Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قدم بڑھاؤ

افسر شاہی کے لئے پیغام ہے کہ وہ بھی ریاست کی وفاداری کے لئے قدم بڑھائیں،عوام ان کے ساتھ ہے
* * * * محمد مبشر انوار* * * *
پانامہ مقدمہ بظاہر اپنے آخری مراحل میں داخل ہوتا نظر آ رہا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد عدالت عظمیٰ نے نہ صرف اس رپورٹ کو عام کر کے ،حکومت اور مخصوص میڈیا گروپ کی غلط تصویر کشی کو روک دیا بلکہ فریقین کو واضح ہدایت نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ پیشی پر رپورٹ کے مندرجات یکسوئی اور حقیقی معنوں میں سمجھ کر عدالت آئیں۔ اس کی وجہ تسمیہ واضح تھی کہ فل بنچ میں شامل 2معزز جج صاحبان نے مواد کو کافی سمجھتے ہوئے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا تھا جبکہ باقی 3 معزز جج صاحبان کے خیال میں وزیر اعظم اور ان کے وکلاء کو ایک بھرپور موقع اور فراہم کرنا قانوناً ضروری تھا تا کہ کسی بھی قسم کے ابہام سے پاک فیصلہ سنایا جا سکے مگر بد قسمتی کہ اس فیصلے میں جے آئی ٹی کی تشکیل پر (جو کہ وزیر اعظم کے وکلاء کا مطالبہ تھا)ہر دو فریق نے اپنی فتح کے شادیانے بجائے تھے۔
وزیر اعظم اور ان کے کیمپ کو یہ گمان تھا کہ جس طرح ماضی میں وہ اداروں کو ہینڈل کرتے آئے ہیں بعینہٖ اسی طرح اس مرتبہ بھی وہ حکومتی اداروں کے ساتھ کوئی انڈراسٹینڈنگ کر لیں گے یا حکومتی اداروں کے کارپردازوں سے اپنے مطلب کی تفتیش کروا کر خود کو بے قصور ثابت کر دیں گے۔اس مقصد کی خاطر حکومت نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں جن افسروں کے نام عدالت عظمیٰ کو پیش کئے ،انہیں عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان نے فی الفور مسترد کرتے ہوئے حکومت کو نہ صرف سرزنش کی بلکہ حکومت سے گریڈ 18 سے اوپر کے تمام حاضر سروس عہدیداروں کی لسٹ مانگ لی اور ملکی تاریخ کی اس اہم ترین جے آئی ٹی کی خود تشکیل کی اور اس میں ایسے نیک نام افسروں کی تعیناتی کی گئی جن کا ماضی اور پرفارمنس بے داغ تھی۔ حکومت نے طوعاً وکرھاًاس کو تسلیم کیا مگر اس کے ممبران کی جانبداری پر اول روز سے ہی انگلیاں اٹھنی شروع ہو گئی اور حکومتی وزراء و مشیران نے ان افسران کے تعلقات کو حزب مخالف یا ذاتی دشمنوں سے ثابت کرنا شروع کر دیا۔
دوسری طرف حزب مخالف بالخصوص تحریک انصاف بھی ایک وقت میں اس جے آئی ٹی کی کارکردگی سے مشکوک ہو گئی اور ایسے بیانات آنا شروع ہو گئے کہ جیسے حکومت جے آئی ٹی ممبران کو دباؤ میں لا چکی ہے اور اب اس تفتیش سے کوئی کارآمد بات نہیں نکلے گی،بعینہٖ تحریک انصاف کی نظر میں ایک بار پھر میاں نواز شریف اپنی بریت کے قریب تر پہنچ چکے ہیں حتیٰ کہ دوران تفتیش حکومتی زعماء اور وزیر اعظم کے خاندان کی میڈیا سے گفتگو تک انہیں ایک مذاق اور مک مکا نظر آتی رہی۔ دوسری طرف جے آئی ٹی سر جھکائے اس تمام تر تنقید سے مبرا خاموشی اور انتہائی دلجمعی اپنے کام میں جتی رہی،اس دوران اس کے ممبران کو ہر طرح کی حرص و لالچ ،ڈرانے دھمکانے کے علاوہ جان تک کی دھمکیاں تک ملی ۔بعینہٖ جیسے ایان علی کیس کے انسپکٹر اعجاز کو فرض شناسی میں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے(اللہ تبارک و تعالیٰ ایسے فرض شناس افسروں کی مغفرت فرمائے کہ جن کی قربانیاں رنگ لانے کو ہیں اور وطن عزیز میں ایک خوشنما صبح طلوع ہونے کو ہے۔ ان شاء اللہ)
مگر آفرین ہے ان افسران پر جنہوں نے کسی لالچ یا دھمکی کے سامنے سر نہیں جھکایا اور پوری تندہی سے اپنے فرض سے عہدہ برآ ہوئے۔مبارک صد مبارک میرے وطن کے سپوتو! اس کا اجر باذن اللہ آپ کو مل کر رہے گا اور ان سے اور بہت سے چراغ جلیں گے،ان شاء اللہ۔عدالت عظمیٰ نے اس سارے عرصہ میں ان افسران کو اپنی بھرپور سپورٹ فراہم کی اور ہر اس مسئلے کو ،جس سے یہ افسران دوچار ہوئے،اس کا بھر پور ازالہ کیا تا کہ وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہو سکیں۔ نہ صرف وزیر اعظم ،ان کے خاندان بلکہ اس قماش کے دیگر سیاستدان ، افسر شاہی (بیورو کریٹ)، میڈیا اور دیگر حکومتی اداروں میں براجمان افراد جو کرپشن میں بری طرح لتھڑے ہوئے ہیں جن کا کام ریاست کی بجائے صرف شاہی خاندانوں کی کرپشن میں اعانت رہا ہے۔انہیں یہ اندازہ ہی نہیں ہو رہا کہ اَن دیکھا مکافات عمل شروع ہو چکا ہے ،اللہ تعالیٰ کی بے آواز لاٹھی اپنی پوری شدت کے ساتھ حرکت میں آ چکی ہے۔ قانونِ قدرت (ہر کمال کو زوال ہے)روپذیر ہے اور کوئی وقت جاتا ہے کہ اللہ کی فانی زمین کے فانی کردار ’’فنا ‘‘ہونے کو ہیں۔ حکمران کتنے ہی زور آور کیوں نہ ہوں مگر اللہ تعالیٰ کے نظام سے بچ نہیں سکتے،کیسے کیسے نام ہیں جو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے،ان کا کروفر دنیا کے سامنے ایسا کہ عوام سے بات کرتے وقت لکنت کا شکار،تکبرایسا کہ اشارۂ ابرو سے کسی کی بھی زندگی بنا بھی دیں اور ختم بھی کر دیں،زمین سے اٹھا کر تخت کا مالک بنا دیںاور تخت سے گرا کر فرش نشیں کر دیں۔
یہی وہ فارمولا تھا ،یہی وہ اختیارات تھے جنہوں نے افسر شاہی کو شاہی خاندانوں کا غلام بنا رکھا تھا اور افسر شاہی کی معتد بہ اکثریت اس جال کو توڑنے میں ناکام تھی،اسی لئے وہ بہتی گنگا میں ،اسی رو کی روانی کے ساتھ ساتھ بہتی چلی آ رہی تھی۔کسی میں یہ جرأت یا ہمت نہ تھی کہ آئین و قانون کی بات کر سکے۔ جن کا دامن صاف تھا،جو قاعدے قانون کی بات کرنے والے تھے،ان کا انجام یا تو انسپکٹر اعجاز سا ہوتا یا محمد علی نیکو کارا کی طرح انہیں ملازمت سے نکال باہر کیا جاتا یا شارق صدیقی کی طرح انہیں صوبہ بدر کر دیا جاتا۔ اس غدر کے ہنگام کون ایسا مائی کا لال ہوتا کہ آئین و قانون کی بات کر سکتا؟اب! مگر حالات بدلتے نظر آ رہے ہیں کہ صرف ایک ادارے،جی صرف ایک ادارے نے (وہ بھی اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے،آئین کی تشریح کرتے ہوئے وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ختم کر دیا)سربراہ کی تعیناتی کو حکومتی رسوخ سے آزاد کرایا اور اس کے ثمرات بتدریج ظاہر ہو رہے ہیں کہ کیسے عدالت عظمیٰ کسی بھی دباؤ کے بغیر اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہے۔دوسری طرف لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ صاحب کا یہ اقدام بھی انتہائی قابل تحسین ہے کہ ایک رٹ پٹیشن کے جواب میں نہ صرف متعلقہ ادارے کو تفصیلات فراہم کر دیں بلکہ شکوک و شبہات کے خاتمے کیلئے تمام ریکارڈ پبلک کر دیاکہ کاملاً میرٹ پر منتخب ہوئے اورتمام امور میرٹ پر سر انجام دے رہے ہیں ۔کتنے ایسے عوامی بہبود و آئینی معاملات ہیںجن پر جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے بغیر دباؤ کے فیصلے دئیے ہیں۔
اس وقت تک افسر شاہی میں ترقی کا شارٹ کٹ فقط ایک ہی ہے کہ کسی طرح حکمران خاندانوں کے ساتھ تعلقات پیدا کرکے ،ان کی ذاتی خدمت کرکے آگے بڑھا جائے،اس میں ریاست اور عوام کو کتنا نقصان ہوتا ہے،انہیں اس سے کوئی سروکار نہیںجبکہ افسران شاہی درحقیقت ریاست کی ملازم اور عوامی ٹیکس سے تنخواہ وصول کرتی ہے مگر ریاست کی نوکری ایسے زکوٹا جنوں کی خواہشات پوری کرنے سے قاصر ہوتی ہے اس لئے انہیں حکمران خاندان کی ذاتی ملازمت کرنا پڑتی ہے۔ اس سارے پس منظر میں جے آئی ٹی کی فرض شناسی دیگر افسران کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہونی چاہئیں کہ زندگی میں دولت ہی سب کچھ نہیں،عزت،نیک نامی اور فرض شناسی اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔پانامہ کے سبب پاکستان میں نئی صبح طلوع ہو رہی ہے،جس میں ریاست اور عوام کے وفاداروں کو سلام کیا جائے گا، افسر شاہی کے لئے پیغام ہے کہ وہ بھی ریاست کی وفاداری کے لئے قدم بڑھائیں،عوام ان کے ساتھ ہے۔

شیئر: