Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معاشرہ حیوانیت کی جانب

 

محمد عتیق الرحمن۔ فیصل آباد

------------------------

 

پے درپے واقعات ہونے والے انفرادی واقعات نے ہلا کررکھ دیا ہے ۔ بزرگوں کا احترام تو ماضی کی بات ہوئی، چھوٹوں سے شفقت کا ہاتھ بھی اٹھ چکا ہے ۔برداشت کا اس قدر فقدان ہوچلا ہے کہ گویا ہم کسی جنگل میں رہ رہے ہیں ۔ جنگل میں تو پھر کوئی قانون لاگوہوگا لیکن ہمارے معاشرے میں کوئی قانون نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی رکھوالا نظر آرہا ۔حیوان ناطق کہا جانے والا اب صحیح معنوں میں حیوان بن چکا ہے ۔خون سفید ہوچکے ہیں ، ہرطرف ماردھاڑ اور جنگ کاسماں ہے ۔آگے بڑھنے کی جلدی نے حضرت انسان کو انسانیت سے دور کردیا ہے ۔خودکشی ،قتل وغارتگری اور دھونس وزبردستی ہمارے معاشرے کا جزولاینفک بن چکے ہیں ۔ سیاسی وسماجی رہنمائوں کی آل و اولاداپنے ملازمین کو زدوکوب کرتے اور قتل کرتے ہوئے پائے جارہے ہیں ۔

لاہور میں گھریلو ملازم 16سالہ اخترعلی اور اس کی بہن عطیہ پرتشددکیا گیا ۔ شدید ترین تشدد کی وجہ سے اخترعلی جانبر نہ ہوسکااور دیارغیر میں سسک سسک کراپنی جان سے گیا اورزخموں سے چور بہن کی چیخ وپکار پراہل محلہ نے پولیس کو اطلاع دی ۔حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والی بیگم شاہجہاں کے گھر میں ہونے والے اس افسوسناک واقعہ میں ان کی بیٹی فوزیہ کا بنیادی کردار ہے۔مشہور طیبہ تشدد کیس بھی اسی تناظر سے جڑا ہوا ہے جس میں سیشن جج کی اہلیہ ملوث ہیںجس کا بعدازاں سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا پڑا ۔ جنوری 2014ء میں لاہور کے علاقہ عسکری نائن میں 10سالہ یتیم گھریلوملازمہ ارم کو لوہے کے راڈ مارمارکر ہلاک کردیاگیا تھا ۔کروڑوں روپے مالیت مکان میں رہنے والے الطاف محمود کی بیوی نے گھریلوملازمہ پر 20ہزار روپے چوری کا الزام لگایا اور رسی سے باندھ کر تشددکیا ۔ 15سالہ عذرا نامی گھریلوملازمہ کو لاہور ہی میں اس کے مالک نے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد گلا گھونٹ کر ہلاک کردیا ۔یہ چند ایک واقعات بطور تمثیل پیش کیے ہیں، ایسے سیکڑوں ہزاروں واقعات ہیں جو ہمارے معاشرے میں وقوع پذیر ہوتے ہیں لیکن میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔

یہ صرف چند مثالیں ہیں جو ہمارے معاشرے کی تصویر کونمایاں کرتی ہیں ۔ طبقاتی تقسیم نے اس تشدد کو مزید ابھارا ہے ۔ہندوئوں میں ذات پات کا نظام موجود ہے اور شدید نوعیت کا ہے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ملک حاصل کرنے کے بعد بھی چوہدری اور کمی کمین سے نہیں نکل پائے ۔مسجد میں جاکر ایک اللہ کے سامنے سربسجود ہونے والے مسلمان سلام پھیرتے ہی چوہدری اور کمی بن جاتے ہیں جن میں ناقابل عبور دریا حائل ہوجاتا ہے ۔بالکل اسی طرح شہروں میں پڑھالکھا اور امیر طبقہ پسماندہ علاقوں سے گھریلوملازم رکھتا ہے بعض تو ملازمین کے والدین کو شیشے میں اتارتے ہیں کہ ان کے بچوں کو پڑھایابھی جائیگا ۔

والدین ٹھہرے غریب ، مجبور ومقہور اور بھوکوں کے ستائے ہوئے بچوں کے بہتر مستقبل کے سپنے سجائے غرور وتکبر کی تصویر کے ساتھ چلتا کردیتے ہیں اور پھر اکثر وبیشتر ملازمین کے بچوں پر جو گزرتی ہے وہ الامان الحفیظ !حکومتی سطح پر اگرچہ قوانین موجود ہیں جو کسی بھی مل یاکارخانہ کے باہر جلی حروف میں لکھے نظرآتے ہیں کہ یہاں 18سال سے کم عمر کے افراد کو ملازمت پر نہیں رکھا جاتا حالانکہ کارخانوں وغیرہ میں 8سے 10گھنٹے کی مشقت ہے اور گھریلوملازمین پر دن رات مشقت وتشدد اور اسکے بعد زیادہ سے زیادہ 4سے 5ہزاراور وہ بھی طعن وتشنیع کے ساتھ ۔ہمارے اردگرد چائے اور موٹر سائیکلوں کی دوکانوں پر کام کرنے والے چھوٹے چھوٹے بچے حکومتی کارکردگی کا منہ چڑا رہی ہے ۔انفرادی طور پر ہم نہ صرف حکومتی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں بلکہ معاشرے میں پنپتی ہوئی اس سفاکیت میں ہاتھ دھو رہے ہیں ۔مجموعی طور پر غریب ہی اس سے متاثر ہوتا ہے کیونکہ ان میں قانونی جنگ لڑنے کی ہمت نہیں ہوتی اور نتیجتاًصلح پرمجبور ہوجاتے ہیں ۔حکومت کو اس متعلق سخت قوانین بناکران پر سختی سے عمل پیراہونا ہوگا ۔

شیئر: