Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روشنیوں کا شہرکراچی، اب کچرا سٹی بن چکا

ایسا لگتا ہے کہ کراچی کو باقاعدہ منصوبے کے تحت کھنڈر بنایاجا رہا ہے
* * * * عنبرین فیض احمد۔کراچی* * * *
کراچی جسے ہم منی پاکستان کہتے ہیں اورجو آبادی کے لحاظ سے صوبہ سندھ کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر اورتجارتی مرکز ہے، وہ صفائی کے ناقص انتظامات کے تحت کچرا کنڈیوں میں تبدیل ہو گیا ہے۔ کراچی اب دراصل کراچی نہیں رہا بلکہ کچرا سٹی بن چکا ہے ۔ یہ وہ شہر ہے جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اب صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو تا جا رہا ہے ۔ کبھی سنا کرتے تھے کہ قائد کے شہر کی سڑکیں دھلا کرتی تھیں۔ اس کی سڑکیں آئینے کی طرح چمکتی دکھائی دیتی تھیں لیکن اب تو نہ جانے شہر قائد کو کس کی نظر کھا گئی ہے۔
اس شہر کی وہ چمک دمک، چکا چوند اورروشنیاں کچرے کے انبار میں کہیں گم ہو کر رہ گئی ہیں۔ جگہ جگہ لگے گندگی او رغلاظت کے ڈھیر انتظامیہ کی نااہلی کامنہ بولتا ثبوت ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق شہر قائد میںروزانہ 13-14ہزار ٹن سے زائد کچرا پھینکا جاتا ہے جس میں سے صرف چند ہزار ٹن کچرے کو ٹھکانے لگانے کی اہلیت موجود ہے۔ شہر کے نہ صرف گلی محلوں میں کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں بلکہ چھوٹی بڑی شاہراہوں پر بھی ایسے مناظر اکثر ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں جو ٹریفک کے لئے بھی خطرہ بن جاتے ہیں اور ان سے اٹھتا تعفن فضا میں آلودگی پیدا کرتا ہے۔ ساتھ ہی شہریوں کی زندگی بھی اجیرن ہورہی ہے۔ کچھ عرصے قبل تک کراچی بہت صاف ستھرا دکھائی دیتا تھا لیکن نجانے گزشتہ چند سالوں میں ایسا کیا ہوا کہ شہر دیکھتے ہی دیکھتے کچرا کنڈی میں تبدیل ہو گیا ۔
سندھ حکومت نے اپنے دور حکومت میں جو تجربات کئے ان کی وجہ سے شہر میں کسی بھی قسم کا مربوط سسٹم قائم نہ ہوسکا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کوئی صحیح قسم کا نظام کراچی میں قائم نہیں ہوپایا۔ شہر میں کچرا اٹھانے کے ذمہ دار ادارے غفلت کی نیند سوتے رہتے ہیں جو صرف میڈیا کے بار بار جھنجھوڑنے پر ہی کچھ دیر کے لئے خواب خرگوش سے بیدار ہوتے ہیں پھر لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ چند سال قبل سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھامگر آج تک اسے فعال نہیں بنایا جا سکا۔
حقیقت یہ ہے کہ 2کروڑ کی آبادی والا شہر جو پاکستان کی معیشت کا مرکز بھی ہے، اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ جس طرف بھی نگاہ اٹھتی ہے، کچرے کا ڈھیر ہی دکھائی دیتا ہے۔ کہیں پر سڑکیں کچرا کنڈی کا نقشہ پیش کر رہی ہیں تو کہیں پر گٹر ابلتے نظر آتے ہیں اور ان کچروں پر بھنبھناتی مکھیاں ، مچھر جو مختلف امراض کا باعث بنتے ہیں ، شہریوں کو سیخ پا کرتی ہیں۔ان کے باعث دنیا بھر کی بیماریاں اس شہر کا مقدر بنادی گئی ہیں۔ اس حال میں بہر حال ڈاکٹر خوش ہیں جن کی جیب گرم ہوتی ہے۔ رہے اسپتال تو ان کا حال ہم سب کو معلوم ہے کہ وہاں مریضوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب ماحول صاف ستھرا ہو تو انسان کا ذہن بھی صاف ستھرا رہتا ہے یعنی جب انسانی ذہن صاف ستھرا ہوتا ہے تو ہر فکر اور پریشانی سے آزاد ہوتا ہے۔ ایسے میں ذہن میں تعمیری سوچ اور اچھے خیالات جنم لینے لگتے ہیں لیکن جب گندا اور تعفن زدہ ماحول ہوتا ہے تو ذہنی کوفت ہوتی ہے اوروبائی امراض پھیلتے ہیں۔ انسان ذہنی طور پر بیمار رہتا ہے۔ اس میں سوائے منفی خیالات کے اور کچھ جنم نہیں لیتا۔ اسی لئے ہر تہذیب و تمدن کے لوگ صفائی ستھرائی پر زور دیتے ہیں۔
ہمارے دین اسلام نے ہمیں باور کرایا ہے کہ پاکیزگی نصف ایمان ہے۔ صفائی سے نہ صرف روحانی بلکہ جسمانی پراگندگی بھی دور ہوتی ہے۔ دھنک کے صفحے پرجوتصویر شائع کی گئی ہے وہ کراچی کے علاقے گولیمار کی ہے جہاں ہر قسم کے کچرے کے انبار لگے ہوئے ہیں اور ایک موٹرسائیکل پر سوار ایک شخص اور اس کی اہلیہ اس کچرے کے انبار سے گزرتے ہوئے پھسل کر گر ے اور علاقے کے لوگ انہیں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ شخص تو کسی طرح سے کچرے سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا مگر خاتون بیچاری زمین پر گر پڑیں اور کچرے میں لت پت ہو گئیں۔ قائد کے شہر کی زبوں حالی دیکھ کر ہر پاکستانی کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ان حالات کے تناظر میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’’نام بڑے اور درشن چھوٹے‘‘ وطن عزیز کے ہر بڑے شہرکی ایک ہی جیسی صورت حال دکھائی دیتی ہے۔
کیا کراچی، کیا اسلام آباد، کیا پشاور اورکیا لاہور، ہر دوسرے شہر کی تقریباً ایک ہی جیسی صورت حال دکھائی دیتی ہے۔ نہ کہیں گندے پانی کی نکاسی کا انتظام موجود ہے اور نہ ہی کچرے کو ٹھکانے لگانے کے انتظام۔ اگر بارش ہو جائے تو ہفتوں سڑکوں پر پانی کھڑا رہتا ہے او ریہی کچرے سے جو کیچڑ اور گندگی پھیلتی ہے، وہ عوام کے لئے کئی مہینوں تک مصیبت بنی رہتی ہے اور عوام اس عذاب سے گزرتے ہیں ۔اس کے باوجود افسوس کی بات یہ ہے کہ شہروں کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔
صحت مند اور تندرست رہنا تو ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔ صفائی اور حسن و جمال کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ تندرستی انسان کے چہرے سے ظاہر ہوتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی جیسے شہر کو برسہا برس سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جس سے کثیرزرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس شہر کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے جس کی 70فیصد آمدنی ملک کے خزانے میں جاتی ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں پاکستان کے ہر شہر،گاؤں اور قصبے کے لوگ روزگار کے لئے آتے ہیں۔ ہماری صوبائی حکومت ہو یا وفاقی حکومت، دونوں کاایک ہی جیسا حال ہے۔ دونوں ہی کراچی کے دگر گوں حالات دیکھ کر شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا لیتی ہیں۔لگتا ہے کہ ہمارے صاحبان کو عوام کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں جس کی وجہ سے کراچی کی سڑکوں پر دن بدن کچرے کے انبار بڑھتے جارہے ہیں اور اس سے اٹھتی بدبو اور تعفن شہری انتظامیہ اور حکومت کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔
اب توکراچی کے عوام ،حکام سے ناامید دکھائی دیتے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ ذمہ داران کو اپنی جیبوںکی فکر رہتی ہے۔ شہر میںنہ کوئی معقول نظام رہا،نہ ہی کوئی نظام چلانے والا۔ انجام کار عروس البلاد کہلانے والا یہ شہر کچرا کنڈی بنتا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ صاحبان اختیار میں رسہ کشی کے باعث شہر کا بیڑا غرق ہو گیااور یہ لاوارث ہو کر رہ گیا۔ عوامی خدمت کے دعویدار ہوں یا پھر سیاسی جماعتیں، ہر کوئی عوامی خدمات کی ذمہ داریوں سے منہ موڑتا دکھائی دیتا ہے۔ الغرض کراچی کے ہر علاقے یہاں تک کہ پوش علاقے تک گندگی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اس مسئلے کی ساری ذمہ داری حکومت پر ڈالنا بھی درست نہیں ہو گا کیونکہ ہمارے عوام بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ جس کو جہاں موقع ملتا ہے، اپنے گھرکا کچرا پھینک کر آگے نکل جاتا ہے۔
صفائی کے لئے حکومت اور انتظامیہ کو برا بھلا کہتا ہے او راسے ہی ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کروڑوں روپے کے فنڈز سے قائم پارک اور تفریحی مقامات بھی اس گندگی سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اسکول ہو یا کالج، دفتر ہو یا خاص سرکاری عمارتیں ہر جگہ عوام نے پان تھوک تھوک کرانہیں لال کررکھا ہے یعنی کراچی کی کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں گندگی اور غلاظت انتظامیہ کو منہ چڑاتی نظر نہ آتی ہو ۔ اکثر گٹر بند ہو جاتے ہیں۔ علاقہ مکین خود انہیں کھولنے کا معرکہ بھی سر انجام دیتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جہاں یہ کچرے کے ڈھیر عوام کے لئے عذاب ہیں وہاں بھولے بھٹکے پرندوں اور جانوروں کے لئے پیٹ بھرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔ اگر حکومت اس طرف توجہ دے تو اس کچرے کو ر ی سائیکل کر کے ایندھن کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ کسی زمانے میں یہ وہ شہر تھا جوترقی یافتہ دنیا کے کسی خوبصورت اور حسین شہر کی طرح نہیں تو اس سے کم بھی نہیں تھا۔ نہ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوتے تھے ،نہ غلاظت اور گندگی دکھائی دیتی تھی۔ نہ خالی پلاٹ کچرا کنڈیوں کا منظر پیش کرتے تھے اور نہ ہی بے ہنگم ٹریفک کا شور شراباتھا۔نہ دہشت گردی کا خوف تھا او رنہ ہی چوری چکاری کا ڈر۔ آج توایسا لگتا ہے کہ کراچی کو باقاعدہ منصوبے کے تحت کھنڈر بنایاجا رہا ہے ۔آج کراچی کسی فالج زدہ جسم کی مانندسسک سسک کر زندہ رہنے کی کوشش کرتا رکھائی دیتا ہے ۔

شیئر: