس کو کافی حوصلہ اور تسلی ملی، بھائی کی سچی محبت مفادات اور دھوکے سے پاک اور صاف شفاف تھی،افسوس! میں کتنی دیرتک اس محبت سے دور رہا۔ اس کو بڑے بھائی کا سینہ اپنی ماں کی چھاتی اور آغوش جیسا لگا، اس کی کاروباری مصروفیت نے اس کو اپنوں ہی سے دور کر دیا۔ کاش،اے کاش! وہ زمانہ لوٹ آئے ، کاش! میرا بچپن واپس آجائے۔ اس نے اپنے سر کو بھائی کے سینے سے لگایا اور خوب رویا۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا ۔ ہوش و حواس قائم ہوئے تو اس نے بھائی سے پوچھا: اس وقت میری بیوی کی لاش کہاں ہے؟ بھائی نے بتایا: وہ اس وقت پوسٹ مارٹم کے لئے لے جائی گئی ہے۔ مناسب تو یہ تھا کہ ہم اس کو فوری دفن کر دیتے لیکن میں چاہتا تھا کہ تم اسے اپنے ہاتھوں سے دفن کرو۔اس پر الوداعی نظر ڈال لو۔ احمد نے اب اپنے بیٹے کے بارے میں سوال کیا:اس کو تو تمہارے ساتھ ایئرپورٹ پر ہونا چاہیے تھا، وہ کیوں نہیں آیا ، کدھر ہے وہ؟‘‘ بھائی نے کہا:ہاں،وہ کسی وجہ سے میرے ساتھ نہیں آسکا۔
ہاں،یقینا وہ ماں کی وفات سے سخت رنجیدہ خاطر ہو گا،میرے رب! میرے بیٹے کو حوصلہ اور صبر عطا فرما اور یہ عظیم صدمہ جھیلنے کی توفیق عطا فرما،احمد نے کہا۔ احمد اپنے بھائی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا ، گاڑی کا رخ گھر کی طرف تھا۔ کار میں ایک مہیب سناٹا، ایئرپورٹ سے گھر کافی فاصلہ پر تھا۔ اس نے اپنے سر کو ٹیک لگائی،شدت غم سے اس نے آنکھیں بند کر لیں اور اس کی سابقہ زندگی فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگی،اس کی عمر اس وقت20 سال تھی جب اس کی شادی ہوئی تھی، اب شادی کو 25سال ہونے کو ہیں۔ اس وقت اس کی عمر 45سال کی ہو چکی ہے، شادی کے وقت اس کی مالی حیثیت بڑی معمولی تھی۔ اس کی بیوی بڑی صابرہ اور شاکرہ تھی۔ میاں بیوی میں بڑی گہری محبت تھی۔ وہ جو بھی کما کر لاتا وہ نہ صرف یہ کہ اسے بڑے منظم انداز میں خرچ کرتی بلکہ اس میں سے کچھ نہ کچھ پس انداز بھی کرلیتی۔ وہ اپنی کاروباری مصروفیات کی بنا پر گھر سے کئی کئی دن غائب رہتا۔ کتنی ہی مرتبہ ایسا ہوا کہ وہ آدھی رات کے بعد گھر آیا مگربیوی نے کبھی شکوہ اور شکایت نہیں کی ،کبھی نہیں پوچھا کہ تم لیٹ کیوں ہوئے؟ بس جب وہ گھر آتا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ چھا جاتی، اسی طرح محنت کرتے کرتے اس کی دولت میں اضافہ ہوتا چلا گیا مگر آج ا س کا بسابسایا گھر اجڑ چکا تھا۔
اس کی محبت کرنے والی بیوی نہ رہی، ادھر احمد کا بڑا بھائی نبیل کسی اور ہی فکر میں مبتلا ہے، میں اس کو کیسے بتا سکوں گا، یہ حادثہ کیسے ہوا، کیوں ہوا، اس کا ذمہ دار کون ہے۔ اس کا بیٹا کہاں ہے۔ احمد نے دیکھا کہ گاڑی کا رخ اس کے گھر کی طرف نہیں چنانچہ گویا ہوا:بھائی تم کس طرف جا رہے ہو، میرے گھر کا راستہ یہ تو نہیں ، لگتا ہے کہ تم اپنے گھر کی طرف جا رہے ہو۔ ہاں تم نے بالکل درست سمجھا: پہلے تھوڑی دیر میرے گھر میں رکیں گے، پھر تمہیں تمہارے گھر پہنچائوں گا۔ احمد کا بڑا بھائی نبیل کوئی امیر کبیر آدمی نہ تھا۔ ایک متوسط درجے کا شہری اور مقامی ہائی اسکول میں ٹیچر، معمولی سی تنخواہ مگر ایک چیز قابل توجہ تھی اور وہ یہ کہ اس نے اپنے بڑے بھائی کی کبھی مدد نہیں کی تھی اور نہ ہی اس طرف کبھی غور و فکر کیا تھا اور اگر کبھی خیال آیا بھی تو اس نے اس خیال کو یہ کہہ کر جھٹک دیا کہ پتہ نہیں میرے بھائی کو یہ مناسب لگے گا یا نہیں، کہیں وہ ناراض ہی نہ ہو جائے کہ یہ میری غربت اور افلاس کا مذاق اڑا رہا ہے، بڑے بھائی کا گھر آگیا ، متوسط سے بھی نچلے درجے کا گھر۔
آج وہ کئی سال کے بعد اپنے بھائی کے گھر میں داخل ہو رہا تھا، اب اس کو رہ رہ کر خیال آرہا تھا، میں نے آخر اپنے بھائی کی مالی امداد کیوں نہیں کی، میرا بھائی، آہ! بڑا بھائی جو باپ کے مانند ہے، اس کا یہ گھر میری امداد کا کتنا محتاج ہے، اس کی بیوی، اس کی اولاد، آخر میں اس کے بچوں کا چچا ہوں، میری اربوں کی جائیداداور بینک بیلنس کس دن کام آئے گا۔ میرابھائی ایک ایک پائی کا محتاج اور میں کروڑوں اربوں کا مالک، ایک ایک رات ہوٹل کا کرایہ کتنے ہزار، بے شمار ڈالرز محض ٹپ کی نظر ہو جاتے، محض فیشن کی خاطر، اپنے نام و نمود کی خاطر کتنی رقم ضائع کی، بھائی اس کو سہارا دیتے ہوئے خاص کمرے میں لے گیااور اندر کا دروازہ بند کر لیا۔ کئی مرتبہ اس نے زبان کھولنے کی کوشش کی مگر ہر مرتبہ وہ کچھ سوچ کر چپ ہو جاتا،احمد نے اس کو پکارا:بھائی لگتا ہے کہ آپ مجھ سے کچھ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نہیں تو… مگر… دراصل …وہ رکا، ذرا جھجکا… بات یہ ہے… مگر زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔بھیا مجھے سچ سچ بتا دو… مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ کوئی بڑا حادثہ ہو گیا ہے۔ غالباً میری بیوی کی وفات سے بھی بڑا… میں سننے کے لئے تیار ہوں، تم بتائو تو سہی۔ (جاری ہے)

شیئر: