Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایصال ثواب کی حقیقت کیا ہے؟

* * * *ام عدنان قمر۔ الخبر* * *
(گزشتہ سے پیوستہ)
ریل گاڑی یا ہوائی یا بحری جہاز پر روانہ ہونے کے وقت اولیاء اللہ کے لئے کچھ لوگ فاتحہ پڑھتے ہیں تاکہ وہ سفر میں مسافر کی حفاظت کریں حالانکہ یہ کھلی ہوئی جہالت بلکہ ضلالت اور شرک ہے۔ مسلمانو! جب بھی سوال کرو تو اللہ تعالیٰ سے کرو، جب مدد مانگو تو اللہ تعالیٰ سے مانگو اور اس بات پر یقین رکھو کہ اگر ساری امت متحد ہو جائے کہ تم کو ذرا بھی فائدہ پہنچانا چاہے تو جتنا اللہ تعالیٰ نے فائدہ پہنچانا مقرر کیا ہے، اس سے کچھ بھی زیادہ فائدہ نہیں پہنچا سکتے اور اگر سب لوگ مل کر چاہیں کہ تم کو ذرا بھی نقصان پہنچادیں تو جتنا اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے اس سے زیادہ نہیں پہنچا سکتے۔
سفر سے پہلے مشروع طریقہ یہ ہے کہ سفر کے لئے نکلتے وقت خود کو اور اولاد و مال کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کردیا جائے اور غیر اللہ سے مدد و حفاظت کی ہرگز درخواست نہ کی جائے کیونکہ نفع و نقصان پہنچانا صرف مالک ِارض و سما ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ اس قسم کے تمام شکوک و شبہات کا ازالہ خود اللہ تعالیٰ نے سورہ یونس،آیت49 میں فرما دیا ہے ،اپنے اشرف الخلق نبی اکرم سے کہلوا دیا ہے: "(اے پیغمبر!) کہہ دے میں اپنی جان کے نفع اور نقصان کاتومالک نہیں مگر جواللہ چاہے۔ " اسی سورت کی آیت107 میں ارشادِ الٰہی ہے: "اور اگر اللہ تعالیٰ تجھ کوکوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اُس کا کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر تجھ کو کوئی فائدہ پہنچانا چاہے تواس کے فضل کو کوئی پھیر دینے والا (روکنے والا)نہیں۔" ان قرآنی آیات اور نبی کریمکی احادیث کی رو سے جب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کے نفع و نقصان کا مالک نہیں اور نہ کوئی کسی کی قسمت سنوار سکتا ہے اور نہ بگاڑ سکتا ہے تو پھر ایسی بدعت کا فائدہ کیا ہے؟ مروجہ ’’الفاتحہ‘‘ بے اصل اور من گھڑت ہے۔ اس کی کہیں کوئی بنیاد نہیں، یعنی بے بنیاد بدعتوں میں سے ایک بدعت یہ بھی ہے۔
اسی طرح قرآن کے تعویذ بناکر اس کا کچھ حصہ لکھ کر نظرِبد سے بچنے کے لئے بچوں یا بڑوں کے بازو یا گلے میں لٹکانا یا موٹر کار اور دکانوں پر لٹکانا بھی بدعت ہے۔ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ نظرِ بد سے بچنے کے لئے صبح وشام کے وقت مسنون اذکار پڑھیں اور سونے کے وقت آیت الکرسی اور سورۃ البقرہ کی آخری 2 آیات اور تیسوںپارے کی آخر 2سورتیں جنہیںمعوذتین کہا جاتا ہے یا احادیث میں نظرِ بد کی جو دعائیں رسول اللہ سے ثابت ہیں، ان کو پڑھاجائے تو ان شاء اللہ آپ ہر قسم کے شر سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں گے۔ قبروں پر نذر،ذبیحہ اورختمِ قرآن کی بدعت: قبروں پر مردوں کی برسی کے دن ختمِ قرآن کرانا اور جانور ذبح کرکے قرآن خوانی اور برسی کی تقریب میں شریک ہونے والوں کو کھانا کھلانا اور قبر پر نقد روپے پیسے کی شکل میں نذر پیش کرنا اور ان سب اعمال کے ساتھ یہ عقیدہ رکھنا کہ صاحبِ قبر ان چیزوں سے خوش ہوکر ہمیں فائدہ پہنچائیں گے اور ہمیں نقصان سے بچائیں گے اور یہ کہ صاحبِ قبر ہدایا کو قبول کرتے ہیں، ہرگز ایسا نہیں، یہ تو بہت بڑی بدعت بلکہ شرک ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ایسے شخص پر نبیٔ رحمت نے لعنت فرمائی ہے اور کہا ہے: "جس نے غیر اللہ کے لئے ذبح کیا وہ ملعون ہے۔" یعنی اللہ کی رحمت سے دورہے۔ آنحضرت کا ارشاد ہے کہ ایک شخص ایک مکھی کی وجہ سے جنت میں گیا اور دوسرا ایک مکھی کے سبب جہنم میں گیا۔ لوگوں نے سبب پوچھا تو آپنے فرمایا: "ایک امت میں 2لوگ سفر کرتے ہوئے ایک استھان (مزار) کے پاس سے گزرے جہاں ایک بت تھا۔
مجاورین نے دونوں کو کچھ نذر پیش کرنے کی تاکید کی اور دھمکی دی کہ یہاں سے گزرنے کے لئے کچھ بھی پیش کرنا ضروری ہے، چاہے ایک مکھی ہی سہی، ورنہ قتل کر دیے جاؤ گے۔ ایک شخص نے ڈر کے مارے ایک مکھی بت کی بھینٹ چڑھا دی، جس کے سبب وہ جہنم میں گیا۔ دوسرے نے مکھی بھی نذر کرنے سے انکار کیا تو اسے شہید کردیا گیا جس کے سبب وہ جنت میں داخل ہوا۔" کہنے کو تو یہ معمولی سی مکھی ہے، چھوٹی اور حقیر مخلوق ہے، کھانے پینے والی اشیا میں گر جائے تو ہم اسے کھاتے پیتے نہیں لیکن اس کی وجہ سے ایک آدمی جہنم میں کیوں گیا؟ کیا وجہ تھی؟ وہ اس لئے کہ اس کا بنانے والا خالق و مالک جو ہے اس کی طرف سے اجازت نہیں کہ مکھی کو بھی اس کے علاوہ کسی اور کے نام نذر کر دیا جائے اور یہی فعل اس کا اس کے رب کو پسند نہیں آیا اور یہ ہمیشہ کے لئے جہنمی ہوگیا۔
نذر ایک عبادت ہے اور عبادت غیر اللہ کے لئے شرک ہے اور ہرقسم کی عبادت صرف اللہ رب العزت کے لئے ہے۔ اس طرح بہت سی بدعات ہیں جنہیں لو گ عبادت سمجھ کر کرتے ہیں، اس لئے نبی اکرم نے تمام بدعتوں پر گمراہی کا حکم لگایا ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے فرمایا کہ عام بدعتیں جن کا تعلق علوم و عبادات سے ہے، یہ خلفاے راشدینؓ کے آخری دورِ خلافت میں رونما ہوئیں، جیسے نبی کریم نے اس کی خبر دی ہے۔ آپ نے فرمایا: "تم میں سے جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے، وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھیں گے تو تم لوگ میری سنت اور میرے بعد خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑ لو اور اس پر جمے رہو۔" کتاب وسنت پر مضبوطی سے جمے رہنے ہی میں بدعت و گمراہی میں پڑنے سے نجات ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی رحمت نے ہمارے سامنے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا کہ یہ اللہ کا راستہ ہے، پھر اس کے دائیں اور بائیں چند لکیریں کھینچیں اور فرمایا: یہ بہت سارے راستے ہیں اور ان میں سے ہر ایک راستے پر شیطان ہے جو اپنی جانب بلا رہا ہے،پھر آپ نے سورہ الانعام (آیت153) کی تلاوت فرمائی: "اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے تو تم اسی پر چلنا اور دوسرے راستوں پر نہ چلنا کہ (اُن پر چل کر) اللہ کے راستے سے الگ ہو جاؤ گے،ان باتوں کا اللہ تمہیںحکم دیتا ہے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔" بخاری شریف میں ارشادِ نبوی ہے: "جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔" سورت آل عمران،آیت31 میں ارشاد ِالٰہی ہے: "(اے پیغمبر ! لوگوں سے)کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو یعنی محبتِ الٰہی کے طلب گار ہو تو میر ی پیروی کرو، اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا (یعنی محبت کرے گا) اور تمہارے گناہ بھی معاف کر د ے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔" اللہ کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ کی اتباع کی جائے۔ اس آیتِ کریمہ نے اس بات کا فیصلہ کر دیا ہے کہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ تو کرے لیکن وہ حضرت محمد رسول اللہ کے طریقے پر نہ ہو تو وہ اپنے حبِ الٰہی کے دعوے میں اس وقت تک جھوٹا ہے جب تک وہ اپنے تمام اقوال و افعال اور احوال میں شریعتِ محمدیہ اور دینِ نبوی کی پیروی نہ کرے، جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہنے فرمایا: "جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا امر نہیں تو وہ مردود ہے۔" اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "اے میرے نبی()!لوگوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔" یعنی تمہیں تمہاری طلب سے بھی بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوگی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور وہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا، وہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔" رسول اللہ کی اتباع کی برکت سے تمہیں یہ سب کچھ حاصل ہو جائے گا۔
سنتِ رسول اللہ اور آپ کے ارشادات پر عمل کرنے والوں سے خوش ہوکر اللہ انہیں وہ جنت دے گا جو قرآن پاک کے کئی مقامات پر مذکور ہے۔ مثلاً سورۃ النساء،آیت13 میں فرمانِ الٰہی ہے: "یہ (تمام احکام) اللہ کی حدیں ہیں اور جو شخص اللہ اور اس کے پیغمبر() کی فرمانبرداری کرے گا اللہ تعالیٰ اُس کو ان جنتوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ ان کے لئے بڑی کامیابی ہے۔" جب آدمی اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت کو مانے، پھر اس کے مطابق اخلاق اور عمل کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کرلے، تب وہ فلاح سے ہم کنار ہوگا اور یہ چیز ایمان اور عملِ صالح کے بغیر نہیں ہوتی۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں بھی ایسی جنتوں میں داخل کرے تو پھر ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی حدیں نہ توڑیں، اللہ نے ہمیں جس چیز کا حکم دیا ہے، اس کو اپنا معمولِ زندگی بنالیں اور رسول اللہ کی سنتوں کا خیال رکھیں کیونکہ سنتِ نبوی ؐ کی مخالفت کرنے والوں کو جہنم کی سزا سناتے ہوئے سورۃ النساء،آیت115 میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: "اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اُسے اُدھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت بُری جگہ ہے۔"ا صحیح بخاری میں ہے ،نبی اکرمنے فرمایا: امیری امت کے تمام افراد جنت میں جائیں گے، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے انکار کیا۔ آپسے پوچھا گیا :اے اللہ کے رسول !دخولِ جنت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ تو آپنے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے(دخولِ جنت سے) انکار کیا۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ آپنے اتباعِ سنت کے اجر و ثواب اور مقام و مرتبے کا پتہ دینے کے لئے ایک مثال دیتے ہوئے فرمایا: "میری مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے آگ جلائی،جب اس آگ کے ارد گرد روشنی ہوگئی تو پروانوں اور کیڑوں نے جو آگ میں گرتے ہیں، اس آگ میں گرنا شروع کر دیا، وہ آدمی ان پروانوں کو اس آگ میں گرنے سے روکتا ہے لیکن وہ زبردستی اس آگ میں گر جاتے ہیں، ایسے ہی میں بھی تمہیںنارِجہنم سے پکڑ پکڑ کر روکتا ہوں مگر تم زبردستی اس آگ میں گرتے جاتے ہو، میری اور تمہاری یہی مثال ہے۔" اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ نبی اکرمکی تعلیمات نارِ جہنم سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہیں، جو انہیں اپنالے گا، وہ بچ جائے گا اور جسے انکار ہے، وہ جہنم کا سامان بن جائے گا۔پس جو بھی کتاب و سنت سے روگردانی کرے گا تو اسے گمراہ کن راستے اور نئی نئی بدعتیں اپنی جانب کھینچ لیں گی۔
اے مسافر! دنیا کی زندگی میں نہ کھو جا۔ اللہ سے غلط امیدیں نہ باندھ۔ گنتی کے چند سانس تیرے پاس ہیں۔جس طرح دنیا کیلئے محنت کر تا ہے، اس سے کہیں بڑھ کر آخرت کے لئے تیاری کر۔آج اللہ تعالیٰ نے ہمیں موقع دیا ہے کہ اگر ہم سے جانے انجانے میں کوئی غلطی ہوگئی ہے تو ہم اللہ سے توبہ کریں۔ ہمارے خالق و مالک نے ہمیں توبہ کرنے کا بہترین سلیقہ بھی سکھا دیا ہے جو قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے ذریعۂ نجات بن گیا۔ یہ سلیقہ یہ تعلیمات کیا ہیں جن سے توبہ قبول ہوگی؟ وہ تعلیمات وہی ہیں جن سے ہم سب کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔
آج ہمارے لئے بھی وہی الفاظ اور و ہی دُعا قرآنِ کریم سورۃ الاعراف 23 میں موجود ہے: "اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم خسارہ ٹھانے والوں سے ہو جائیں گے۔" یعنی اے اللہ ! تُوہماری مغفرت نہ کرے گا تو ہم واقعی نقصان پانے والوںمیں سے ہو جائیں گے اور پھر اللہ نے ان کو معاف کردیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو سچے دل سے توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، صحیح دین کا شعور عطا کرے، بدعات و منکرات سے محفوظ رکھے اور اتباعِ سنت کی توفیق دے کیونکہ سرورِ کائنات کے قول و عمل اور تقریر کا نام ہی سنت ہے۔ جو مسلمان آپ کی صحیح اور ثابت شدہ سنت کے مطابق زندگی گزار رہا ہو، وہی اہلِ سنت ہے، وہی اللہ تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار بھی ہے اور وہ ہی اللہ کی رحمت سے جنت الفردوس کا منتظر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر قسم کے فتنوں اور ہر بدعت و گمراہی سے محفوظ رکھے اور ہم سب کا خاتمہ دینِ اسلام اور ایمان کی حالت میں بالخیر کرے، آمین۔

شیئر: