Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صفائی کا معیار ، انسان کی شخصیت کا آئینہ دار

نجانے لوگوں کویہ اندازہ کیوںنہیں ہوتا کہ صفائی ستھرائی کا معیار ایمان کی گواہی خود بخود دے دیتا ہے
* * * *اُم مزمل۔جدہ* * *
وہ بہترین منتظم تھی۔ محلے بھر کی خواتین کو جمع کرکے انہیں منظم طور پر اپنے کام کی ادائیگی کی ترتیب سے متعارف کرارہی تھی ۔کہہ رہی تھی کہ ہمارے ہر گھر میں گیس کا چولہا ضرور ہونا چاہئے لیکن روزانہ ہر خاتون کا باورچی خانے میںسارا دن ضائع کرنا مناسب نہیں۔ اس کے لئے اس نے یہ ترکیب آزمائشی طور پر متعارف کرائی کہ ہر گلی میں موجود گھرانے ایک کھلی جگہ بڑے گھر میں جمع ہو کر کھانا پکائیں ۔اس طرح سب لوگوں کی بجائے صرف10 گھروں کی خواتین کی ضرورت پڑے گی۔ ہر ہفتے اس کی ترتیب بدل دی جائے گی۔ دوسری خواتین سلائی کڑھائی ،کپڑوں کی چھپائی ، چادروں کی پینٹنگ ،گلاس پینٹنگ وغیرہ کریں اور پھر اپنی مدد آپ کے اصول پر کاربند ہو کر جیسے اپنے علاقے کے بہت سے مسائل حل کر رہے ہیں، ایسی تجارت کا آغاز کریں جس کو مکمل طور پر خواتین انجام دیں۔ پھرمرد حضرات ان اشیاء کو دوسرے شہروں تک لے جائیں۔اس طرح سارا محلہ ایک خاندان بن کر اپنے تمام کام انجام دے گا ۔
جو وہ کہہ دیتی تھی، محلے والے اس کے احترام میںاس کی تمام باتوں پرعمل درآمد کرنے لگتے تھے۔ بزرگوں نے اپنی چوپال میں روزانہ کی کارگزاری میں اس تجارت کا ذکر کرنے پر اپنی مہر بھی ثبت کردی۔ اب ہر گلی کے پہلے گھر میں خواتین کا ایک گروپ کھانا تیار کرتا، دوسرے گھر میں لڑکیاں سلائی مشین پر کام کرتیں اور تیسرے گھر پر ہر طرح کی پینٹنگ کا کام ہوتا اور پھر یہ ترتیب بدلتی رہتی ۔ ہر گروپ کام کیلئے اپنی باری پر دستیاب رہتا۔اس طرح ہر خاتون خانہ یا طالبہ ہر کام میں طاق ہوتی گئی۔ اب وہ چاہتی تھی کہ ہر ماہ کچھ خواتین باری باری اپنے ملک کے شہری علاقوں کی سیر کو جائیں۔ آج تمام بزرگوں کی جانب سے سیرو سیاحت کی اس درخواست پر منظوری بھی حاصل ہو گئی تھی ۔ وہ پوچھ رہا تھاکہ اسکوٹر پر تم جانا چاہتی ہو تا کہ پہلے خود جا کر دیکھو، پھر سیر کیلئے بس کا انتظام کرو۔ اگلے ماہ سے ہر ماہ کی پہلی جمعرات کو بس روانہ ہوگی اور ایک ہفتے کی سیاحت کے بعد دوبارہ اپنے گاؤں واپس ہو گی۔
وہ کہنے لگی کہ اچھا ہو گا کہ پہلے وہاں جا کرریسٹ ہاؤسز بک کر لئے جائیں۔بازاروں کی معلومات بھی ہو او رمختلف مدارس اور کالجوں کا دورہ کرنے کیلئے ان کا شیڈول بھی معلوم کر لیا جائے۔ مختلف کمپنی سے ان کے انڈسٹریل علاقے میں موجود مل اور فیکٹری کے وزٹ کی اجازت بھی حاصل کر لی جائے۔ وہ دونوں داداجان کے بتائے ہوئے گیسٹ ہاؤس تک پہنچ بھی نہ پائے تھے کہ موسلا دھار بارش نے تمام راستے مسدود کر دیئے۔ کہیں شیڈ میں تھوڑی دیر کیلئے رکنا پڑا۔وہ حیرانی سے اردگرد دیکھ رہی تھی۔ جتنی دیر وہ ان سڑکوں پر سفر کرتی رہی، اردگرد کا جائزہ بھی لیتی رہی۔ نجانے لوگوں کو کیوں اندازہ نہیں ہوتا کہ صفائی کا معیار دراصل انسان کو خود اپنی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ جس طرح حکمراں ، عوام کا عکس ہوتے ہیں۔ اسی طرح صفائی ستھرائی کا معیار ایمان کی گواہی خود بخود دے دیتا ہے۔ گھر کی صفائی ، محلے کی صفائی ہر صورت میںہونی چاہئے ۔اس کے لئے چاہے حکومت اپنا کردار ادا کرے یا نہ کرے لیکن گھر کا کوڑا کرکٹ اٹھانے اور محلے بھر کی صفائی کا بیڑا خود اٹھانا چاہئے۔ کچرے کو کچراکنڈی میں پھینکنا چاہئے۔ اس طرح بارش سے پیدا ہونے والی اس عجیب و غریب صورتحال سے بچا جا سکتا تھا۔ جواب اس کے سامنے تھا۔
کچرے اور بارش نے باہم خلط ملط ہو کرعجیب بدنما منظر پیش کر دیا تھا۔ ٹوٹی سڑک دیکھ کر وہ پوچھ رہی تھی کہ ہمارے یہاں جو اپنی مد دآپ کی بنیاد پر سڑکوں کی تعمیر ہوئی ہے،وہ تو 2 عشرے گزر جانے کے باوجود آج بھی مضبوطی سے اپنی جگہ پر براجمان ہے۔ ان کی سڑک بارش کا پانی اپنے اندر کیوں سمیٹے جا رہی ہے او رپھر چند گھنٹوں میںگڑھے بھی نمودار ہو گئے ہیں۔ کیا شہر کے لوگ بے وقوف ہیں کہ اپنی سہولت کی چیزیں بھی غیر معیاری بنا رہے ہیں؟ صفائی کا ناقص انتظام ان کے اپنے افراد خانہ کیلئے بیماریوں کا موجب بن رہا ہے۔ وہ سوال کا جواب دینے کی بجائے اطمینان سے ریسٹ ہاؤس سے چند دنوں میںہی واپسی کی راہ لینے پر آمادہ ہوا او رکہنے لگا کہ جناب کو یہ تو معلوم ہو گا کہ دنیا میں جتنے لوگ ہیں وہ سب اپنے آپ کو عقل مند سمجھتے ہیں،چاہے کسی بھی درجے کا سمجھیں۔ کوئی نہیں کہے گا کہ چونکہ وہ یا اس کی قوم بے وقوف ہے اس لئے اپنی نسل نو کیلئے کوئی بہتری کا کام انجام دینے پر رضا مند نہیں بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم مادی ترقی کے ذریعے ،ایک جگہ بیٹھے لوگوں کو ہزاروں میل دور بیٹھے لوگوں سے چند لمحوں بلکہ پلک جھپکتے میںآڈیو وڈیو کے ذریعے رابطے میں لے آئے ہیں۔
اب اس سے بہترین اور کیا بات ہو گی۔ دن رات باتیں کرو او رخوش رہو۔ وہ چپ چاپ ساری باتیں سن کر پوچھنے لگی کہ کیا اس طرح صرف باتوں سے انسان کی ہر ضرورت پوری ہو سکتی ہے؟ انسان ہوا کھائے گا یا مٹی پھانکے گا۔ آخر زندگی گزارنے کیلئے کچھ تو کام کرنا پڑے گاناں۔ میں تو آج تک گاؤں کو گاؤں اور شہر کو شہر سمجھتی رہی تھی لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ اس شہر کے مقابلے میں ہمارے گاؤں کی صاف شفاف سڑکیں، مضبوط گھر اور کم خرچ والی تعمیرات نیز دیگرمروجہ علوم کے ساتھ کم از کم ایک گھنٹے کی دینی تعلیم و تدریس ہمیں ان سے کہیں آگے لے جا رہی ہے۔
ہمارے گاؤں کا ہر آدمی کم از کم میٹرک پاس تو ضرور ہے۔ ہر گھر میں اپنی ضرورت کی ہر چیز میسر ہے۔ وہ بتارہاتھا کہ لوگ مادی اشیاء کو روحانی ترقی پر ترجیحی دے رہے ہیں ۔جب ہی یہ حال ہے حالانکہ ہمارے بزرگوں نے ہمیں بتا دیا ہے کہ پہلے اپنے بچوں کو دینی تربیت دو اور دینی احکامات پر عمل پیرا ہونا سکھا ؤ، وہ خود بخود حقیقت حال کو جان لیں گے۔ دنیا ان کیلئے باندی بن جائے گی جس کی اہمیت نہ ہو گی ۔اس کے لئے حد سے زیادہ کوشش بھی نہیں کی جائے گی۔ وقت پر نماز پڑھنے سے وقت میںبرکت ہوتی ہے، اجتماعیت سے سکون اور اطمینان ملتا ہے۔برکت و رحمت اسے حاصل ہو تی ہے جو اسے طلب کرتا ہے ۔ مل جل کر رہنا، نماز کی پابندی کرنا، مسجدوں کو آباد کرنا اور اجتماعی طورپر گاؤں، بستی اور اپنے رہائشی علاقے کی ترقی میں کردار ادا کرنا ،سب کا فائدہ اجتماعی ترقی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ وہ علم وعمل کے مفہوم کو ذہن میں دہرا رہی تھی۔واپسی پر لوگوں سے کہا کہ وہاں ہر چیز ملے گی۔ لوگ شہروں میں ہر وقت مصروف و مشغول نظر آئیں گے لیکن چونکہ ان کی ترجیحات پہلی جتنی نہیں رہیں، ہر کوئی اپنی اپنی ترقی میں مصروف عمل ہے۔ فرد کی ترقی سے کہیں بہتر افراد کی ترقی ہے جو اجتماعی حیثیت میں ہوتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھیں، اپنے دستر خوان کو وسیع کریں اور رزق حلال سے زندگی کو آگے بڑھائیں ، دنیا کی طلب دل سے نکلتی جائے گی اور معاشرہ شفافیت اختیار کرتا جائے گا۔

شیئر: